Urdu Deccan

Saturday, October 22, 2022

ساجد عالم ساجد

یوم پیدائش 09 اکتوبر 1963

تیری بانہوں کو ہار کرتے ہیں
زندگی تجھ سے پیار کرتے ہیں

ایک تارہ نہ ہو سکا اپنا
روز تارے شمار کرتے ہیں

اپنی قسمت میں راہ تکنا ہے
اس لیے انتظار کرتے ہیں

اس کو جھوٹی خبر سمجھ لینا
تجھ پہ ہم اعتبار کرتے ہیں

ٹوٹ جاتا ہے دل کا دروازہ
جب نظر تم سے چار کرتے ہیں

تم نے دھو کا دیا ہے ساجد کو
چاند کا انتظار کرتے ہیں

ساجد عالم ساجد



ڈاکٹر سید کاظم

یوم پیدائش 08 اکتوبر 2000

دکھا کے گنبدِ خضری کی آب و تاب آقاﷺ
ہمارے تن سے مٹا دیں سب اضطراب آقاﷺ

 ہر ایک لمحہ رہیں آپ کی ثناء میں گم
رہے ہر ایک برائی سے اجتناب آقاﷺ

نہیں مثال کہیں ملتی آپ سی کوئی 
ہیں دو جہان میں بس آپ لاجواب آقاﷺ

ہماری جان بچا لیجے کیجے نظرِ کرم
ہماری سر پہ بہت ہو گئے عذاب آقاﷺ
 
یہی دعا ہے فقط اس گدائے کاظم کی 
بروزِ حشر ہمیں کرنا کامیاب آقاﷺ

ڈاکٹر سید کاظم



شجرؔ ڈیروی

یوم پیدائش 08 اکتوبر 1992

جنابِ من امانِ جان چاہوں گا
متاعِ درد پر دربان چاہوں گا

ہوا ہے فیصلہ جو ملتوی کل تک
میں اُس کے ہونے کے امکان چاہوں گا

ضمیرِ آدمیت کی صدا ہوں مَیں
کسی کا کیوں بھلا نقصان چاہوں گا

پناہِ شب ضروری تو نہیں لیکن
ملا موقع تو میں خلجان چاہوں گا

مجھے خود ذات کے جنگل میں رہنے دو 
یہی اک وادیِ ویران چاہوں گا

دعاؤں میں، مناجاتوں میں، سجدوں میں
فقط مَیں دولتِ ایمان چاہوں گا

شجرؔ ہوں ، میں تو ہر تخلیق میں اپنی
نئے مضموں نئے عنوان چاہوں گا

شجرؔ ڈیروی


 

رحمان جامی

یوم پیدائش 08 اکتوبر 1943

آدم ہے نہ حوا ہے زماں ہے نہ زمیں ہے 
وہ کون ہے جو کن میں مگر پردہ نشیں ہے 

مانا کہ نہیں ہوں ترے الطاف کے قابل 
تو پھر بھی مرے حال سے غافل تو نہیں ہے 

بندہ ہوں ترا غیب پہ ایمان ہے میرا 
اوروں کو نہ ہو مجھ کو مگر تیرا یقیں ہے 

شاہوں کے بھی تاجوں کو لگا دیتا ہے ٹھوکر 
یہ بندۂ نا چیز جو اک خاک نشیں ہے 

تھا ہند کی جانب مرے آقا کا اشارہ 
خوشبوئے محبت تو ہمیشہ سے یہیں ہے 

مانا کہ مرا لٹ گیا سرمایہ خوشی کا 
اک درد کی دولت تو ابھی میرے قریں ہے 

احباب کے برتاؤ کو میں کیسے بھلاؤں 
بیکار تسلی گئی دل پھر بھی حزیں ہے 

آسان نہیں راہ وفا دیکھ کے جامیؔ 
تکلیف کہیں بھوک کہیں پیاس کہیں ہے

رحمان جامی



احمد وصی

یوم پیدائش 08 اکتوبر 1943

درد ٹھہرے تو ذرا دل سے کوئی بات کریں 
منتظر ہیں کہ ہم اپنے سے ملاقات کریں 

دن تو آوازوں کے صحرا میں گزارا لیکن 
اب ہمیں فکر یہ ہے ختم کہاں رات کریں 

میری تصویر ادھوری ہے ابھی کیا معلوم 
کیا مری شکل بگڑتے ہوئے حالات کریں 

اور اک تازہ تعارف کا بہانہ ڈھونڈیں 
ان سے کچھ ان کے ہی بارے میں سوالات کریں 

آؤ دو چار گھڑی بیٹھ کے اک گوشے میں 
کسی موضوع پہ اظہار خیالات کریں

احمد وصی



نازیہ حسین

یوم پیدائش 07 اکتوبر 

خلوص و وفا کا پتہ ہی نہیں ہے
محبت کا ملتا صلہ ہی نہیں ہے

تباہی کا اپنی سبب خود ہی ہم ہیں
زمانے سے کوئی گلہ ہی نہیں ہے

ملے جاہ جس کو خدا خود کو سمجھے
کہ طاقت سے بڑھ کر نشہ ہی نہیں ہے

نہ توڑو کسی کا کبھی دل خدارا
بڑا کوئی اس سے گنہ ہی نہیں ہے

نازیہ حسین



خلیل احمد

یوم پیدائش 07 اکتوبر 1994

کسی بھی شخص سے جب بھی ملے خوشی سے ملے
ہم اپنا عکس سمجھ کر ہر آدمی سے ملے

مزہ تو تب ہے کہ ہم تم ملیں اور ایسے ملیں 
کہ جیسے گیت میں اک راگ راگنی سے ملے

ہوس نے خضرت انساں کو دور رکھا ہے
ہر ایک راز سے جو اس کو عاشقی سے ملے 

تمھاری چاہ میں جو شے ہمیں نصیب ہوئی 
کجا نصیب کہ وہ تم کو زندگی سے ملے 

  خلیل احمد



کبیر احمد کبیر

یوم پیدائش 07 اکتوبر 1992

روگ جب سے مجھے لگا دل کا
حال کتنا برا ہوا دل کا

جب کبھی خیر و شر پرکھنا ہو
دیکھ لیجے بس آئینہ دل کا

بس وہی کامیاب ہوتے ہیں
مانتے ہیں جو مشورہ دل کا

صرف آنکھوں کو بند کر لیجے
دیکھنا ہو جو معجزہ دل کا 

دھڑکنوں پر گراں گزرتا ہے
یوں شب و روز جاگنا دل کا

ہار جاتے ہیں جیتنے والے
کیا عجب ہے یہ معرکہ دل کا

ہے یتیموں سی زندگی اپنی
رہنما جب سے مر گیا دل کا

کبیر احمد کبیر



نور احمد محمود

یوم پیدائش 07 اکتوبر 1959

الفت کو دل میں رکھ کے نفرت کو اب بھلا دو
جو بھی گلے ہیں جاناں وہ آج سب بھلا دو

عشق مجازی میں تم اتنے بھی کھو نہ جاؤ
ایسا نہ ہو کہ اک دن اپنا ہی رب بھلا دو

وعدے نہیں نبھاتے تو مجھ کو شک ہے اب تو
 اس کا ہے کیا بھروسہ تم مجھ کو کب بھلا دو

اس دن یقیں کروں گا الفت پہ میں تمہاری 
غیروں کو اپنے دل سے تم بھی تو جب بھلا دو

جب پیار تم کسی کا پورا ہی آزما لو
 شکوے جو اس سے تھے وہ لازم ہے سب بھلا دو

انساں نہیں فرشتہ غلطی کا وہ ہے پتلا
توبہ سے غلطیاں تم اے یار سب بھلا دو

مصروف ہیں صنم جی کچھ دن جو آج سے ہی
کہتے ہیں نور مجھ کو کچھ وقت اب بھلا دو

نور احمد محمود



حَسَن کاظمی

یوم پیدائش 07 اکتوبر 1960

خوبصورت ہیں آنکھیں تیری ، رات کو جاگنا چھوڑ دے
خود بخود نیند آ جائے گی ، تُو مُجھے سوچنا چھوڑ دے

تیری آنکھوں سے کلیاں کھِلیں ، تیرے آنچل سے بادل اُڑیں
دیکھ لے جو تیری چال کو ، مور بھی ناچنا چھوڑ دے

تیری آنکھوں سے چھلکی ہوئی ، جو بھی اِک بار پی لے اگر
پھِر وہ میخوار اے ساقیا ، جام ہی مانگنا چھوڑ دے

اے خوشی ایک پَل کو سہی ، میں کبھی تُجھ سے مل تو سکوں
میرے گھر سے کہاں جائے گی ، کُچھ تو اپنا پتہ چھوڑ دے

زندگی ہے مُسلسل سفر ، سب کی ہے ایک ہی رہگُزر
ایک ہی جب ہے سب کی ڈگر ، کیوں کوئی راستہ چھوڑ دے

میری آنکھوں میں رہتا ہے تُو ، تیری آنکھوں میں رہتا ہوں میں
صِرف مِحسوس کر لے مُجھے ، آنکھ سے دیکھنا چھوڑ دے 

 حَسَن کاظمی

 


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...