Urdu Deccan

Sunday, June 5, 2022

مہتاب ظفر

یوم پیدائش 01 جون 1931

جن کی حسرت میں دل رسوا نے غم کھائے بہت 
سنگ ہم پر ان دریچوں نے ہی برسائے بہت 

روشنی معدوم گہرے ہو چلے سائے بہت 
جانے کیوں تم آج کی شب مجھ کو یاد آئے بہت 

قسمت اہل قفس پھولوں کی خوشبو بھی نہیں 
یوں تو گلشن میں صبا نے پھول مہکائے بہت 

لوگ اس کو بھی اگر کہتے ہیں تو کہہ لیں بہار 
مسکرائے کم شگوفے اور مرجھائے بہت 

ایک آنسو بھی گرے تو گونج اٹھتی ہے زمیں 
آج تو ہم اپنی تنہائی سے گھبرائے بہت 

ایک رسم سرفروشی تھی سو رخصت ہو گئی 
یوں تو دیوانے ہمارے بعد بھی آئے بہت 

عشرت ہستی پہ تھی مہتابؔ دنیا کی نظر 
دل کو کیا کہیے کہ اس نے درد اپنائے بہت

مہتاب ظفر



نور کلکتوی

یوم پیدائش 01 جون 1924

اے حسنِ جلوہ ریز کرشمہ تو اپنا دیکھ
ہر داغ میرے دل کا چراغِ جہاں ہوا

نور کلکتوی



شمس الحق شمس

یوم پیدائش 01 جون 1940

نادار کی خاطر جو پریشان رہےگا
اس شخص پہ اللہ کااحسان رہےگا

شمس الحق شمس


 

احسن شفیق

یوم پیدائش 01 جون 1941

کاٹ گئی کہرے کی چادر سرد ہوا کی تیزی ماپ 
اکڑوں بیٹھا اس وادی کی تنہائی میں تھر تھر کانپ 

مرمر کی اونچائی چڑھتے پھسلا ہے تو رونا کیا 
پاؤں پسارے کیچڑ میں اکھڑی سانسوں کی مالا جاپ 

اڑتے پنچھی پیاسی نظروں کی پہچان سے عاری ہیں 
تیز ہوئی جاتی ہیں کرنیں تھاپ سہیلی گوبر تھاپ 

پھوٹی چوڑی ٹوٹی دھنک رنگوں کا سحر بکھرتا سا 
سونے افق پر بہتے بادل گرم توے سے اٹھتی بھاپ 

بانسوں کے جنگل کی چلمن حسن جھلکتا منزل کا 
بڑھتے ہوئے قدموں کی تاک میں سوکھے ہوئے پتوں پر سانپ 

گرم سفر ہے گرم سفر رہ مڑ مڑ کر مت پیچھے دیکھ 
ایک دو منزل ساتھ چلے گی پٹکے ہوئے قدموں کی چاپ 

جھوم رہی ہے بھنور میں کشتی ساحل و طوفاں رقص میں ہیں 
تھکی ہوئی آنکھیں سو جائیں ایسا کوئی راگ الاپ 

دیکھ پھپھوند لگی دیواریں مجلس بھی بن سکتی ہیں 
طوفانی موسم ہے شفیقؔ اب اور کہیں کا رستہ ناپ

احسن شفیق


 

سلطان سجانی

یوم پیدائش 01 جون 1942

جہاں دار جتنی بھی سازش کرے گا 
خدا ہم پہ رحمت کی بارش کرے گا 

یہ شیشے کی آنکھیں یہ پتھر کے چہرے 
مرا درد کس سے گزارش کرے گا 

کسی کا جو ہمدرد ہوگا زمیں پر 
بہت گر کرے تو سفارش کرے گا 

عجب چیز ہے یہ ہنر کا خزانہ 
نہ جس کو ملے وہ نمائش کرے گا 

غزل جو بھی دیکھے گا سلطانؔ صاحب 
کہانی کی وہ کیا ستائش کرے گا 

سلطان سجانی


 

سلیم شہزاد

یوم پیدائش 01 جون 1949

ہوا کی زد میں پتے کی طرح تھا 
وہ اک زخمی پرندے کی طرح تھا 

کبھی ہنگامہ زا تھا بے سبب وہ 
کبھی گونگے تماشے کی طرح تھا 

کھلونوں کی نمائش تھی جہاں وہ 
کسی گم گشتہ بچے کی طرح تھا 

سنبھلتا کیا کہ سر سر سیل میں وہ 
اکھڑتے گرتے خیمے کی طرح تھا 

اگلتا بلبلے پھول اور شعلے 
وہ چابی کے کھلونے کی طرح تھا 

تھے اس کے بال و پر قینچی کی زد میں 
وہی تنہا فرشتے کی طرح تھا

انا انکار میں آئینہ ٹوٹا 
جو بار دوش چہرے کی طرح تھا

سلیم شہزاد


 

احسن آتش

یوم پیدائش 01 جون 1956

اک اور رہ گزر ہے یہاں رہ گزر کے بعد
ملتی نہیں ہیں منزلیں سب کو سفر کے بعد

احساسِ تشنگی تھا یہاں بعدِ کن فکاں
تکمیلِ کائنات ہوئی ہے بشر کے بعد

امید کی ضیا تھی شبِ انتظار میں
یہ کیسی تیرگی ہے طلوعِ سحر کے بعد

منزل کے واسطے تھا مجھے شوقِ ہم سفر
منزل کی چاہ کس کو ہے اب ہم سفر کے بعد

ابدی حیات ملتی ہے بعدِ مجازی موت
ساحل تمہیں ملے گا یقیناً بھنور کے بعد

رکتی کہاں ہے دیکھیں بشر کی اڑان اب
اک خوب تر کی جستجو ہے خوب تر کے بعد

تاثیر ہے دعا میں بہرحال آج بھی
آئے وہ بے نقاب دعاکے اثر کے بعد

آتش کی جاں کنی پہ ہو مغموم کیوں میاں
آئے گی ایک اور خبر اس خبر کے بعد

احسن آتش


 

دعبل شاہدی

یوم پیدائش 01 جون

میری نظر کو یہ پرچھائیاں پسند نہیں
سخن شناس ہوں خاموشیاں پسند نہیں 

حصارِِ عشقِ حقیقی میں رہنا چاہتا ہے
میرے ضمیر کو آزادیاں پسند نہیں

میرے قریب نہ آئیں یہ آندھیوں سے کہو
چراغِِ عشق ہوں تاریکیاں پسند نہیں

قدومِ سدرہ نشیں تک میری رسائی ہے
میں آسماں ہوں مجھے پستیاں پسند نہیں 

کُھلی فضاؤں میں اُڑنے کا شوق ہے مجھکو
میں کیا کروں مجھے تنہائیاں پسند نہیں

نچھوڑ سکتا ہوں دامن میں کہساروں کا 
وہ بے طلب مجھے اُونچائیاں پسند نہیں 

خطیبِِ نوکِ سناں کا میں اک مقلد ہوں 
اسی لئے ستم آرائیاں پسند نہیں 

تیرا مزاج انوکھا مزاج ہے دعبل
وہ اور ہیں جنہیں سچائیاں پسند نہیں 

دعبل شاہدی



محمد عالم چشتی

یوم پیدائش 01 جون 1982

مداحِ شفیعِ اُمم ﷺﷺﷺﷺ

رفیعِ نسب وہ عالی بشر فقیدِ حشم شفیعِ اُمم
حبیبِ خدا وہ ختمِ رسل وہ فخرِ نعم شفیعِ اُمم

رفیق علا حمیدِ صفا مدیحِ ثنا وہ صلے علی
وہ وجہِ سخا وہ مہر وفا معیدِ کرم شفیع اُمم

متیعِ احد جلیسِ صمد مقیتِ ابد ہے تاجِ شرف
بشیرِ عدن نذیرِ زمن قدیرِ حرم شفیعِ اُمم

ہے جنکے نگیں یہ لوحِ مبیں یہ عرشِ بریں یہ فرشِ زمیں 
وہ ماہِ مبیں رسول امیں وہ نورِ ارم شفیعِ اُمم

مثالی طلب نرالی طرب یہ عشق عجب یہ ضرب غضب 
ہے پاس ادب اے شاہِ عرب اے کانِ حلم شفیعِ امم

یہ بزم جہاں یہ کون و مکاں پکارے زباں وہ نورِ فشاں
ہے شانِ نشاں امامِ جہاں وہ شہرِ علم شفیعِ اُمم

عطائے سخی ولائے خفی ہے یاد نبی جو دل میں بسی
وظیفہ یہی ثنائے نبی خدا کی قسم شفیعِ امم

محمد عالم چشتی


 

آصف صمیمؔ

یوم پیدائش 01 جون 1990

ہے آمدِ بدرالدّجیٰ ہے روشنی ہی روشنی
اہلاً و سہلا ً مرحبا ہے روشنی ہی روشنی
 
ہے آمدِ خیرالبشر روشن ہے ہر مومن کا گھر
پر نُور ہیں ارض وسما ہے روشنی ہی روشنی

اک سلسلہ تھا ظلمتوں کا چار سو پھیلا ہوا
ابھرا ہے اب شمس الضّحیٰ ہےروشنی ہی روشنی

جس دن حلیمہ سعدیہ لے آئی گھر سرکار کو
رنگیں ہے اُس گھر کی فضا ہے روشنی ہی روشنی

ہے جشنِ میلادِ نبیﷺ میں نےسجائیں محفلیں
آراستہ ہے گھر مرا ہے روشنی ہی روشنی

لکھتا ہوں جب مدحِ نبیﷺ کھلتے ہیں اسرارِ قلم
نعتِ حبیبِ کبریا ہے روشنی ہی روشنی

لکھ کر یہ نعت آصفؔ ہوا تجھ پرکرم سرکار کا
ہر لفظ ہے روشن دیا ہے روشنی ہی روشنی

آصف صمیمؔ



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...