Urdu Deccan

Friday, October 28, 2022

آغا علی مزمل

یوم پیدائش 24 اکتوبر 1965
نظم 

گھونسلہ بھی گرا ہے پیڑ کے ساتھ
اک پرندہ پڑا ہے پیڑ کے ساتھ

کچھ مناجات ہیں پرندے کی
پھول کیا کیا گرا ہے پیڑ کے ساتھ

خوشبو کلیوں کی ، رنگ پھولوں کا
خاک میں مل گیا ہے پیڑ کے ساتھ

ساتھ پتوں کے کٹ گئیں شاخیں
اور سایہ کٹا ہے پیڑ کے ساتھ

نقش تھا نام جس پہ دونوں کا
وہ تنا بھی پڑا ہے پیڑ کے ساتھ

دن وہ بچپن کے اور جوانی کے
وقت کیا کیا کٹا ہے پیڑ کے ساتھ

دل لگا تم سے یا کتابوں سے
یا لگا تو لگا ہے پیڑ کے ساتھ

کل تلک کیا ہوا تھی پیڑ کے ساتھ
آج یہ کیا ہوا ہے پیڑ کے ساتھ

اک دیا جل رہا ہے سینے میں
اک دیا رکھ دیا ہے پیڑ کے ساتھ

آغا علی مزمل



نیاز احمد مجاز انصاری

یوم پیدائش 24 اکتوبر 1950

ہر ایک زاویہ سے سمٹ کر بتائے گا
کیا لذتِ نظر ہے یہ منظر بتائے گا

نیزه بتائے گا نہ تو خنجر بتائے گا
 دریا کہاں ہے پیاس کا دفتر بتائے گا

اب تک مِلا ہے جو بھی مقدر کی بات تھی
اب جو مِلے گا وہ بھی مقدر بتائے گا

یہ بھی ہے کوئی گھر کہ ہوا بھی نہیں نصیب
کہتے ہیں گھر کِسے کوئی بے گھر بتائے گا

سورج کو آ تو جانے دو اپنے سروں کے بیچ
سایہ ہے کِس کا کِس کے برابر بتائے گا

ظل الٰہی دھوپ سے کیسے بچیں گے اب
صحرا کی تپتی ریت پہ لشکر بتائے گا

سوئی ہوئی کتاب کے اوراق جاگ اٹھے
یہ بات اب تو وقت ہی پڑھ کر بتائے گا

بھوکا سہی کسان کی عزت کا ہے سوال
اپنی زمیں کو کیسے وہ بنجر بتائے گا

بجھتی ہے کیسے پیاس بزرگوں کے نام پر
بچہ ہمارا زہر کو پی کر بتائے گا

اپنے لہو کے بہنے کا اِلزام کِس کو دوں
کِس نے کیا ہے قتل مرا سر بتائے گا

کتنے بدن کا خون زمیں پی چکی مجاز
پورس بتائے گا کہ سکندر بتائے گا

نیاز احمد مجاز انصاری



اشہد کریم

یوم پیدائش 23 اکتوبر 1975

کسی کی آنکھ کا قطرہ کنول میں رکھا ہے
غزل کا حسن مزاج- غزل میں رکھا ہے

شعور شعر مرا عشق جانتا ہی نہیں
یہ دل کا شور دماغی خلل میں رکھا ہے

میں اور صبر کے کس پل صراط سے گزروں
کسی نے آج کے وعدے کو کل میں رکھا ہے

وہ اک گلاب کی ساعت چبھن چبھن گزری
وصال زیست کا لمحہ اجل میں رکھا ہے

یہ ذکر و فکر کی دنیا اسی سے روشن ہے 
بس اک خلوص کا جذبہ عمل میں رکھا ہے

یہ راگ وہ ہے کہ پتھر پگھلنے لگتے ہیں
لہو کے رقص کو طول امل میں رکھا ہے

 کھڑا ہے شوق بصارت لیے بصیرت تک 
شکستہ خواب کا سرمہ کھرل میں رکھا ہے

اشہد کریم



اسلم فرخی

یوم پیدائش 23 اکتوبر 1923

آگ سی لگ رہی ہے سینے میں 
اب مزا کچھ نہیں ہے جینے میں 

آخری کشمکش ہے یہ شاید 
موج دریا میں اور سفینے میں 

زندگی یوں گزر گئی جیسے 
لڑکھڑاتا ہو کوئی زینے میں 

دل کا احوال پوچھتے کیا ہو 
خاک اڑتی ہے آبگینے میں 

کتنے ساون گزر گئے لیکن 
کوئی آیا نہ اس مہینے میں 

سارے دل ایک سے نہیں ہوتے 
فرق ہے کنکر اور نگینے میں 

زندگی کی سعادتیں اسلمؔ 
مل گئیں سب مجھے مدینے میں

اسلم فرخی



وامق جونپوری

یوم پیدائش 23 اکتوبر 1909
 
زباں تک جو نہ آئے وہ محبت اور ہوتی ہے
فسانہ اور ہوتا ہے حقیقت اور ہوتی ہے

نہیں ملتے تو اک ادنیٰ شکایت ہے نہ ملنے کی
مگر مل کر نہ ملنے کی شکایت اور ہوتی ہے

یہ مانا شیشۂ دل رونق بازار الفت ہے
مگر جب ٹوٹ جاتا ہے تو قیمت اور ہوتی ہے

نگاہیں تاڑ لیتی ہیں محبت کی اداؤں کو
چھپانے سے زمانے بھر کی شہرت اور ہوتی ہے

یہ مانا حسن کی فطرت بہت نازک ہے اے وامقؔ 
مزاج عشق کی لیکن نزاکت اور ہوتی ہے

وامق جونپوری


 

سیفی اعظمی

یوم پیدائش 22 اکتوبر 1939

خوشی سے پھولیں نہ اہلِ گلشن ، ابھی کہاں سے بہار آئی
ابھی تو پہنچا ہے آئینوں تک مرا مذاقِ برہنہ پائی

سیفی اعظمی



رخسار ناظم آبادی

یوم پیدائش 22 اکتوبر 1959

لوگ جو صاحب کردار ہوا کرتے تھے 
بس وہی قابل دستار ہوا کرتے تھے 

یہ الگ بات وہ تھا دور جہالت لیکن 
لوگ ان پڑھ بھی سمجھ دار ہوا کرتے تھے 

سامنے آ کے نبھاتے تھے عداوت اپنی 
پیٹھ پیچھے سے کہاں وار ہوا کرتے تھے 

جن قبیلوں میں یہاں آج دئے ہیں روشن 
ان قبیلوں کے تو سردار ہوا کرتے تھے 

تب عدالت سے رعایت نہیں مل پاتی تھیں 
تب گنہ گار گنہ گار ہوا کرتے تھے 

کیا زمانہ تھا مہکتی تھیں وہ کیاری گھر کی 
گھر کے آنگن گل و گلزار ہوا کرتے تھے 

قید مذہب کی نہ تھی کل کے پڑوسی دونوں 
ایک دوجے کے مددگار ہوا کرتے تھے 

گھر کے سب لوگ نبھاتے تھے خوشی سے جن کو 
گھر کے ہر فرد کے کردار ہوا کرتے تھے

رخسار ناظم آبادی



Wednesday, October 26, 2022

زرتاب غزل

یوم پیدائش 22 اکتوبر 

رہ حیات کو آسان کچھ کیا جائے
چلو کہ جینے کا سامان کچھ کیا جائے

دکھائیں آئنہ تنقید کرنے والوں کو
ضروری ہے کہ ہشیمان کچھ کیا جائے 

فرشتہ بننے کی تلقین ابھی ہے بے معنی
ہر آدمی کو تو انسان کچھ کیا جائے

لہو بھی دے کے وفادار ہم نہ بن پائے
کسی پہ کیسے اب احسان کچھ کیا جائے

نہ کوئی چاہ, نہ خواہش نہ ولولہ زرتاب
یہ دل ہوا بڑا ویران کچھ کیاجائے

زرتاب غزل


 

عدم گونڈوی

یوم پیدائش 22 اکتوبر 1947

بھوک کے احساس کو شعر و سخن تک لے چلو 
یا ادب کو مفلسوں کی انجمن تک لے چلو 

جو غزل معشوق کے جلووں سے واقف ہو گئی 
اس کو اب بیوہ کے ماتھے کی شکن تک لے چلو 

مجھ کو نظم و ضبط کی تعلیم دینا بعد میں 
پہلے اپنی رہبری کو آچرن تک لے چلو 

عدم گونڈوی


 

اسد اعوان

یوم پیدائش 22 اکتوبر 1975

کچھ بھی تمام زیست کمایا تو ہے نہیں
میرا کسی کے پاس بقایا تو ہے نہیں

میرا یہ رنگ اور ہے میرا یہ ڈھنگ اور
میری غزل میں لفظ پرایا تو ہے نہیں

کچھ بھی گلہ نہیں ہے مجھے بےوفاٶں سے
سارے ملے“ کسی نے رلایا تو ہے نہیں

کوچہء خوش جمال میں اپنی انا سمیت
سب کچھ لُٹا دیا ہے بچایا تو ہے نہیں

مجھ سے جدا ہوا ہے مگر یہ بھی ٹھیک ہے
اُس نے کسی طرح سے بھلایا تو ہے نہیں

خود آ گیا ہے سارے زمانے کو چھوڑ کر
میں تو اُسے ملا ہوں منایا تو ہے نہیں

دنیا غلط خفا ہے مرے دوست سے اسد
میرے پیام پر بھی وہ آیا تو ہے نہیں

اسد اعوان



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...