Urdu Deccan

Thursday, September 29, 2022

عمر انصاری

یوم پیدائش 23 سپتمبر 1912

باہر باہر سناٹا ہے اندر اندر شور بہت 
دل کی گھنی بستی میں یارو آن بسے ہیں چور بہت 

یاد اب اس کی آ نہ سکے گی سوچ کے یہ بیٹھے تھے کہ بس 
کھل گئے دل کے سارے دریچے تھا جو ہوا کا زور بہت 

موجیں ہی پتوار بنیں گی طوفاں پار لگائے گا 
دریا کے ہیں بس دو ساحل کشتی کے ہیں چھور بہت 

فصل خزاں تو سہہ لی لیکن موسم گل میں ٹوٹ گری 
بوجھ پھلوں کا سہہ نہیں پائی شاخ کہ تھی کمزور بہت 

دل سے اٹھا طوفان یہ کیسا سارے منظر ڈوب گئے 
ورنہ ابھی تو اس جنگل میں ناچ رہے تھے مور بہت 

برسوں بعد ملا ہے موقع آؤ لگا لیں کشتی پار 
آج تو یارو سناٹا ہے دریا کے اس اور بہت 

آج یقیناً مینہ برسے گا آج گرے گی برق ضرور
انکھیاں بھی پر شور بہت ہیں کجرا بھی گھنگھور بہت

کس سے کس کا ساتھی چھوٹا کس کا عمر کیا حال ہوا
پربت پربت وادی وادی رات مچا تھا شور بہت

عمر انصاری


صائمہ علی

یوم وفات 22 سپتمبر 1970

گلِ نشاط میں رکھا نہ فصلِ غم کو دیا
صبائے عشق نے خوشبو کا ظرف ہم کو دیا

عجب سکوں ہے طبیعت میں جب سے اس دل نے
تری خوشی کی ضمانت میں اپنے غم کو دیا

زبانِ خلق نے کیا کیا نہ ہم کو نام دھرے
کرم کا نام جو ہم نے ترے ستم کو دیا

بہت ملال سے کہتی ہیں اب تری آنکھیں
یہ کیسے چاند کو ہم نے شبانِ غم کو دیا

اب ایک بھیگی چمک رہتی ہے سرِ مژگاں
کہا تھا اس نے کبھی میری چشمِ نم کو دیا

صائمہ علی


 

آصف الدولہ

یوم پیدائش 23 سپتمبر 1748

بسمل کسی کو رکھنا رسم وفا نہیں ہے 
اور منہ چھپا کے چلنا شرط وفا نہیں ہے
 
زلفوں کو شانہ کیجے یا بھوں بنا کے چلیے 
گر پاس دل نہ رکھیے تو یہ ادا نہیں ہے 

اک روز وہ ستم گر مجھ سے ہوا مخاطب 
میں نے کہا کہ پیارے اب یہ روا نہیں ہے 

مرتے ہیں ہم تڑپتے پھرتے ہو تم ہر اک جا 
جانا کہ تم کو ہم سے کچھ مدعا نہیں ہے 

تب سن کے شوخ دل کش جھنجھلا کے کہنے لاگا 
کیا وضع میری آصفؔ تو جانتا نہیں ہے 

یوم پیدائش 23 سپتمبر 1748

بسمل کسی کو رکھنا رسم وفا نہیں ہے 
اور منہ چھپا کے چلنا شرط وفا نہیں ہے
 
زلفوں کو شانہ کیجے یا بھوں بنا کے چلیے 
گر پاس دل نہ رکھیے تو یہ ادا نہیں ہے 

اک روز وہ ستم گر مجھ سے ہوا مخاطب 
میں نے کہا کہ پیارے اب یہ روا نہیں ہے 

مرتے ہیں ہم تڑپتے پھرتے ہو تم ہر اک جا 
جانا کہ تم کو ہم سے کچھ مدعا نہیں ہے 

تب سن کے شوخ دل کش جھنجھلا کے کہنے لاگا 
کیا وضع میری آصفؔ تو جانتا نہیں ہے 

آصف الدولہ


 

کرامت علی کرامت

یوم پیدائش 23 سپتمبر 1936

وہ سچ کے چہرے پہ ایسا نقاب چھوڑ گیا 
رخ حیات پہ جیسے عذاب چھوڑ گیا 

نتیجہ کوشش پیہم کا یوں ہوا الٹا 
میں آسمان پہ موج سراب چھوڑ گیا 

وہ کون تھا جو مری زندگی کے دفتر سے 
حروف لے گیا خالی کتاب چھوڑ گیا 

بہار بن کے وہ آیا گیا بھی شان کے ساتھ 
کہ زرد پتوں پہ رنگ گلاب چھوڑ گیا 

مرے لہو میں جو آیا تھا میہماں بن کر 
مری رگوں میں وہ اک آفتاب چھوڑ گیا 

گیا تو ساتھ وہ لیتا گیا ہر اک نغمہ 
خلا کی گود میں ٹوٹا رباب چھوڑ گیا 

ملا نہ جذبۂ تشکیک کو لباس کوئی 
وہ ہر سوال کا ایسا جواب چھوڑ گیا 

بکھیرتا ہے کرامتؔ جو درد کی کرنیں
وہ خواب ذہن میں اک ماہتاب چھوڑ گیا

کرامت علی کرامت


آفتاب عالم افتاب

یوم وفات 21 سپتمبر 2021

منہگائی اب سکون کے لمحوں کو کھاگئی
فکرِ معاش پھول سے بچوں کو کھاگئی
حصے لگے تو بھائی ہوئے بھائی کے حریف
گز بھر زمین خون کے رشتوں کو کھاگئی

آفتاب عالم افتاب

 

 

عادل اسیر دہلوی

یوم پیدائش 21 سپتمبر 1959

دیکھو غریب کتنی زحمت اٹھا رہا ہے 
گلیوں میں بھیڑ والی رکشا چلا رہا ہے 

محروم ہے اگرچہ دنیا کی نعمتوں سے 
ہر بوجھ زندگی کا ہنس کر اٹھا رہا ہے
 
برسات میں بھی دیکھو پھرتا ہوا سڑک پر 
رکشا بھی بھیگتا ہے خود بھی نہا رہا ہے
 
گرمی کی دھوپ میں بھی رکتا نہیں ہے گھر میں 
پر پیچ راستوں کے پھیرے لگا رہا ہے 

سردی سے کانپتا ہے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں 
ٹھنڈی ہوا سے خود کو کیسے بچا رہا ہے 

مستی میں دوڑتا ہے رکشا لیے سڑک پر 
نغمہ کوئی سریلا اب گنگنا رہا ہے 

رکشے کے پیڈلوں پر رکھے ہیں پاؤں دونوں 
آنکھیں ہیں راستے پر گھنٹی بجا رہا ہے
 
ماں باپ منتظر ہیں گھر پر سبھی کے عادلؔ 
بچوں کو اب وہ لینے اسکول جا رہا ہے

عادل اسیر دہلوی


 

منیب احمد

یوم پیدائش 20 سپتمبر 

چراغِ زیست ہوں لو اور دھواں بناتا ہوں
ہوا کے ہاتھ پہ اپنا نشاں بناتا ہوں

میں باندھتا ہوں بکھرتے دلوں کا شیرازہ
جہانِ خام سے تازہ جہاں بناتا ہوں

مری شکستہ جبیں سے ستارے پھوٹتے ہیں
میں خاکزاد ہوں اور کہکشاں بناتا ہوں

اسے تسلی سمجھتا ہوں داد جو مل جائے
میں جب بھی شعر کو حرفِ فغاں بناتا ہوں

کئی نقوش مرے تن پہ یوں تو بنتے ہیں
بس اک وہیں نہیں بنتا جہاں بناتا ہوں

بچھڑنے والے بچھڑتے ہیں کب سہولت سے
سو رفتہ رفتہ اُنہیں رفتگاں بناتا ہوں

منیب، بے گھری حیرت سے دیکھتی ہے مجھے
زمیں کے سر پہ میں جب آسماں بناتا ہوں

منیب احمد


 

Monday, September 26, 2022

سعدالحسن

یوم پیدائش 20 سپتمبر 1989

لفظوں کے جال میں الجھاتے ہو کچھ شرم کرو
رات کو تیرگی بتلاتے ہو، کچھ شرم کرو

جھوٹ کہتے ہوئے کچھ آتی نہیں شرم تمہیں
سچ بتاتے ہوئے شرماتے ہو، کچھ شرم کرو

بات جتنی ہو بیاں اتنی ہی کی جاتی ہے
آدھے ایمان پہ اتراتے ہو؟ کچھ شرم کرو

اس کی مرضی وہ ملاقات کرے یا نہ کرے
سرکشی پر اُسے اکساتے ہو؟ کچھ شرم کرو

نہ کوئی آنے کا سندیس نہ جانے کی خبر
پل بھر آتے ہو، چلے جاتے ہو، کچھ شرم کرو

سعدالحسن


 

موہن سنگھ

یوم پیدائش 20 سپتمبر 1905

تعلقات کی دنیا کا حال کیا کہئے 
کہ مرنا سہل ہے جینا محال کیا کہئے 

انہیں جو رازق کل کو بھلا کے کرتے ہیں 
گداگران زماں سے سوال کیا کہئے 

ادب کی محفلوں اور دین کی مجالس میں 
نہ کیف حال نہ لطف مقال کیا کہئے 

حسین آج اتر آئے حسن بازی پر 
یہ جوش و طرز نمود جمال کیا کہئے 

حرام ہو گئی انگور و جو کی سادہ کشید 
لہو غریب کا ٹھہرا حلال کیا کہئے 

فسانہ ساز‌و حق آموز و جابر و رحمان 
ہے پر تضاد بشر کا کمال کیا کہئے 

بس ایک نقش ہے چربے اسی کے اٹھتے ہیں 
فسانہ ہائے عروج و زوال کیا کہئے 

تمام چیزیں ہڑپنے کے بعد بھی بھوکی 
سیاست ایسی ہے لعنت مآل کیا کہئے 

مزاج دہر ہے گویا مزاج عورت کا 
ابھی ہے امن بھی جنگ و جدال کیا کہئے 

تمام چیزیں فراواں بھی ہیں گراں بھی ہیں 
ہے ایک صدق و صداقت کا کال کیا کہئے 

ادیب و ناقد و نقاش و اہل رقص و غنا 
چلیں خوشی سے حکومت کی چال کیا کہئے

موہن سنگھ



نجم آفندی

یوم پیدائش 19 سپتمبر 1893

ہستی کوئی ایسی بھی ہے انساں کے سوا اور 
مذہب کا خدا اور ہے مطلب کا خدا اور 

اک جرعۂ آخر کی کمی رہ گئی آخر 
جتنی وہ پلاتے گئے آنکھوں نے کہا اور 

منبر سے بہت فصل ہے میدان عمل کا 
تقریر کے مرد اور ہیں مردان وغا اور 

اللہ گلہ کر کے میں پچھتایا ہوں کیا کیا 
جب ختم ہوئی بات کہیں اس نے کہا اور 

کیا زیر لب دوست ہے اظہار جسارت
حق ہو کہ وہ ناحق ہو ذرا لے تو بڑھا اور 

دولت کا تو پہلے ہی گنہ گار تھا منعم 
دولت کی محبت نے گنہ گار کیا اور 

یہ وہم سا ہوتا ہے مجھے دیکھ کے ان کو 
سیرت کا خدا اور ہے صورت کا خدا اور 

نجم آفندی

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...