Urdu Deccan

Thursday, June 30, 2022

شرقی امروہوی

یوم پیدائش 30 جون 1905

اک آس لگی رہتی ہے ناکارہ نظر سے
کچھ روزن دیوار سے کچھ پردہِ در سے 

شرقی امروہوی



احمد وقاص

یوم پیدائش 29 جون 1984

کہیں کوئی عذاب زیست آ نہ لے 
اسے کہو ہماری بد دعا نہ لے 

وہ چاہتا ہے قتل عام بھی کرے 
مگر کوئی بھی اس سے خوں بہا نہ لے

وہ کہہ رہا ہے دل میں گھر بنائے گا 
مجھے یہ خوف ہے کہیں بنا نہ لے 

وہ جس طرح ہے کار عشق میں مگن 
میں ڈر رہا ہوں اپنا دل دکھا نہ لے

جسے بدن سمجھ رہا ہے آگ ہے 
کہیں وہ اپنی انگلیاں جلا نہ لے

احمد وقاص



پرنم الہ آبادی

یوم وفات 29 جون 2009

بھر دو جھولی مری یا محمدؐ لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی 
کچھ نواسوں کا صدقہ عطا ہو در پہ آیا ہوں بن کر سوالی 

حق سے پائی وہ شان کریمی مرحبا دونوں عالم کے والی 
اس کی قسمت کا چمکا ستارہ جس پہ نظر کرم تم نے ڈالی 

زندگی بخش دی بندگی کو آبرو دین حق کی بچا لی 
وہ محمدؐ کا پیارا نواسا جس نے سجدے میں گردن کٹا لی 

حشر میں ان کو دیکھیں گے جس دم امتی یہ کہیں گے خوشی سے 
آ رہے ہیں وہ دیکھو محمدؐ جن کے کاندھے پہ کملی ہے کالی 

عاشق مصطفی کی اذاں میں اللہ اللہ کتنا اثر تھا 
عرش والے بھی سنتے تھے جس کو کیا اذاں تھی اذان بلالی 

کاش پرنمؔ دیار نبی میں جیتے جی ہو بلاوا کسی دن 
حال غم مصطفیٰ کو سناؤں تھام کر ان کے روضے کی جالی

پرنم الہ آبادی


 

Tuesday, June 28, 2022

عثمان عرشی

یوم پیدائش 28 جون 1938

آج کل بے چہرگی کا زور ہے
ریزہ ریزہ ہوگیا ہے آئینہ

عثمان عرشی



صبا اکرام

یوم پیدائش 28 جون 1945

آواز کے پتھر جو کبھی گھر میں گرے ہیں 
آسیب خموشی کے صباؔ چیخ پڑے ہیں 

پازیب کے نغموں کی وہ رت بیت چکی ہے 
اب سوکھے ہوئے پتے اس آنگن میں پڑے ہیں 

چھپ جائیں کہیں آ کہ بہت تیز ہے بارش 
یہ میرے ترے جسم تو مٹی کے بنے ہیں 

اس دل کی ہری شاخ پہ جو پھول کھلے تھے 
لمحوں کی ہتھیلی پہ وہ مرجھا کے گرے ہیں 

اس گھر میں کسے دیتے ہو اب جا کے صدائیں 
وہ ہارے تھکے لوگ تو اب سو بھی چکے ہیں

صبا اکرام


 

رحمت النساء ناز

یوم پیدائش 28 جون 1932

جب دل کا درد منزلِ شب سے نکل گیا
محسوس یہ ہوا کوئی طوفان ٹل گیا

اب تو ہے صرف آمدِ فصلِ بہار یاد
دل ایک پھول تھا جو سرِ شاخ جل گیا

جب تک کسی کا نقشِ کفِ پا ہمیں ملا
ہم سے کچھ اور دور زمانہ نکل گیا

ہر گُل کے ساتھ ساتھ ہے اک پاسبانِ گُل
گُل چیں کو ارتباطِ گل و خار کھل گیا

کچھ رہروانِ شوق بھٹکنے سے بچ گئے
ہم کیا سنبھل گئے کہ زمانہ سنبھل گیا

ممکن نہیں کہ بزمِ طرب تک پہنچ سکیں
اب کاروانِ شوق کا رستہ بدل گیا

اے نازؔ غم نہیں جو فرشتہ نہ بن سکا
کیوں اہرمن کے روپ میں انسان ڈھل گیا

رحمت النساء ناز


 

سنبل چودھری

یوم پیدائش 27 جون

حصے میں کب تھا اب تجھے جتنا پہن لیا
کم فائدہ ذیادہ خسارہ پہن لیا

سب کو مقامِ خاص دیا ایک وقت تک
پھر میں نے سب سے جو ملا دھوکا ، پہن لیا

میں نے سنی تھی داستان اک دن فراق کی
وحشت سے خود پہ خون کا دریا پہن لیا

گونگے کی خامشی مجھے روداد لگتی ہے
میں نے تبھی تو چپ کا لبادہ پہن لیا

کم سے نہ جاؤں میں بھی ذیادہ کے واسطے
جتنا مجھے ملا تھا تُو ، اتنا پہن لیا

سنبل چودھری



نزہت عباسی

یوم پیدائش 27 جون 1971

رویے مار دیتے ہیں یہ لہجے مار دیتے ہیں 
وہی جو جان سے پیارے ہیں رشتے مار دیتے ہیں 

کبھی برسوں گزرنے پر کہیں بھی کچھ نہیں ہوتا 
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لمحے مار دیتے ہیں 

کبھی منزل پہ جانے کے نشاں تک بھی نہیں ملتے 
جو رستوں میں بھٹک جائیں تو رستے مار دیتے ہیں 

کہانی ختم ہوتی ہے کبھی انجام سے پہلے 
ادھورے نا مکمل سے یہ قصے مار دیتے ہیں 

ہزاروں وار دنیا کے سہے جاتے ہیں ہنس ہنس کے 
مگر اپنوں کے طعنے اور شکوے مار دیتے ہیں 

مجھے اکثر یہ لگتا ہے کہ جیسے ہوں نہیں ہوں میں 
مجھے ہونے نہ ہونے کے یہ خدشے مار دیتے ہیں 

کبھی مرنے سے پہلے بھی بشر کو مرنا پڑتا ہے 
یہاں جینے کے ملتے ہیں جو صدمے مار دیتے ہیں 

بہت احساں

جتانے سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے 
بہت ایثار و قربانی کے جذبے مار دیتے ہیں 

کبھی طوفاں کی زد سے بھی سفینے بچ نکلتے ہیں 
کبھی سالم سفینوں کو کنارے مار دیتے ہیں 

وہ حصہ کاٹ ڈالا زہر کا خدشہ رہا جس میں 
جو باقی رہ گئے مجھ میں وہ حصے مار دیتے ہیں 

جو آنکھوں میں رہیں نزہتؔ وہی تو خواب اچھے ہیں 
جنہیں تعبیر مل جائے وہ سپنے مار دیتے ہیں

نزہت عباسی


زاہد الحق

یوم پیدائش 26 جون 1977

الزام بتا کون مرے سر نہیں آیا 
حصے میں مرے کون سا پتھر نہیں آیا 

ہم جو بھی ہوئے ہیں بڑی محنت سے ہوئے ہیں 
کام اپنے کبھی اپنا مقدر نہیں آیا 

کچھ اور نہیں بس یہ تو مٹی کا اثر ہے 
ظالم کو کبھی کہنا ہنر ور نہیں آیا  

غزلیں تو بہت کہتے ہو لیکن میاں زاہدؔ 
اب تک تمہیں بننا بھی سخنور نہیں آیا

زاہد الحق


 

سعید رحمانی

یوم پیدائش 26 جون 1938

برہم مزاج ہونے لگا رہنماؤں کا
جاری ہے ہم پہ سلسلہ ان کی جفاؤں کا

آنے لگی ہیں شہری ہوائیں جو اس طرف
چہرہ بدلتا جاتا ہے اب میرے گاؤں کا

شہرِ ستم کی دھوپ لگی کرنے بدحواس
سب ڈھونڈنے لگے ہیں پتہ ٹھنڈی چھاؤں کا

اہلِ زمیں کے مسئلے باقی ہیں آج تک
کچھ لوگ سیر کرتے ہیں لیکن خلاؤں کا

محفوظ مجھ کو رکھتا ہے شدت کی دھوپ سے
ہے سر پہ سائبان جو ماں کی دعاؤں کا

خاموشیوں کی کھوج میں نکلا ہوں میں سعیدؔ
پیچھے ہے میرے کارواں تیکھی صداؤں کا

سعید رحمانی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...