Urdu Deccan

Friday, July 15, 2022

وقار احمد وقار جونپوری

یوم وفات 05 جولائی 2022
انا الیہ وانا الیہ راجعون 

ایسا ہو کاش ، کاش ایسا ہو
 سامنے تو ہمارے بیٹھا ہو
 
جاگتی آنکھوں سے تجھے دیکھوں
وہ عجوبہ ہو ، وہ کرشمہ ہو

میں ترے تو مرے لئے بیتاب
دل سے دل کا کچھ ایسا رشتہ ہو 

کر لیا کر کبھی تو یاد مجھے
جب اکیلا ہو جب بھی تنہا ہو

 یہ ضروری نہیں کہ مل جائے
 چاہتا ہو جو ، وہ ہی پورا ہو
 
تب ہی آگے قدم بڑھائیں وقار
 پکا جب عزم اور ارادہ ہو
 
وقار احمد وقار جونپوری 

کتنا اچھا ہو جو بھائی کی طرح بھائی ہو 
 ہندو ہو سِکھ ہو مسلمان ہو عیسائی ہو

ایک ہی خالق و مالک نے بنایا سب کو 
سوچ کر دیکھیں اگر آپ میں دانائی ہو 

نفرت و بغض و عداوت میں مگن ہیں ہم سب 
چاہے جتنی یہاں بدحالی ہو مہنگائی ہو 

ہوتی گر کچھ تو نظر لوگوں کو آہی جاتی
کوئی خوبی ہو تری کوئی تو اچھائی ہو 

حق و انصاف کی نظروں میں برابر ہوں سب 
چاہے پربت ہو کوئی چاہے کوئی رائی ہو

وقار احمد وقار جونپوری 

 

علیم اطہر

یوم پیدائش 05 جولائی 1971

مری جبیں پہ شکن دیکھ ، اضطراب بھی دیکھ
جو مجھ میں آگ سا بھڑکے وہ انقلاب بھی دیکھ

یہ رخ کا چاند، بدن کے ستارے، دیکھتا کیا ؟
کبھی تو روح میں آ کر، تو آفتاب بھی دیکھ

یہ ملگجے سے ، بدن پر لباس ، لفاظی 
مہکتی روح کے اندر ،حسیں گلاب بھی دیکھ

 الجھ نہ ،تن کے نشیب و فراز میں ناداں
لبوں سے سرخ، چھلکتی ہوئی، شراب بھی دیکھ

دماغ، دل سے مخاطب ہوا ، یہ کہتے ہوئے
سوال کر ہی چکا ہے، تو پھر جواب بھی دیکھ

تمام دنیا کی بیباکیوں کے شیدائی
تمام دنیا پہ نازل ہوا عتاب بھی دیکھ

علیم اطہر۔



نقی احمد ارشاد

یوم پیدائش 05 جولائی 1920

یہ موت عالم برزخ ہے عارضی پر دہ
حیات وہ موت کی حد میں نہیں ہے تو محدود

جو ہست و نیست میں محدود ہے وجود ترا
تو پھر حیات کا تیری جہاں میں کیا مقصود

ترا وجود نہیں اس جہاں میں بے مقصد
یہ سیرگاہِ تجلّی تیری نہیں مسدود

یقین نہ آئے تو آنکھوں سے کائنات کو دیکھو
کہ اس کا بھی تو تیرے وجود سے ہی وجود

یہ آگ رہتی ہے بجھ کر بھی مثلِ خاکستر
حیات کیا ہے شرارِ حیات کی ہے نمود

اگر ہے ذوق تجسس تو دیکھ آنکھوں سے
ہر ایک ذرہ میں خود آفتاب کا ہے وجود

جو بے کنار ہے بے شک وہ تو سمندر ہے 
نہ تو حباب نہ تو ایک قطرۂ بے بود

وہ ارتقاء کے نظریہ کے کیوں نہ قائل ہوں
وہ جن کی آنکھ فقط اب وہ گل میں ہو محدود

نہ یہ رہے گا سماں اور نہ خاکدانِ وجود
بروز حشر مگر حی کے ہوگا تو موجود

بہت عمیق ہے گو سجر زندگی تیرا
تلاش کر اسی دریا میں گوہر مقصود

نقی احمد ارشاد


 

سیف عرفان

یوم پیدائش 04 جولائی 1992

کوشش تو بارہا تھی مری پر نہ بن سکا
خوابوں کا اک مکاں تو بنا گھر نہ بن سکا

بنتا رہا بگڑتا رہا عمر بھر یہ دل
لیکن تمام عمر یہ پتھر نہ بن سکا

مسند کے آگے اتنا جھکایا ہے اپنا سر
بچوں کا میرے دھڑ تو بنا سر نہ بن سکا

میں مبتلا تو رہ گیا تیرے حصار میں
افسوس یہ کہ میں ترا محور نہ بن سکا

اس کی گلی بلا کی کشادہ گلی تھی سیف
میرے لیے وہاں بھی مگر در نہ بن سکا

سیف عرفان


 

وقاص امیر

یوم پیدائش 04 جولائی 1999

کب لوگوں کے ایسے چہرے ہوتے تھے
پہلے تو بس پتے پیلے ہوتے تھے

دینےوالا تب بھی روزی دیتا تھا 
جب اک گھر میں دس دس بچے ہوتے تھے

اک میں مال مویشی اک میں گھر کے لوگ
گھر میں دو ہی کچے کوٹھے ہوتے تھے

اب تو سب کی اپنی اپنی مسجد ہے
پہلے سب کے دکھ سکھ سانجھے ہوتے تھے

روکھی سوکھی مل کے کھائی جاتی تھی
اک روٹی کے کتنے ٹکڑے ہوتے تھے

وقاص امیر۔



حسین شاہ زادٓ

یوم پیدائش 04 جولائی 1975

چھوڑ اظہار مدعا شہ زادٓ
زور کی ہاں میں ہاں ملا شہ زادٓ

عشق تھا جن کو، سب چھپے ہوئے تھے
مل گئے سب، نہیں ملا شہ زادٓ

فلسفہ کل معاشیات کا ہے 
کر بھلا تاکہ ہو بھلا شہ زادٓ

تیز کافور کی مہک اٹّھی
اب کسے عشق ہو گیا شہ زادٓ

آئینے سے نکل کے دیکھتا ہوں
ڈھونڈتا ہے مجھے مرا شہ زادٓ

میں ہی بیمار، میں ہی بیماری
میں ہی تشخیص، میں دوا شہ زادٓ

حسین شاہ زادٓ


 

بینا گوئندی

یوم پیدائش 03 جولائی 1967

چاندنی رات میں بلاؤں تجھے 
دھڑکنیں دل کی میں سناؤں تجھے 

تیرے پہلو میں رکھ کے دل اپنا 
چاند راتوں میں گنگناؤں تجھے 

کچھ کہے ان کہے سوال کروں 
اور یوں پھر سے آزماؤں تجھے 

اپنی ہستی کو بھول سکتی ہوں 
کیسے ممکن ہے بھول جاؤں تجھے 

آنسوؤں کی تپش میں جلتی ہوں 
کاش اس میں کبھی جلاؤں تجھے

بینا گوئندی


موج فتح گڑھی

یوم پیدائش 03 جولائی 1922

خوشبو گلوں میں تاروں میں تابندگی نہیں
تم بن کسی بھی شے میں کوئی دل کشی نہیں

جب تم نہیں ہو پاس خوشی بھی خوشی نہیں
جلتی ہے شمع شمع میں بھی روشنی نہیں

الفت میں بھی سکون کی دولت ملی نہیں
جیتا تو ہوں ضرور مگر زندگی نہیں

وہ کیا سمجھ سکے گا محبت کی عظمتیں
جس کو کبھی کسی سے محبت ہوئی نہیں

تم مجھ کو بے وفائی کے طعنے ہزار دو
الزام بے وفائی سے تم بھی بری نہیں

جب سے لگی ہے آنکھ مری حسن یار سے
سچ پوچھئے تو آنکھ ابھی تک لگی نہیں

اس طرح راہ عشق میں سجدے ادا کئے
میری جبین شوق جھکی پھر اٹھی نہیں

موج فتح گڑھی



عبدالمنان طرزی

یوم پیدائش 03 جولائی 1940

صبح سفر اور شام سفر
ہستی کا انجام سفر

اونچے نام سے کیا ہوتا ہے
کرنا ہے بے نام سفر

سنئے خزاں سے کیا کہتی ہے
گل گلشن گلفام سفر

چاند ستارے اور ہوا
کس کو ہے آرام سفر

بچئے بچئے اس سے بچئے
کر دے جو بدنام سفر

گاہے کام بگاڑے بھی ہے
گاہے آوے کام سفر

کھل نہیں پائے اور مرجھائے
ہائے رے بے ہنگام سفر

کیسا سودا سر میں سمایا
سال و مہ و ایام سفر

شکوہ ہے بے بال و پری کا
دیکھیے زیر دام سفر

تم بھی رہو تیار ہی طرزیؔ
غالبؔ اور خیامؔ سفر


غزل

پا کے طوفاں کا اشارا دریا 
توڑ دیتا ہے کنارا دریا 

کیسے ڈوبے گی بھنور میں کشتی 
کیسے دے گا نہ سہارا دریا 

سیل ہمت ہیں ہمارے بازو 
ڈوب جائے گا تمہارا دریا 

بند افکار نے باندھے لیکن 
چڑھ کے اترا نہ ہمارا دریا 

اہل ہمت نے ڈبویا سب کو 
ناخداؤں سے نہ ہارا دریا 

اے اسیر غم ساحل ادھر آ 
بیچ دھارے سے پکارا دریا 

ہمت ترک وفا ڈوب گئی 
کس نے آنکھوں میں اتارا دریا 

موج نے پوچھ لیا کل طرزیؔ 
کشتی پیاری ہے کہ پیارا دریا

عبدالمنان طرزی


 

خلش امتیازی

یوم پیدائش 03 جولائی 1955

دل کا احوال سنے ، نالۂ دیوانہ سنے
کس کو فرصت ہے کہ اس دور میں افسانہ سنے

خلش امتیازی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...