Urdu Deccan

Friday, February 25, 2022

شاہد میر

 یوم پیدائش 15 فروری 1949


اے خدا ریت کے صحرا کو سمندر کر دے

یا چھلکتی ہوئی آنکھوں کو بھی پتھر کر دے


تجھ کو دیکھا نہیں محسوس کیا ہے میں نے

آ کسی دن مرے احساس کو پیکر کر دے


قید ہونے سے رہیں نیند کی چنچل پریاں

چاہے جتنا بھی غلافوں کو معطر کر دے


دل لبھاتے ہوئے خوابوں سے کہیں بہتر ہے

ایک آنسو کہ جو آنکھوں کو منور کر دے


اور کچھ بھی مجھے درکار نہیں ہے لیکن

میری چادر مرے پیروں کے برابر کر دے


شاہد میر


طالب خوند میری

 یوم پیدائش 14 فروری 1938

نظم ابلیس کا اعتراف


تو نے جس وقت یہ انسان بنایا یا رب

اُس گھڑی مجھ کو تو اِک آنکھ نہ بھایا یارب

اس لیے میں نے، سر اپنا نہ جھکایا یارب

لیکن اب پلٹی ہےکچھ ایسی ہی کایا یا رب


عقل مندی ہے اسی میں کہ میں توبہ کر لوں

سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں!


ابتداً تھی بہت نرم طبیعت اس کی

قلب و جاں پاک تھے،شفاف تھی طینت اس کی

پھر بتدریج بدلنے لگی خصلیت اس کی

اب تو خود مجھ پہ مسلط ہے شرارت اس کی


اس سے پہلے کہ میں اپنا ہی تماشا کر لوں

سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں!


بھر دیا تُو نے بھلا کون سا فتنہ اس میں

پکتا رہتا ہے ہمیشہ کوئی لاوا اس میں

اِک اِک سانس ہے اب صورتِ شعلہ اس میں

آگ موجود تھی کیا مجھ سے زیادہ اس میں


اپنا آتش کدۂ ذات ہی ٹھنڈا کر لوں !

سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں !


اب تو یہ خون کے بھی رشتوں سے اکڑ جاتا ہے

باپ سے ، بھائی سے، بیٹے سےبھی لڑ جاتا ہے

جب کبھی طیش میں ہتھے سے اوکھڑ جاتا ہے

خود مِرے شر کا توازن بھی بِگڑ جاتا ہے


اب تو لازم ہے کہ میں خود کو سیدھا کر لوں

سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں!


میری نظروں میں تو بس مٹی کا مادھو تھا بَشر

میں سمجھتا تھا اسے خود سے بہت ہی کمتر

مجھ پہ پہلے نہ کھُلے اس کے سیاسی جوہر

کان میرے بھی کُترتا ہے یہ قائد بن کر


شیطانیت چھوڑ کے میں بھی یہی دھندا کر لُوں

سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں!


جِھجکتا ہے ، نہ ڈرتا ہے ،نہ شرماتا ہے

نِت نئی فتنہ گری روز ہی دکھلاتا ہے

اب یہ ظالم ، میرے بہکاوے میں کب آتا ہے

میں بُرا سوچتا رہتا ہوں ، یہ کر جاتا ہے


کیا ابھی اس کی مُریدی کا ارادہ کر لوں!

سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں!


اب جگہ کوئی نہیں میرے لیے دھرتی پر

مِرے شر سے بھی سِوا ہے یہاں انسان کا شر

اب تو لگتا ہے یہی فیصلہ مُجھ کو بہتر

اس سے پہلے کہ پہنچ جائے وہاں سپر پاور


میں کسی اور ہی سیّارہ پر قبضہ کر لوں

سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں!


ظُلم کے دام بچھائے ہیں نرالے اس نے

نِت نئے پیچ مذاہب میں ڈالے اِس نے

کر دیئے قید اندھیروں میں اجالے اس نے

کام جتنے تھے مِرے ، سارے سنبھالے اس نے


اب تو میں خود کو ہر اِک بوجھ سے ہلکا کر لوں

سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں


طالب خوند میری


مصور حیات

 یوم پیدائش 14 فروری


گرد چھٹ جائے گی منظر سےدکھائی دے گا

میرا چہرہ تمہیں چھت پر سے دکھائی دے گا


تو اگر دیکھے خدا آئے گا مسجد سے نظر

تو اگر دیکھے گا مندر سے دکھائی دے گا


دشت کی ریت میں شامل ہے لہو مجنوں کا

اور یہ محلوں کے اوپر سے دکھائی دے گا


ہجر کی رات بھی کٹ جائے گی آخر اک دن

اور سورج مجھے اندر سے دکھائی دے گا


مصور حیات


شہنواز شبلی

 یوم پیدائش 14 فروری 1965 


زمانے ہوں گے میری دسترس میں 

تمہارے قرب کا لمحہ نہ ہوگا 


شہنواز شبلی


انور بارہ بنکوی

یوم پیدائش 14فروری 1946


آ تجھے لہو دے کر پھر دلہن بنادوں میں

زندگی نکھرتی ہے زندگی کے پانے سے


انور بارہ بنکوی


شفقت کاظمی

 یوم پیدائش 14 فروری 1914


ہر گھڑی کرب مسلسل میں کٹی جاتی ہے 

زندگی اپنے گناہوں کی سزا پاتی ہے 


یاد آؤں کہ نہ آؤں مری قسمت لیکن 

ان سے امید ملاقات چلی جاتی ہے 


یوں مرے بعد ہے دنیا پہ اداسی طاری 

جیسے دنیا مرے حالات کا غم کھاتی ہے 


جب بھی آتا ہے تصور ترے انسانوں کا 

ایک فریاد مرے منہ سے نکل جاتی ہے 


خوش رہو دشت تمنا کی ہواؤ کہ مجھے 

تم سے بچھڑے ہوئے یاروں کی مہک آتی ہے 


زندگی میں کئی ایسے بھی ملے تھے ساتھی 

روح اب جن کے تصور سے بھی گھبراتی ہے 


غور کرتا ہوں جو شفقتؔ کبھی تنہائی میں 

اپنے حالات پہ تا دیر ہنسی آتی ہے


شفقت کاظمی


سید عارف ہشیارپوری

 یوم وفات 13 فروری 2022


آہ میں بھی نہیں تاثیر بڑی مشکل ہے

نہیں چلتی کوئی تدبیر بڑی مشکل ہے


مجھ سے اے جانِ جہاں تجھ کو محبت ہی سہی

میں کروں عشق کی تشہیر بڑی مشکل ہے


میری آنکھوں سے اُتر آئی ہے جو دل میں مرے

کیسے دکھلاؤں وہ تصویر بڑی مشکل ہے


آج تخریب کا پہلو ہے نمایاں ہر سو

یعنی اس دور میں تعمیر بڑی مشکل ہے


زیرِ لب کہتے ہیں زنداں کے محافظ عارف

ٹوٹتی جاتی ہے زنجیر بڑی مشکل ہے


سید عارف ہشیارپوری


مشتاق مہدی

 یوم پیدائش 13 فروری 1952


 

 رن کو نکلے تھے سبھی اک جان سے

 کچھ مگر لوٹے کہ تھے بزدل بہت

 

غیر میں کس کو کہوں سب دوست ہیں

دشمنی پر کچھ مگر مائل بہت


اب کروں کس پر یقیں اس ناؤ میں

ڈوبتے دیکھے یہاں ساحل بہت


دیکھتی جو آنکھ وہ تھی نیند میں

واقعی کیا لوگ ہیں گھائل بہت


مشتاق مہدی 


سلام کیفی

 یوم پیدائش 13 فروری 1939


یکساں ہیں شب و روز کے حالات برابر

ہر پل ہے یہاں شعلوں کی برسات برابر


اب کے بھی کوئی پیار کا موسم نہیں آیا

اب کے بھی گزر جائے نہ برسات برابر


قاتل کے طرف دار نظر آتے ہیں وہ بھی

کس درجہ ہیں بگڑے ہوئے حالات برابر


کس خواب کی تعبیر چلے ڈھونڈنے تم بھی

طاری ہے ابھی ذہن پہ تو رات برابر


ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی طور یہ بدلیں

کچھ اتنے برے ہوگئے حالات برابر


سلام کیفی


فیض احمد فیض

 یوم پیدائش 13 فروری 1911


نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں 

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے 

جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے 

نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے 

ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد 

کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد 


بہت ہے ظلم کے دست بہانہ جو کے لیے 

جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں 

بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی 

کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں 

مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں 

ترے فراق میں یوں صبح و شام کرتے ہیں 


بجھا جو روزن زنداں تو دل یہ سمجھا ہے 

کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی 

چمک اٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے 

کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی 

غرض تصور شام و سحر میں جیتے ہیں 

گرفت سایۂ دیوار و در میں جیتے ہیں 


یوں ہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق 

نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی 

یوں ہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول 

نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی 

اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے 


ترے فراق میں ہم دل برا نہیں کرتے 

گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے 

یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں 

گر آج اوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا 

یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں 

جو تجھ سے عہد وفا استوار رکھتے ہیں 

علاج گردش لیل و نہار رکھتے ہیں 


فیض احمد فیض


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...