یوم پیدائش 05 جنوری
میں کوئی سر نہ پیر ہوتا ہوں
جب بھی تیرے بغیر ہوتا ہوں
جتنی شرطیں ہیں تیری یاروں پر
ایسے تو میں بھی غیر ہوتا ہوں
سامنے آ نہ جاؤں تیرے کبھی
جیسا تیرے بغیر ہوتا ہوں
تو محبت کو قید مانتی ہے
اور میں لمحوں میں سیر ہوتا ہوں
راشد ماہی
یوم پیدائش 05 جنوری
میں کوئی سر نہ پیر ہوتا ہوں
جب بھی تیرے بغیر ہوتا ہوں
جتنی شرطیں ہیں تیری یاروں پر
ایسے تو میں بھی غیر ہوتا ہوں
سامنے آ نہ جاؤں تیرے کبھی
جیسا تیرے بغیر ہوتا ہوں
تو محبت کو قید مانتی ہے
اور میں لمحوں میں سیر ہوتا ہوں
راشد ماہی
یوم پیدائش 05 جنوری 1990
الجھن مزید بڑھتی ہے میرے خیال سے
وحشت کشید ہوتی ہے ہجرو وصال سے
اس بات کی دلیل کوئی مانگتا نہیں
بہتر بہت ہوا ہوں میں اپنے زوال سے
لوگوں کا رونا دھونا کسی کام کا نہیں
چلتے تو ہیں نہیں یہ سبھی اعتدال سے
ہر شخص مسکرا کے تجھے مل رہا ہے گر
ہر شخص مل رہا ہے تجھے ایک چال سے
مجھ سے لپٹ لپٹ کے اداسی نے یہ کہا
تم میرے بعد رہنا بہت دیکھ بھال سے
ہر بات اپنے چہرے سے ظاہر کروں گا میں
ہر دوست جان جائے گا پہلے سوال سے
آصف شکیل
یوم پیدائش 05 جنوری 1932
بہ قدر دید نہ تھے تیری انجمن کے چراغ
مری نگاہ فروزاں ہوئی ہے بن کے چراغ
ہزار باد حوادث ہزار صرصر غم
جلا رہا ہوں مگر عظمت چمن کے چراغ
نقوش شہر نگاراں ابھارتے ہی رہے
مرے جنوں کے اجالے تری لگن کے چراغ
سواد عصر میں فردا کی تابناکی ہے
بجھا دیے گئے اندیشۂ کہن کے چراغ
ہجوم غم میں ہوا تھا یہ کون نغمہ سرا
جلی ہے تیرگئ شام درد بن کے چراغ
نہ باد دشت و بیاباں نہ شام رنج و بلا
لہو سے اپنے جلاتے ہیں ہم وطن کے چراغ
جلو میں تابش قندیل آگہی لے کر
بجھا دئے ہیں محبت نے اہرمن کے چراغ
زمانہ شام بلا سے سوال کرتا ہے
کدھر گئے وہ ترے دور پر فتن کے چراغ
شرار نطق ہوا صرف ہر خیال عروجؔ
جلے تو بجھ نہ سکے شوخئ سخن کے چراغ
عبد الرؤف عروج
یوم پیدائش 05 جنوری 1941
دل میں بیٹھا تھا ایک ڈر شاید
آج بھی ہے وہ ہم سفر شاید
ہاتھ پتھر سے ہو گئے خالی
پیڑ پر ہے نہیں ثمر شاید
ڈھونڈھتا تھا وجود اپنا وہ
تھا ادھر اب گیا ادھر شاید
سرخیاں اگ رہی ہیں دامن پر
ہو گیا ہاتھ خوں سے تر شاید
پھول الفت کے کھل رہے ہوں جہاں
ہوگا ایسا بھی اک نگر شاید
بیکلی بڑھ گئی ہے دریا کی
کہہ گیا جھک کے کچھ شجر شاید
درد کا ہو گیا ہے مسکن وہ
لوگ کہتے ہیں جس کو گھر شاید
مل کے ان سے خوشی ہوئی مجھ کو
وہ بھی ہوں گے تو خوش مگر شاید
روتے روتے ہنسی مری خواہش
مل گئی اک نئی خبر شاید
دن کا کٹنا محال ہے تو سہی
رات ہو جائے گی بسر شاید
آگ پانی میں جو لگاتا ہے
وہ بھی ہوگا کوئی بشر شاید
صحن دل سے خوشی نہیں گزری
راستہ تھا وہ پر خطر شاید
دھوپ کے گھر گھٹا گئی جعفرؔ
خشک کرنے کو بال و پر شاید
جعفر ساہنی
یوم پیدائش 04 جنوری
ہمارا نام مٹی پر وہ لکھتے ہیں مٹاتے ہیں
ہمیں مرنے سے پہلے خاک میں ایسے ملاتے ہیں
مناظر تیری زُلفوں پر شبوں کے یوں بناتے ہیں
ستارے مانگ میں بھر کر مہ ِ ابرو سجاتے ہیں
مِرے دل کو بلوچستاں بنا کر چھوڑنے والے
وفاؤں کےحسیں سپنے مجھے اب کیوں دکھاتے ہیں
نہ پوچھو حال اِن کچے مکانوں کے مکینوں کا
گرج بادل کی سنتے ہیں تو جعفرؔ سہم جاتے ہیں
اقبال جعفر
یوم پیدائش 04 جنوری 1970
دوست داری تھی غرض مند نہیں تھا میرا
یہ حقیقت ہے کہ پابند نہیں تھا میرا
اک زمانہ تھا جدائی میں تڑپتا تھا وجود
دل کسی طور بھی خورسند نہیں تھا میرا
جس کو اخلاص میں سینے سے لگائے رکھا
وہ تو پھندہ تھا گلوبند نہیں تھا میرا
اُس نے آنے کی کسی طور بھی تکلیف نہ کی
اک بھی دروازہ ذرا بند نہیں تھا میرا
کس لیے دور نہ ہوتا وہ مری نظروں سے
زہر تھا لہجہ کوئی قند نہیں تھا میرا
وہ بھی تجدیدِ محبت سے رہا دور قمر
ایک خواہش تھی جو دلبند نہیں تھا میرا
نذیر اے قمر
یوم پیدائش 04 جنوری1966
شکایت کیا، گلہ کیا دشمنی کیا
رہا ہے تجھ سے میرا کچھ کبھی کیا
خلوص و مہر سب سے غمگساری
مجھی میں رہ گئی ہے ہر کمی کیا
جہاں میں دوسری اس جیسی صورت
کوئی تصویر تمثیلی ملی کیا
مری باتوں سے اس درجہ تغافل
کبھی میں نے بھی کی ہے ان سنی کیا
یہ کہہ دیں دل پہ اپنے ہاتھ رکھ کر
ضرورت آپ کو میری بھی تھی کیا
وہ کیا رخصت ہوئے اس زندگی سے
مسرت ہوگئی تو بھی سَتی کیا
غزل میری سنی ہوں گی کسی سے
مرے منہ سے سنی، اچھی لگی کیا
یہی ہے خانہ ویرانی کا باعث
محبت کی سمجھ اب آ گئی کیا
ُاگا کر فصل دہقاں مر رہے ہیں
نہیں ہے بخت میں روٹی لکھی کیا
محبت تھی جو اُس سے پہلے عازم
کہانی بھولی بسری ہو گئی کیا
مسرت حسین عازم
یوم پیدائش 04 جنوری 1973
یہ صبح و شام بندش ِ دیوارودر ہے کیا
یعنی حصار ِ خاک میں رہنا ہی گھر ہے کیا
وہ آنکھ کیا ہے اس کا تکلف نہ پوچھیے
شب کا ہے موج میلہ ردائے سحر ہے کیا
اب بھی کسی منڈیر پہ جلتے ہیں کیا چراغ
اب بھی کسی کی آنکھ سر ِ رہگزر ہے کیا
موج رواں میں تشنہ لبی کا یہ کیسا خوف
تو ساتھ ہے تو دل میں بچھڑنے کا ڈر ہے کیا
دیکھے ہوئے سے لوگ یہ منظر یہ راستے
اس خاک میں سفر مرا بار ِ دگر ہے کیا
گردش میں میں ہوں یا کہ ستاروں کا جال ہے
میں چاک پر نہیں ہوں تو پھر چاک پر ہے کیا
اب بھی تو مجھ سے دور بہت دور ہے کہیں
چاروں طرف یہ پھیلتی خوشبو مگر ہے کیا
کس روشنی سے باندھ کے رکھا ہے خواب کو
نیندوں کے راستے میں بھی رہزن کا ڈر ہے کیا
کس کی نظر سے خود کو بچانے لگے سہیل
اب بھی کسی ہجوم کو آنا ادھر ہے کیا
سہیل رائے
ہر بار کی طرح ہے وہی حال دوستو
کیا گل کھلائے گا یہ نیا سال دوستو
ایسی خوشی منانے سے کچھ فائدہ نہیں
برباد جس سے ہوتا فقط مال دوستو
جس دن نیا ہو سال سنو میری بات تم
کرنا نہ تہنیت کے لیے کال دوستو
کرتے نہیں جو نیکی کوئی بھول کر کبھی
ان کی ذرا تو دیکھئے اب وال دوستو
اتنی اگر ہے فکر تمہیں میرے حال پر
پوچھا کرو ہمیشہ ہی احوال دوستو
کس بات پر مناتے ہو اس بار تم خوشی
دیکھو وبا بھی آ رہی امسال دوستو
عالم کبھی بھی ایسی منانا نہ تم خوشی
برباد جس سے ہوتے ہوں اعمال دوستو
عالم فیضی
یوم پیدائش 03 جنوری 1964
اس بے وفا سے ترک تعلق کے باوجود
محفل میں میری آنکھ اسی پر جمی رہی
وزیر احمد انصاری واحدی
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...