Urdu Deccan

Wednesday, June 8, 2022

رتن ناتھ سرشار

یوم پیدائش 05 جون 1846

جھلکا جھلکا سپیدۂ صبح
جھلکا جھلکا سپیدۂ صبح

تارے چھپتے ہیں جھلملا کر
ہے نور سا جلوہ گر فلک پر

بھینی بھینی مہک گلوں کی
اور نغمہ زنی وہ بلبلوں کی

وقت صحرا اور تنگ ہوا ہے
بے مے سب کرکرا مزا ہے

اک چلو کے دینے میں یہ تکرار
اٹھو جاگو سحر ہوئی یار 

دریا کی طرف چلے نہانے
غٹ پریوں کے زنان خانے

مرغان چمن یہ نکتہ رانی
چوں برہمنان یہ بید خوانی

نوبت رنگت جمنا رہی ہے
شہنشائے مزہ دکھا رہی ہے

رتن ناتھ سرشار



شہزادہ کلیم یونس

یوم پیدائش 05 جون

یہ جو مجھ خاک سے نسبت ہے مدینے کی خاک
خاک مت جان کہ جنت ہے مدینے کی خاک 

میں خیالات میں ماتھے پہ لگا لیتا ہوں 
اس عقیدے سے کہ حکمت ہے مدینے کی خاک

ہر مسلمان کی خواہش ہے مدینے مرنا
ہر مسلمان کی شوکت ہے مدینے کی خاک

ہم گنہ گار غلاموں کی رہائی کے لیے 
ہر عدالت میں ضمانت ہے مدینے کی خاک

بادشاہی کی تمنا ہے نہ محلوں کی کلیم
میری تو ایک ہی حسرت ہے مدینے کی خاک

شہزادہ کلیم یونس

 

اشہر ندیمی

یوم پیدائش 05 جون 1966

نئے زمانے کی رفتار دیکھ کر چلیے
مگر ہے راستہ دشوار دیکھ کر چلیے

میں جانتا ہوں کہ یہ شہر ہے مگر پھر بھی
ملیں گے بھیڑیے خونخوار دیکھ کر چلیے

یہ سر پہ آپ کے اجداد کی امانت ہے
گرے نہ سر سے یہ دستار دیکھ کر چلیے

نہ سر اٹھے ، جو ملے ، سر اٹھانے کی فرصت
کہ سر پہ فرض کا ہے بار دیکھ کر چلیے

کہیں نہ ایسا ہو کچھ دور چل کے پچھتائیں
کہ راستے کو کئی بار دیکھ کر چلیے

پتہ چلے تو سہی ، شہر کے ہیں کیا حالات
چلیں جو گھر سے تو اخبار دیکھ کر چلیے

مجھے خبر ہے یہ دنیا ہے ، پھر بھی آپ اس کو
سمجھ کہ حشر کا بازار دیکھ کر چلیے

سنا ہے راہ میں بوسیدہ اِک حویلی ہے
گرے نہ آپ پہ دیوار دیکھ کر چلیے

اگر ہو آرزو منزل کی آپ کو اشہر
حدِ نگاہ کے اس پار دیکھ کر چلیے

اشہر ندیمی


 

نوراحمد جانی

یوم پیدائش 04 جون 1986

ہوا ہے جب سے تو اوجھل مری نگاہوں سے
میں آئینوں میں سدا عکس ڈھونڈتا ہوں ترا

نوراحمد جانی


 

عارف اختر نقوی

یوم پیدائش 04 جون 1960

عہد الفت میں یہ خدشہ کب تھا 
تم سے بچھڑیں گے یہ سوچا کب تھا 

رات آئینہ جو دیکھا تو لگا 
اتنا ویراں میرا چہرہ کب تھا
 
مجھ پہ الزام لگانے والے 
تو مجھے ٹھیک سے سمجھا کب تھا 

یاد آئیں گی وہ رم جھم آنکھیں 
گھر سے چلتے ہوئے سوچا کب تھا 

اس کو نزدیک سے دیکھا عارفؔ 
آج جیسا ہے کل ایسا کب تھا 

عارف اختر نقوی



اسلم گورداسپوری

یوم پیدائش 04 جون 1942

کتنے زیادہ ہم ہیں پریشان دیکھنا
دل کا معاملہ ہے میری جان دیکھنا

اتنے زیادہ صاحبِ ایمان ہیں کہ اب
مشکل ہوا ہے صاحب ایمان دیکھنا

یہ وحشتیں ہمارا کوئی مشغلہ نہ تھیں
اب بن گیا ہے شوق یہ طوفان دیکھنا

دنیا کا ہو سفر یا مسافت عدم کی ہو
بھاری نہ ساتھ ہو کوئی سامان دیکھنا

تم ہی کہو کہ کیا یہ خدا کو پسند ہے
یوں آدمی کو بے سروسامان دیکھنا

جس کے لئے بنائی تھی یہ ساری کائنات 
کس حال میں ہے وہ یہاں انسان دیکھنا

یہ زندگی کے جتنے نشیب و فراز ہیں
لگتا ہے ان کو دور سے آسان دیکھنا

اس زندگی کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا
فرصت کبھی ملے میرا دیوان دیکھنا

لکھی ہے میں نے شوق سے یہ داستانِ عشق
تُم اس کا کوئی اچھا سا عنوان دیکھنا

کچھ ایسا کاروبار ہے کہتے ہیں جس کو عشق
ہے کُفر اس میں نفع و نقصان دیکھنا

اسؔلم کسی طرح بھی یہ مردانگی نہیں 
ہر زندگی کا راستہ آسان دیکھنا

اسلم گورداسپوری


 

خواجہ عمار صامت

یوم پیدائش 03 جون 1971

میں یہ کہتا ہوں کہ وہ ضبط کا دامن تھامے
وہ یہ کہتا ہے کہ رکتے نہیں آنسو میرے

خواجہ عمار صامت


 

شرف الدین ظرف

یوم پیدائش 03 جون 1964

سچ کے اب دہر میں آثار نہیں ہے بابا
بھوکا رہتا ہے جو ، مکار نہیں ہے بابا

چھین لے منہہ سے جلیبی جو غریبوں کے بھی
ایسا حاکم ہمیں درکار نہیں ہے بابا

ڈر سمایا ہے کورونا کا کچھ اس طرح یہاں
کوچۂ حسن بھی گلزار نہیں ہے بابا

سب دعا کرتے ہیں زر، کار، زمیں ، بنگلے کی
کوئی ایماں کا طلب گار نہیں ہے بابا

اک پڑوسی مرا سوتا ہے تجوری لے کر
اس کو بیوی سے کوئی پیار نہیں ہے بابا

تیرے اس شہرِ محبت میں یہی دیکھا ہے
ایک انساں بھی ملنسار نہیں ہے بابا

ظرفؔ ملت کی عمارت جو بنا دے پختہ
میری نظروں میں وہ معمار نہیں ہے بابا

شرف الدین ظرف


 

محمد عمران بشیر

یوم پیدائش 03 جون 1997

مہینوں بعد کسی نے ترا سوال کیا
یہ پہلی بار کسی نے جدا سوال کیا

یوں برقرار رہا سلسلہ سوالوں کا
جو ایک ختم ہوا دوسرا سوال کیا

تری طرف سے ہٹائی گئی توجہ مری
کہ خوامخواہ مجھے بے تکا سوال کیا

سوال کرتے ہوئے یہ خیال رکھنا کہ
برا لگے گا اگر جو برا سوال کیا

یہ ممتحن کی کہیں کوئی چال ہی نا ہو
جو اُس نے پہلے سے پوچھا ہوا سوال کیا

یہ آئینے میں کھڑا شخص کون ہے جس نے
کمال ہے کہ مجھے ہی مرا سوال کیا

تمھارے بعد سبھی سے تمھارا پوچھا ہے
یہاں وہاں جو ملا ایک سا سوال کیا

سو مانگنے کا بھی کوئی سلیقہ ہوتا ہے
فقیر نے مجھے دے کر دُعا سوال کیا

محمد عمران بشیر

 


عمر فرحت

یوم پیدائش 03 جون 1986

ہے کوئی اور بھی جہان میں کیا 
میں نہیں ہوں ترے گمان میں کیا 

تو نے فتراک ساتھ تو رکھا 
تیر بھی ہے تری کمان میں کیا
 
ایک سایا تھا دل میں وہ بھی بجھا 
رہ گیا ہے اب اس مکان میں کیا 

زیر سایہ ہے اور سبھی دنیا 
ہم نہیں ہیں تری امان میں کیا 

کوئی بھی تجھ سے بات کرتا نہیں 
زہر سا ہے تری زبان میں کیا 

عمر فرحت



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...