یوم پیدائش 11 سپتمبر 1959
ناؤ طوفاں میں ہے ٹوٹے ہوئے پتوار کے ساتھ
دشمنی بھی ہے اَزل سے مری منجدھار کے ساتھ
راہِ منزل میں مرا عزم اکیلا تو نہیں
راستہ بھی ہے سفر میں مرے رہوار کے ساتھ
منزلیں اُس کے قدم چوم لیا کرتی ہیں
جو مسافر بھی چلے وقت کی رفتار کے ساتھ
آگ برسی تو پرندوں کے ٹھکانے بھی گئے
جل بُجھے گھونسلے جلتے ہوئے اشجار کے ساتھ
بیج نفرت کے کہاں باغ میں بوتا ہے کوئی
جھاڑیاں خود ہی اُگا کرتی ہیں اشجار کے ساتھ
شاہی دربار جو پہنچے وہ زباں بیچ گئے
کون پہنچا ہے وہاں جرأتِ اِظہار کے ساتھ
وقت کے شمر سے کہہ دو کہ خبردار رہے
جھُک نہیں سکتا یہ سر جائے گا دستار کے ساتھ
وعدہ تنہائی میں ملنے کا وفا ہو کیسے
دونوں جانب تو فرشتے ہیں گنہگار کے ساتھ
پوچھ کر حال سبھی دوست چلے جاتے ہیں
رات بھر کوئی نہیں جاگتا بیمار کے ساتھ
آئے کچھ دوست مرے دل کے مدینے میں نئے
یعنی دو چار مہاجر بھی ہیں انصار کے ساتھ
جان بھی ٹیکس میں دے دوں گا میں ہاروں گا نہیں
میں نے یہ شرط لگا رکھی ہے سرکار کے ساتھ
لوگ سمجھے مرے کمرے میں ہے موجود کوئی
میں نے تصویر لگا رکھی تھی دیوار کے ساتھ
یوں نبھائی ہے سحرؔ رسمِ وفا گُلشن میں
پھول جس طرح نبھاتا ہے کسی خار کے ساتھ