Urdu Deccan

Saturday, January 8, 2022

راشید ماہی

 یوم پیدائش 05 جنوری


میں کوئی سر نہ پیر ہوتا ہوں

جب بھی تیرے بغیر ہوتا ہوں


جتنی شرطیں ہیں تیری یاروں پر

ایسے تو میں بھی غیر ہوتا ہوں


سامنے آ نہ جاؤں تیرے کبھی

جیسا تیرے بغیر ہوتا ہوں


تو محبت کو قید مانتی ہے

اور میں لمحوں میں سیر ہوتا ہوں


راشد ماہی


آصف شکیل

 یوم پیدائش 05 جنوری 1990


الجھن مزید بڑھتی ہے میرے خیال سے

وحشت کشید ہوتی ہے ہجرو وصال سے


اس بات کی دلیل کوئی مانگتا نہیں

بہتر بہت ہوا ہوں میں اپنے زوال سے


لوگوں کا رونا دھونا کسی کام کا نہیں

چلتے تو ہیں نہیں یہ سبھی اعتدال سے


ہر شخص مسکرا کے تجھے مل رہا ہے گر

ہر شخص مل رہا ہے تجھے ایک چال سے


مجھ سے لپٹ لپٹ کے اداسی نے یہ کہا

تم میرے بعد رہنا بہت دیکھ بھال سے


ہر بات اپنے چہرے سے ظاہر کروں گا میں

ہر دوست جان جائے گا پہلے سوال سے


   آصف شکیل


عبد الرؤف عروج

 یوم پیدائش 05 جنوری 1932


بہ قدر دید نہ تھے تیری انجمن کے چراغ

مری نگاہ فروزاں ہوئی ہے بن کے چراغ


ہزار باد حوادث ہزار صرصر غم

جلا رہا ہوں مگر عظمت چمن کے چراغ


نقوش شہر نگاراں ابھارتے ہی رہے

مرے جنوں کے اجالے تری لگن کے چراغ


سواد عصر میں فردا کی تابناکی ہے

بجھا دیے گئے اندیشۂ کہن کے چراغ


ہجوم غم میں ہوا تھا یہ کون نغمہ سرا

جلی ہے تیرگئ شام درد بن کے چراغ


نہ باد دشت و بیاباں نہ شام رنج و بلا

لہو سے اپنے جلاتے ہیں ہم وطن کے چراغ


جلو میں تابش قندیل آگہی لے کر

بجھا دئے ہیں محبت نے اہرمن کے چراغ


زمانہ شام بلا سے سوال کرتا ہے

کدھر گئے وہ ترے دور پر فتن کے چراغ


شرار نطق ہوا صرف ہر خیال عروجؔ 

جلے تو بجھ نہ سکے شوخئ سخن کے چراغ


عبد الرؤف عروج


جعفر ساہنی

 یوم پیدائش 05 جنوری 1941


دل میں بیٹھا تھا ایک ڈر شاید

آج بھی ہے وہ ہم سفر شاید


ہاتھ پتھر سے ہو گئے خالی

پیڑ پر ہے نہیں ثمر شاید


ڈھونڈھتا تھا وجود اپنا وہ

تھا ادھر اب گیا ادھر شاید


سرخیاں اگ رہی ہیں دامن پر

ہو گیا ہاتھ خوں سے تر شاید


پھول الفت کے کھل رہے ہوں جہاں

ہوگا ایسا بھی اک نگر شاید


بیکلی بڑھ گئی ہے دریا کی

کہہ گیا جھک کے کچھ شجر شاید


درد کا ہو گیا ہے مسکن وہ

لوگ کہتے ہیں جس کو گھر شاید


مل کے ان سے خوشی ہوئی مجھ کو

وہ بھی ہوں گے تو خوش مگر شاید


روتے روتے ہنسی مری خواہش

مل گئی اک نئی خبر شاید


دن کا کٹنا محال ہے تو سہی

رات ہو جائے گی بسر شاید


آگ پانی میں جو لگاتا ہے

وہ بھی ہوگا کوئی بشر شاید


صحن دل سے خوشی نہیں گزری

راستہ تھا وہ پر خطر شاید


دھوپ کے گھر گھٹا گئی جعفرؔ

خشک کرنے کو بال و پر شاید


جعفر ساہنی


اقبال جعفر

 یوم پیدائش 04 جنوری


ہمارا نام مٹی پر وہ لکھتے ہیں مٹاتے ہیں 

ہمیں مرنے سے پہلے خاک میں ایسے ملاتے ہیں


مناظر تیری زُلفوں پر شبوں کے یوں بناتے ہیں 

ستارے مانگ میں بھر کر مہ ِ ابرو سجاتے ہیں


مِرے دل کو بلوچستاں بنا کر چھوڑنے والے 

وفاؤں کےحسیں سپنے مجھے اب کیوں دکھاتے ہیں


نہ پوچھو حال اِن کچے مکانوں کے مکینوں کا

گرج بادل کی سنتے ہیں تو جعفرؔ سہم جاتے ہیں


اقبال جعفر


نذیر اے قمر

 یوم پیدائش 04 جنوری 1970


دوست داری تھی غرض مند نہیں تھا میرا

یہ حقیقت ہے کہ پابند نہیں تھا میرا


اک زمانہ تھا جدائی میں تڑپتا تھا وجود

دل کسی طور بھی خورسند نہیں تھا میرا


جس کو اخلاص میں سینے سے لگائے رکھا

وہ تو پھندہ تھا گلوبند نہیں تھا میرا


اُس نے آنے کی کسی طور بھی تکلیف نہ کی

اک بھی دروازہ ذرا بند نہیں تھا میرا


کس لیے دور نہ ہوتا وہ مری نظروں سے

زہر تھا لہجہ کوئی قند نہیں تھا میرا


وہ بھی تجدیدِ محبت سے رہا دور قمر 

ایک خواہش تھی جو دلبند نہیں تھا میرا


نذیر اے قمر


مسرت حسین عازم

 یوم پیدائش 04 جنوری1966


شکایت کیا، گلہ کیا دشمنی کیا

رہا ہے تجھ سے میرا کچھ کبھی کیا 


خلوص و مہر سب سے غمگساری 

مجھی میں رہ گئی ہے ہر کمی کیا


جہاں میں دوسری اس جیسی صورت

کوئی تصویر تمثیلی ملی کیا 


مری باتوں سے اس درجہ تغافل 

کبھی میں نے بھی کی ہے ان سنی کیا


یہ کہہ دیں دل پہ اپنے ہاتھ رکھ کر 

ضرورت آپ کو میری بھی تھی کیا


وہ کیا رخصت ہوئے اس زندگی سے 

مسرت ہوگئی تو بھی سَتی کیا 


غزل میری سنی ہوں گی کسی سے

مرے منہ سے سنی، اچھی لگی کیا


یہی ہے خانہ ویرانی کا باعث 

محبت کی سمجھ اب آ گئی کیا


ُاگا کر فصل دہقاں مر رہے ہیں

نہیں ہے بخت میں روٹی لکھی کیا


محبت تھی جو اُس سے پہلے عازم 

کہانی بھولی بسری ہو گئی کیا


مسرت حسین عازم


سہیل رائے

 یوم پیدائش 04 جنوری 1973


یہ صبح و شام بندش ِ دیوارودر ہے کیا 

 یعنی حصار ِ خاک میں رہنا ہی گھر ہے کیا

 

وہ آنکھ کیا ہے اس کا تکلف نہ پوچھیے 

شب کا ہے موج میلہ ردائے سحر ہے کیا


اب بھی کسی منڈیر پہ جلتے ہیں کیا چراغ

اب بھی کسی کی آنکھ سر ِ رہگزر ہے کیا


موج رواں میں تشنہ لبی کا یہ کیسا خوف 

 تو ساتھ ہے تو دل میں بچھڑنے کا ڈر ہے کیا

 

دیکھے ہوئے سے لوگ یہ منظر یہ راستے 

اس خاک میں سفر مرا بار ِ دگر ہے کیا


گردش میں میں ہوں یا کہ ستاروں کا جال ہے

میں چاک پر نہیں ہوں تو پھر چاک پر ہے کیا


اب بھی تو مجھ سے دور بہت دور ہے کہیں

 چاروں طرف یہ پھیلتی خوشبو مگر ہے کیا

 

کس روشنی سے باندھ کے رکھا ہے خواب کو

نیندوں کے راستے میں بھی رہزن کا ڈر ہے کیا


کس کی نظر سے خود کو بچانے لگے سہیل

اب بھی کسی ہجوم کو آنا ادھر ہے کیا


سہیل رائے


عالم فیضی

 ہر بار کی طرح ہے وہی حال دوستو

کیا گل کھلائے گا یہ نیا سال دوستو

 

ایسی خوشی منانے سے کچھ فائدہ نہیں

برباد جس سے ہوتا فقط مال دوستو 


جس دن نیا ہو سال سنو میری بات تم 

کرنا نہ تہنیت کے لیے کال دوستو 


کرتے نہیں جو نیکی کوئی بھول کر کبھی

ان کی ذرا تو دیکھئے اب وال دوستو 


اتنی اگر ہے فکر تمہیں میرے حال پر

پوچھا کرو ہمیشہ ہی احوال دوستو

 

کس بات پر مناتے ہو اس بار تم خوشی

دیکھو وبا بھی آ رہی امسال دوستو 


عالم کبھی بھی ایسی منانا نہ تم خوشی

برباد جس سے ہوتے ہوں اعمال دوستو


عالم فیضی


وزیر احمد انصاری واحدی

 یوم پیدائش 03 جنوری 1964


اس بے وفا سے ترک تعلق کے باوجود

محفل میں میری آنکھ اسی پر جمی رہی

وزیر احمد انصاری واحدی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...