Urdu Deccan

Sunday, October 30, 2022

آتش بہاولپوری

یوم وفات 27 اکتوبر 1993

مجھے ان سے محبت ہو گئی ہے 
میری بھی کوئی قیمت ہو گئی ہے 

وہ جب سے ملتفت مجھ سے ہوئے ہیں 
یہ دنیا خوب صورت ہو گئی ہے 

چڑھایا جا رہا ہوں دار پر میں 
بیاں مجھ سے حقیقت ہو گئی ہے 

رواں دریا ہیں انسانی لہو کے 
مگر پانی کی قلت ہو گئی ہے 

مجھے بھی اک ستم گر کے کرم سے 
ستم سہنے کی عادت ہو گئی ہے 

حقیقت یہ ہے ہم کیا اٹھ گئے ہیں 
وفا دنیا سے رخصت ہو گئی ہے 

غم جاناں میں جب سے مبتلا ہوں 
غم دوراں سے فرصت ہو گئی ہے 

اب ان کی کفر سامانی بھی آتشؔ 
دل و جاں پر عبارت ہو گئی ہے 

آتش بہاولپوری

راج نرائن راز

یوم پیدائش 27 اکتوبر 1930

کیا بات ہے کہ بات ہی دل کی ادا نہ ہو 
مطلب کا میرے جیسے کوئی قافیہ نہ ہو 

گلدان میں سجا کے ہیں ہم لوگ کتنے خوش 
وہ شاخ ایک پھول بھی جس پر نیا نہ ہو 

ہر لمحہ وقت کا ہے بس اک غنچۂ بخیل 
مٹھی جو اپنی بند کبھی کھولتا نہ ہو 

اب لوگ اپنے آپ کو پہچانتے نہیں 
پیش نگاہ جیسے کوئی آئینہ نہ ہو 

وحشی ہوا کی روح تھی دیوار و در میں رات 
جنگل کی سمت کوئی دریچہ کھلا نہ ہو 

راج نرائن راز


 

ہادی مچھلی شہری

یوم وفات 25 اکتوبر 1961

ہزار خاک کے ذروں میں مل گیا ہوں میں 
مآل شوق ہوں آئینہ وفا ہوں میں 

کہاں یہ وسعت جلوہ کہاں یہ دیدۂ تنگ 
کبھی تجھے کبھی اپنے کو دیکھتا ہوں میں 

شہید عشق کے جلوے کی انتہا ہی نہیں 
ہزار رنگ سے عالم میں رونما ہوں میں 

مرا وجود حقیقت مرا عدم دھوکا
فنا کی شکل میں سرچشمۂ بقا ہوں میں 

ہے تیری آنکھ میں پنہاں مرا وجود و عدم 
نگاہ پھیر لے پھر دیکھ کیا سے کیا ہوں میں 

مرا وجود بھی تھا کوئی چیز کیا معلوم 
اس اعتبار سے پہلے ہی مٹ چکا ہوں میں 

شمار کس میں کروں نسبت حقیقی کو 
خدا نہیں ہوں مگر مظہر خدا ہوں میں 

مرا نشاں نگہ حق نگر پہ ہے موقوف 
نہ خود شناس ہوں ہادیؔ نہ خود نما ہوں میں

ہادی مچھلی شہری


 

بشیر حسین ناظم

یوم پیدائش 25 اکتوبر 1932
حمد باری تعالی

جسم و جاں میں منعکس جلوہ تری تنویر کا​
کیا تشکر ہو سکے بندے سے اس تقدیر کا​​

عبد ممکن کے لئے اے ہستی واجب تری​
حمد کہنا بالیقیں لانا ہے جوئے شیر کا​​

تو موفق ہو تو تیری حمد کی تطریز ہو​
ورنہ در مغلق رہے تحمید کی تحریر کا​​

تیرا باب مرحمت مفتوح ہے شام و سحر​
بخشنے والا ہے تو ہر ایک کی تقصیر کا​​

اور نعروں کے بھی پاسُخ ہوں گے جاں پرور ، مگر​
ہے جواب "اللہ اکبر" نعرہ تکبیر کا​​

رات کی تنہائیوں میں اے انیسِ قلب و جاں​
کیا مزہ آتا ہے تیرے نام کی تکریر کا​​

تیری طاعت ضامنِ فوز و فلاح و عافیت​
تیرا ذکرِ پاک باعث ، عزت و توقیر کا​​

تیرے آگے سر خمیدن ، قوتِ قلب و جگر​
تابِ روحِ مضمحل جلوہ تری تذکیر کا​​

جب تبتل سے ترے آگے کوئی سجدہ کرے​
خود بخود ہوتا ہے ساماں نفس کی تسخیر کا​​

تیرے ہی انوار سے ہے پیکرِ گل تابناک​
امر سے تیرے ہی نکھرا رنگ اس تصویر کا​​

ناظمِ بے علم و دانش تیرے لطفِ خاص سے​
بن گیا مطواع و ناصر دینِ عالمگیر کا

بشیر حسین ناظم


 

الفت الفت

یوم پیدائش 25 اکتوبر 1979

ان کی چوکھٹ پہ جو گزاری ہے 
بس وہی زندگی ہماری ہے 

جو گزارا تمھارے پہلو میں
ایک پل زندگی پہ بھاری ہے 

تیری أواز گونجتی ہے کہیں 
خودسے خود تک تلاش جاری ہے

جس نے دیکھی ہے صورت۔دلبر
مجھ کو الفت وہ أنکھ پیاری ہے

الفت الفت



پرکاش ناتھ پرویز

یوم پیدائش 25 اکتوبر 1930

حسن پابند جفا ہو جیسے 
یہ کوئی خاص ادا ہو جیسے 

یوں تری یاد ہے مرے دل میں 
کسی مرگھٹ میں دیا ہو جیسے 

ہو گیا سوکھ کے کانٹا ہر پھول 
یہ مہکنے کی سزا ہو جیسے 

میری فرقت کا غم آگیں عالم 
چھپ کے تو دیکھ رہا ہو جیسے 

کشتیاں غرق ہوئی جاتی ہیں 
ناخدا ہو نہ خدا ہو جیسے 

اللہ اللہ ترا انداز خرام 
ہر قدم موج صبا ہو جیسے 

کتنی پر کیف ہے یہ ظلمت شب 
تیری زلفوں کی گھٹا ہو جیسے 

تیرے ہونٹوں پہ تبسم توبہ 
ماہ و انجم کی ضیا ہو جیسے 

ان سے کرتا ہوں تغافل کا گلہ 
عشق میں یہ بھی روا ہو جیسے 

اس طرح عشق سے دل شاد ہیں ہم 
یہی ہر غم کی دوا ہو جیسے 

اس سے آتی نہیں اب کوئی صدا 
ساز دل ٹوٹ گیا ہو جیسے 

دیکھ کر تجھ کو یہ ہوتا ہے گماں 
تو مرے دکھ کی دوا ہو جیسے 

ان کو یوں ڈھونڈ رہا ہوں پرویزؔ 
عشق سے حسن جدا ہو جیسے

پرکاش ناتھ پرویز

بمل کرشن اشک

یوم پیدائش 25 اکتوبر 1924

جب چودھویں کا چاند نکلتا دکھائی دے 
وہ گیروا لباس بدلتا دکھائی دے 

دریائے زندگی کہ نگاہوں کا ہے قصور 
ٹھہرا دکھائی دے کبھی چلتا دکھائی دے 

پڑنے لگے جو زور ہوس کا تو کیا نگاہ 
ہر زاویے سے جسم نکلتا دکھائی دے 

بہروپئے کے ہاتھ پڑے ہیں سو رات دن 
دن رات رنگ روپ بدلتا دکھائی دے 

رکھے ہے یوں تو پاؤں سنبھل سوچ کر مگر 
نظروں کا فرش ہے کہ پھسلتا دکھائی دے 

اس نام میں وہ شعلہ گری ہے جو لیجیے 
ہر روم میں چراغ سا چلتا دکھائی دے 

میں اشکؔ شکل نام سے واقف نہیں مگر 
اک شخص ہے جو ساتھ ہی چلتا دکھائی دے

بمل کرشن اشک



Friday, October 28, 2022

صادق اندوری

یوم پیدائش 25 اکتوبر 1917

یہ کیا ہوا کہ ہر اک رسم و راہ توڑ گئے 
جو میرے ساتھ چلے تھے وہ ساتھ چھوڑ گئے 

وہ آئنہ جنہیں ہم سب عزیز رکھتے تھے 
وہ پھینکے وقت نے پتھر کہ توڑ پھوڑ گئے 

ہمارے بھیگے ہوئے دامنوں کی شان تو دیکھ 
فلک سے آئے ملک اور گنہ نچوڑ گئے 

بپھرتی موجوں کو کشتی نے روند ڈالا ہے 
خوشا وہ عزم کہ طوفاں کا زور توڑ گئے 

رہے گی گونج ہماری تو ایک مدت تک 
ہمارے شعر کچھ ایسے نقوش چھوڑ گئے 

ان آئے دن کے حوادث کو کیا کہوں صادقؔ 
مری طرف ہی ہواؤں کا رخ یہ موڑ گئے 

صادق اندوری



مجیب اختر

یوم پیدائش 24 اکتوبر 1946

کاٹ کر لے گیا وہ دستِ ہنر
اور کیا مجھ سے بے ہنر لیتا

مجیب اختر



دُرِ شہوار

یوم پیدائش 24 اکتوبر 1949

ہم کہیں اور تم کہاں جاناں
ہیں کئی ہحر درمیاں جاناں

دُرِ شہوار


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...