Urdu Deccan

Friday, September 23, 2022

حسین مجروح

یوم پیدائش 13 سپتمبر 1951

مر مٹے جب سے ہم اس دشمن دیں پر صاحب
پاؤں ٹکتے ہی نہیں اپنے زمیں پر صاحب

خوش گمانی کا یہ عالم ہے کہ ہر بات کے بیچ
ہاں کا دھوکہ ہو ہمیں اس کی نہیں پر صاحب

تخت یاروں کو ہے غم شاہ کی معزولی کا
اور فدا بھی ہیں نئے تخت نشیں پر صاحب

ہم تو اک سانولی صورت ہے جسے چاہتے ہیں
آپ مر جائیں کسی ماہ جبیں پر صاحب

حسن رنگوں کے تصادم سے جلا پاتا ہے
جیسے اک خال کسی روئے حسیں پر صاحب

ہم وہ مجروح زیارت کہ سر محفل بھی
آنکھ رکھتے ہیں اسی پردہ نشیں پر صاحب

حسین مجروح


 

کاشف الرحمن کاشف

یوم پیدائش 12 سپتمبر 1980

اس کے ساتھ گزارا پل پل
یاد کروں تو آنکھیں جل تھل

اُس کی آنکھ میں عکس تھا میرا
خوابوں کا پھر پھیلا جنگل

آنکھ سے لے کر پانی یارو
دل کی زمیں پر برسا بادل

سوچنے بیٹھوں کیا ہوں میں ؟ تو
ہو جاتا ہے ذہن مرا شل

اُس کی آنکھ کی گہرائی میں
میری چاہت کا ہے مقتل

کاشف اس سے بچ کر چلنا
دنیا ہے نفرت کی دلدل

کاشف الرحمن کاشف


 

اکبر حبیبی

یوم پیدائش 12 سپتمبر 1960

سنانا چاہتے تھے ہم تو پھول کے قصے
کہاں سے آگئے لب پر ببول کے قصے

وہ سوچتا تھا کہ رک جائیں گے قدم میرے
مگر تھے ذہن میں میرے اصول کے قصے

وہ ایک پیڑ جسے کر کے بے لباس ہَوا
سنارہی ہے کسے اپنی بھول کے قصے

اب اپنے آپ کو پہچاننا بھی مشکل ہے
ہر آئینے میں عبارت ہیں دھول کے قصے

اتر گیا ہے جہاں کا گلاب سا چہرہ
ہر ایک دل میں رقم ہیں ببول کے قصے

جنھیں سفر کی تھکاوٹ نے راستہ نہ دیا
وہی تو لکھتے ہیں اکبرؔ فضول کے قصے

اکبر حبیبی


 

داغ نیازی

یوم پیدائش 12 سپتمبر 1954

امنِ باہم کی فضا برباد ہے
یہ ہمارے دور کی ایجاد ہے

یاد تیری میرے دل میں ہے مکیں
قصرِ دل میرا ابھی آباد ہے

دور ہوجائے کرونا کی وبا
اے خدا تجھ سے یہی فریاد ہے

آپ کا جانا نگاہیں پھیر کر
”مدتیں گزریں ابھی تک یاد ہے“

لکھنؤ علم و ادب کے واسطے
آم کی خاطر ملیح آباد ہے

داغ تیری اک نگاہِ لطف سے
زندگانی شاد ہے آباد ہے

داغ نیازی


 

جاوید شاھد

یوم پیدائش 12 سپتمبر 1958

یوں زندگی سے خواب جزیروں میں آگئے 
حرماں نصیب جیسے اسیروں میں آگئے

جن کی رگوں کے خون سے فن کو جلا ملی
وہ کوزہ گر چمن کے حقیروں میں آگئے

ان سے متاع دین بھی دنیا بھی چھن گئی
جن کے ضمیر زر کی لکیروں میں آ گئے

تیرے لئے تو تج دئیے سب تخت و تاج بھی 
شاھی کو چھوڑا ہم نے فقیروں میں آگئے

ہے روشنی بھی ساتھ تو صوت ازاں بھی ہے
شاھد جی جب سے زندہ ضمیروں میں آ گئیے

جاوید شاھد



پرویز عالم

یوم پیدائش 12 سپتمبر 1993

آپ کے صدقے میں رب نے دو جہاں پیدا کیے
دونوں عالم پر ہے قائم حکمرانی آپ کی

پرویز عالم



مہ جبین غزال

یوم پیدائش 11 سپتمبر

اس سے بڑھ کے ہو بدنصیبی کیا
 اس نے پا کر گنوا لیا ہے مجھے

مہ جبین غزال



ضرر وصفی

یوم پیدائش 11 سپتمبر 1938
رباعی 
ہر کرب کو لفظوں میں سمودیتا ہوں
قطرے میں سمندر کو ڈبو دیتا ہوں
لو شمع صداقت کی جو تھراتی ہے
مانند حسینؓ اپنا لہو دیتا ہوں

ضرر وصفی



اکرم سحر فارانی

یوم پیدائش 11 سپتمبر 1959

ناؤ طوفاں میں ہے ٹوٹے ہوئے پتوار کے ساتھ
دشمنی بھی ہے اَزل سے مری منجدھار کے ساتھ

راہِ منزل میں مرا عزم اکیلا تو نہیں
راستہ بھی ہے سفر میں مرے رہوار کے ساتھ

منزلیں اُس کے قدم چوم لیا کرتی ہیں
جو مسافر بھی چلے وقت کی رفتار کے ساتھ

آگ برسی تو پرندوں کے ٹھکانے بھی گئے
جل بُجھے گھونسلے جلتے ہوئے اشجار کے ساتھ

بیج نفرت کے کہاں باغ میں بوتا ہے کوئی
جھاڑیاں خود ہی اُگا کرتی ہیں اشجار کے ساتھ

شاہی دربار جو پہنچے وہ زباں بیچ گئے
کون پہنچا ہے وہاں جرأتِ اِظہار کے ساتھ

وقت کے شمر سے کہہ دو کہ خبردار رہے
جھُک نہیں سکتا یہ سر جائے گا دستار کے ساتھ

وعدہ تنہائی میں ملنے کا وفا ہو کیسے
دونوں جانب تو فرشتے ہیں گنہگار کے ساتھ

پوچھ کر حال سبھی دوست چلے جاتے ہیں
رات بھر کوئی نہیں جاگتا بیمار کے ساتھ

آئے کچھ دوست مرے دل کے مدینے میں نئے
یعنی دو چار مہاجر بھی ہیں انصار کے ساتھ

جان بھی ٹیکس میں دے دوں گا میں ہاروں گا نہیں
میں نے یہ شرط لگا رکھی ہے سرکار کے ساتھ

لوگ سمجھے مرے کمرے میں ہے موجود کوئی
میں نے تصویر لگا رکھی تھی دیوار کے ساتھ

یوں نبھائی ہے سحرؔ رسمِ وفا گُلشن میں
پھول جس طرح نبھاتا ہے کسی خار کے ساتھ

اکرم سحر فارانی


 

عرفان صدیقی

یوم پیدائش 11 سپتمبر 1939

اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے

عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا
مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے

وہ مرحلہ ہے کہ اب سیل خوں پہ راضی ہیں
ہم اس زمین کو شاداب دیکھنے کے لیے

جو ہو سکے تو ذرا شہ سوار لوٹ کے آئیں
پیادگاں کو ظفر یاب دیکھنے کے لیے

کہاں ہے تو کہ یہاں جل رہے ہیں صدیوں سے
چراغ دیدہ و محراب دیکھنے کے لیے

عرفان صدیقی 



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...