Urdu Deccan

Friday, March 18, 2022

منصور خوشتر

 یوم پیدائش 03 مارچ 1986


آپ کو مجھ سے محبت بھی نہیں 

اور ”نہیں“ کہنے کی جرأت بھی نہیں


جاتے ہیں محفل سے میری جائیے

روکنا کچھ میری فطرت بھی نہیں


بے وفا کی ہمرہی سے فائدہ؟ 

اور اب چلنے کی ہمت بھی نہیں

  

میں کسی کو چھوڑ دوں تیرے لیے 

تجھ سے کچھ ایسی تو قربت بھی نہیں

 

خوشترؔ اس مہندی لگے ہاتھوں کی اب 

جانے کیوں پہلی سی رنگت بھی نہیں


منصور خوشتر


افتخار حیدر

یوم پیدائش 03 مارچ 1975

ہاتھ چلانا مشکل ہے ان موجوں کی طغیانی میں 
تم نے چھوڑ دیا لے جا کر کتنے گہرے پانی میں

جانے یہ احساس نگر میں کیسا موسم اترا ہے 
برف جمی ہے آگ کے اندر ، آگ لگی ہے پانی میں

وہ جو اک کردار کیا تھا حسن کی تابعداری کا 
اس کردار نے ڈال دیا ہے کتنا درد کہانی میں

چلتے چلتے زیست کے ایسے موڑ تلک آپہنچا ہوں 
آسانی ہے مشکل میں اور مشکل ہے آسانی میں

افتخار حیدر

جاوید عارف

 یوم پیدائش 03 مارچ


گو مجھ کو میسر تھیں بہت تیز شرابیں

میں کھینچ کے بیٹھا رہا اِس دل کی طنابیں


خوددار اناؤں کی نظر تک نہیں اُٹھی

اشیاء سے بھری رہ گئیں زردار کی قابیں


خالق کبھی ہو سکتاہے مخلوق کا دشمن ؟

ملّاں ! تیرے کہنے سے عذابیں نہ ثوابیں


اے حُسنِ حیادار ! بتا کیسا ہے پردہ ؟

گر روزِ قیامت کو ہی اُٹھنی ہیں حجابیں


جو ظُلم سہے بس وہی تحریر کئے ہیں

یوں بنتی گئیں اُن سے کتابوں پہ کتابیں


عارف یہاں موسم کے ہیں بدلے ہوۓ تیور

تُو سُرخ گُلابوں کی لگا آیا ہے دابیں


جاوید عارف


نعیم حقّی

 یوم پیدائش 03 مارچ 1978


بن سوچے سمجھے اس کا طرفدار کر دیا

تقریر جس نے تھوڑی اثر دار کردیا


وعدوں پہ اسکےکر یقیں آفت یہ مول لی

نا یاب شئے کا دل کو طلبگار کردیا


راحت کی آس باندھی جو ہم نے شریرسے

آفت نے چارو سمت سے یلغار کر دیا


اندھی عقیدتوں کا نتیجہ ہے خوف ناک

مانو نہ مانو ہم نے خبر دار کر دیا


ٹھو کر سے با ر با ر کی وہ ہی بچا نعیمؔ

ٹھوکر نے ایک ہی جسے ہوشیار کر دیا


نعیم حقّیؔ


جبار انجم

یوم پیدائش 03 مارچ 1968


جو شاخِ گل پر گلاب آئے

تو یاد وہ بے حساب آئے


ہیں دامِ الفت میں جب بھی آئے

تو ہم ہی خانہ خراب آئے


وہ چاندنی میں حجاب پلٹے

تو رقص میں ماہتاب آئے


وہ رند سادہ تھا جس کو واعظ

ہیں کر کے پورا خراب آئے


یہ کیا ستم ہے جو تشنہ لب تھے

انہیں کے حصے سراب آئے


لو ہم نے کیں چاک سب قبائیں

لو ہم بھی لے انقلاب آئے


جبارانجم


تنویر جمال عثمانی

 یوم پیدائش 02 مارچ 1974

نعت


ان کے اوصافِ حمیدہ کی قلم کاری کا

مرحبا نعت ہے عنواں میری فنکاری کا


 ان کی دہلیز پہ کشکول بنا بیٹھا ہوں

یہ ہے معیار مری عظمتِ خودداری کا


ان کے دیوانوں کی تعظیم کو لازم کر کے

کام یہ ہم نے کیا خوب سمجھ داری کا 


حمدِ معبود کبھی نعتِ پیمبر لکھ کر

کام کرتے رہو جنت میں شجر کاری کا


آپ نے جب سے اسے اپنا بنایا ہے حضور 

خوف ہوتا نہیں نادار کو ناداری کا


شکریہ شاہِ امم آپکی نسبت کے طفیل

ٹل گیا خطرہ سرِ حشر گرفتاری کا


عرشِ اعظم سے سلام آتا ہے اسکی خاطر

مرتبہ دیکھئے سرکار کے درباری کا


مجھکو اولادِ پیمبر سے محبت کے سبب

سامنا ہوگا نہیں حشر میں دشواری کا


میرے جیسوں کی بھی تنویر شفاعت کر کے

حق ادا کر دیا سرکار نے غمخواری کا


تنویر جمال عثمانی


حمیرا اکبر

 یوم پیدائش 24 فروری


تم مجھ کو ایسے غم کی ہی تصویر رہنے دو

تنہائیوں کو بس مری جاگیر رہنے دو


رکھا کرو نہ قبر پہ اب میری پھول تم 

رسوائیوں کی تھوڑی سی تشہیر رہنے دو


تم چاہے مجھ کو بیچ دو بازار میں مگر

یارو یہ میرے پاؤں کی زنجیر رہنے دو


تم لوٹ کے نہ آسکے اتنی سی بات ہے

اتنی سی بات کی چلو تفسیر رہنے دو


طعنوں سے جو بھی گھاؤ ملے بھرنے کے وہ نہیں

اتنا حمیرا کافی ہے ، تعزیر رہنے دو


حمیرا اکبر


خورشید اکرم سوز

 یوم پیدائش 01 مارچ 1965


یہاں انصاف کا سودا ہوا ہے

یہ منظر تو مرا دیکھا ہوا ہے


جبین شعر پر لکھا ہوا ہے

تری محفل میں فن رسوا ہوا ہے


کبھی جو چڑھتے دریا کی طرح تھا

اب اپنی ذات میں سمٹا ہوا ہے


ہمیں پھر زخم اپنوں نے دیے ہیں

کہ خود ہم کو کوئی دھوکہ ہوا ہے


جنون رہبری ہے جسکے دل میں

وہ خود ہی راہ سے بھٹکا ہوا ہے


غزل جب میں نے اسکے نام کر دی

تو خاص و عام میں چرچا ہوا ہے


عمل سے زندگی بنتی ہے لیکن

مقدر کا بھی کچھ لکھا ہوا ہے


ہوئی ہر شے گراں اے سوز لیکن

لہو اپنا بہت سستا ہوا ہے


خورشید اکرم سوز


شائق سعیدی

 یوم پیدائش 02 مارچ


وہ سرِ دشت مری پیاس بجھا دیتا ہے

موج دریا میں دوبارہ بھی پھرا دیتا ہے


دل مرا پہلے محبت سے پریشان ہے اور

اک نیا شخص محبت کی صدا دیتا ہے


جو تمہیں مفت ملے عشق نہیں آب سبیل

جوئے شیریں ہے یہ فرہاد کھپا دیتا ہے


بات کرنی ہے اگر تجھ کو تو پھر سوچ کے کر

کیونکہ اک لفظ بھی نسلوں کا پتہ دیتا ہے


اک تناسب سے مجھے یاد وہ کرتا ہے مگر

میں اسے یاد دلاؤں تو بھلا دیتا ہے


ایرے غیرے سے ستائش کی تمنا ہی نہیں

کامل ایماں ہے کہ عزت تو خدا دیتا ہے


تجھ پہ سارا یہ کرم رب کا ہے شائق جو تجھے 

ہر نئی نظم میں لفظوں کی عطا دیتا ہے


شائق سعیدی


شیخ ایاز

یوم پیدائش 02 مارچ 1923


رات کروٹ بدل رہی ہے دیکھ

تیری زلفوں میں ڈھل رہی ہے دیکھ


اور اک ساغرِ خمار آگیں

زندگانی سنبھل رہی ہے دیکھ


یہ صُراحیء بادۂ ہی اکثر

تیرا نعم البدل رہی ہے دیکھ


حسنِ گل میں کمی نہیں لیکن

زندگی خوں اُگل رہی ہے دیکھ


رنگ لائے گی کیا یہ روحِ عصر 

کشت و خوں میں جو پل رہی ہے دیکھ


جامۂ کوہ کن میں روحِ جبر

اک نئی چال چل رہی ہے دیکھ 


ظلمتِ زیست سے الجھتا رہ

شمعِ تقدیر جل رہی ہے دیکھ


اک سحر کی تلاش پیہم میں

زندگی آنکھ مل رہی ہے دیکھ


پرچمِ عزم کو بلند کر اور

وہ مشیت سی ٹل رہی ہے دیکھ


شیخ ایاز


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...