Urdu Deccan

Wednesday, November 23, 2022

غزل جعفری

یوم پیدائش 14 نومبر 1960

آج اس کا مجھے اظہار تو کر لینے دو 
پیار ہے تم سے مجھے پیار تو کر لینے دو 

تم نہیں ہو تو ادھوری ہے ابھی میری حیات 
آج اس بات کا اقرار تو کر لینے دو 

اس کو شاید کبھی اپنا بھی خیال آتا ہو 
اس بہانے ہمیں سنگھار تو کر لینے دو 

عمر بھر میں نے تراشے ہیں جو پتھر کے صنم 
ان سے تم پیار کا اظہار تو کر لینے دو

اپنی ہستی کو لٹایا ہے غزلؔ جس کے لئے 
آج اس شخص کا دیدار تو کر لینے دو

غزل جعفری


 

احمد ظفر

یوم پیدائش 13 نومبر 1926

اور کیا میرے لیے عرصۂ محشر ہوگا 
میں شجر ہوں گا ترے ہاتھ میں پتھر ہوگا 

یوں بھی گزریں گی ترے ہجر میں راتیں میری 
چاند بھی جیسے مرے سینے میں خنجر ہوگا 

زندگی کیا ہے کئی بار یہ سوچا میں نے 
خواب سے پہلے کسی خواب کا منظر ہوگا 

ہاتھ پھیلائے ہوئے شام جہاں آئے گی 
بند ہوتا ہوا دروازۂ خاور ہوگا 

میں کسی پاس کے صحرا میں بکھر جاؤں گا 
تو کسی دور کے ساحل کا سمندر ہوگا 

وہ مرا شہر نہیں شہر خموشاں کی طرح 
جس میں ہر شخص کا مرنا ہی مقدر ہوگا 

کون ڈوبے گا کسے پار اترنا ہے ظفرؔ 
فیصلہ وقت کے دریا میں اتر کر ہوگا

احمد ظفر



سبھاش گپتا شفیق

یوم پیدائش 12 نومبر 1956

کبھی وہ میری وفاؤں کو پروقار کرے
یہ اک دعا ہے جو دن رات خاکسار کرے

وہ میرے سامنے خنجر لیے کھڑا کیوں ہے
جو مارنا ہی ہے مجھ کو تو مجھ پہ وار کرے

وہ بے خبر ہے کہ اس کے لیے کوئی کتنے
پہاڑ سر کرے اور کتنے دریا پار کرے

نہیں ہے کوئی یہاں اس کو پوچھنے والا
وہ جس کو چاہے جہاں چاہے سنگ سار کرے

ہمارے عہد کا ہے ایک المیہ یہ بھی
وہی ہے لوٹنے والا جو ہوشیار کرے

اب آدمی کو فقط آدمی سے ڈر ہے شفیق
کہ آدمی کا یہاں آدمی شکار کرے

سبھاش گپتا شفیق



اکبر حسین اکبر

یوم پیدائش 12 نومبر 1958

کشتیاں اب پانیوں کی منتظر ہیں ریت پر
ابر کیوں خاموش ہے سیلاب کو کیا ہوگیا

اکبر حسین اکبر



عاکف غنی

یوم پیدائش 12 نومبر 1971

ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے 
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے 

دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون 
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے 

بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو 
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے 

دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف 
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے

عاکف غنی


راجیندر منچندا بانی

یوم پیدائش 12 نومبر 1932

زماں مکاں تھے مرے سامنے بکھرتے ہوئے 
میں ڈھیر ہو گیا طول سفر سے ڈرتے ہوئے 

دکھا کے لمحۂ خالی کا عکس لاتفسیر 
یہ مجھ میں کون ہے مجھ سے فرار کرتے ہوئے 

بس ایک زخم تھا دل میں جگہ بناتا ہوا 
ہزار غم تھے مگر بھولتے بسرتے ہوئے 

وہ ٹوٹتے ہوئے رشتوں کا حسن آخر تھا 
کہ چپ سی لگ گئی دونوں کو بات کرتے ہوئے 

عجب نظارا تھا بستی کا اس کنارے پر 
سبھی بچھڑ گئے دریا سے پار اترتے ہوئے 

میں ایک حادثہ بن کر کھڑا تھا رستے میں 
عجب زمانے مرے سر سے تھے گزرتے ہوئے 

وہی ہوا کہ تکلف کا حسن بیچ میں تھا 
بدن تھے قرب تہی لمس سے بکھرتے ہوئے

راجیندر منچندا بانی



Tuesday, November 22, 2022

عاجز ماتوی

یوم پیدائش 12 نومبر 1932

اک بار اپنا ظرف نظر دیکھ لیجئے
پھر چاہے جس کے عیب و ہنر دیکھ لیجئے

کیا جانے کس مقام پہ کس شے کی ہو طلب
چلنے سے پہلے زاد سفر دیکھ لیجئے

ہو جائے گا خود آپ کو احساس بے رخی
گر آپ میرا زخم جگر دیکھ لیجئے

سب کی طرف ہے آپ کی چشم نوازشات
کاش ایک بار آپ ادھر دیکھ لیجئے

تارے میں توڑ لاؤں گا آکاش سے مگر
شفقت سے آپ بازو و پر دیکھ لیجئے

جمہوریت کا درس اگر چاہتے ہیں آپ
کوئی بھی سایہ دار شجر دیکھ لیجئے

ہو جائے گی حقیقت شمس و قمر عیاں
ان کو نگاہ بھر کے اگر دیکھ لیجئے

یہ برق حادثات بھی کیا ظلم ڈھائے گی
اٹھنے لگے گلوں سے شرر دیکھ لیجئے

عاجزؔ چلی ہیں ایسی تعصب کی آندھیاں
اجڑے ہوئے نگر کے نگر دیکھ لیجئے

عاجز ماتوی


 

فیاض رفعت

یوم پیدائش 11 نومبر 1940
(نظم احتساب)

جنہیں چاہتے ہو پسند کرتے ہو 
ان کی روحوں کو ٹٹولو 
سچائیوں کی گرہوں کو کھولو 
وہاں بھی اندھیرے کھنڈر ہیں 
وہاں بھی ویران منظر ہیں 
وہاں بھی زخموں کے بسیرے ہیں 
وہاں بھی تنہائیوں کے ڈیرے ہیں 
وہ بس ہنستے ہیں نمائش کے لئے 
ان کی زہر‌ خند ہنسی کو سمجھو 
گوشۂ عافیت انہیں ملا ہے 
نہ تمہیں ملے گا 
کہ وہ بھی عاصی خواہشوں کے 
کہ تم بھی عاصی آرزؤں کے 
جنہیں چاہتے ہو پسند کرتے ہو 
ان کی روحوں کو ٹٹولو 
سچائیوں کی گرہوں کو کھولو

فیاض رفعت



پروانہ رودولوی

یوم پیدائش 11 نومبر 1933
نظم آج کل

ہر سر میں امتحان کا سودا ہے آج کل 
ہر دل میں فیل ہونے کا دھڑکا ہے آج کل 
پرچوں کے آؤٹ ہونے کا چرچا ہے آج کل 
کوئی نہیں کسی کی بھی سنتا ہے آج کل 
منی کی آنکھ نم ہے تو منا کے دل میں غم 
بے چینیوں میں کوئی کسی سے نہیں ہے کم 
دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے کوئی کتاب 
کوئی یہ سوچتا ہے کہ اب آئے گا عتاب 
پڑھتا ہے رات بھر کوئی جغرافیہ کا باب 
پنسل سے سوختہ پہ ہے لکھتا کوئی جواب 
ہر ذی شعور کھیل کے میداں سے دور ہے 
پڑھنے سے کوئی اور کوئی لکھنے سے چور ہے 
انجم کی آنکھ نم ہے تو فردوس ہیں اداس 
محسنؔ یہ سوچتے ہیں کہ ہوں گے یہ کیسے پاس 
عذرا کی یہ دعا ہے کہ آ جائے رٹنا راس 
ہر ذہن میں ہے خوف تو ہر دل میں ہے ہراس 
کوئی نظر میں موت کا نقشہ لئے ہوئے 
بیٹھا ہے کوئی ہاتھ میں بستہ لئے ہوئے 
کھانے کی فکر ہے نہ ہے فٹ بال کا خیال 
چہرے پہ ہر نفس کے ہے تحریر دل کا حال 
اس بار فیل گر ہوئے جینا ہوا محال 
ابو کے مار پیٹ سے اترے گی میری کھال 
یاروں کو کس طرح سے منہ اپنا دکھائیں گے 
اور کس طرح سے منزل امید پائیں گے 
باقی کچھ ایسے لوگ بھی ہیں اس جہان میں 
جو فرق آنے دیتے نہیں اپنی آن میں 
سینے پھلا پھلا کے نکلتے ہیں شان میں 
جیسے کہ کوئی خطرہ نہ ہو امتحان میں 
یہ لوگ زندہ دل ہیں بہادر ہیں شیر ہیں 
جو فیل ہو کے ہوتے ہیں خوش وہ دلیر ہیں 
پڑھنے کا غم ہے ان کو نہ ہے ان کو فکر دوش 
ہر وقت کھیلتے ہیں پڑھائی کا کس کو ہوش 
آپس میں لڑ بھی لیتے ہیں جب آئے ان کو جوش 
ہنستے ہیں امتحان کے دن یہ کتب فروش 
ان کے لئے زمانہ میں کوئی بھی غم نہیں 
چکنے گھڑے ہیں یہ انہیں کوئی الم نہیں

پروانہ رودولوی


 

علی زریون

یوم پیدائش 11 نومبر 1983

ادائے عشق ہوں پوری انا کے ساتھ ہوں میں 
خود اپنے ساتھ ہوں یعنی خدا کے ساتھ ہوں میں 

مجاوران ہوس تنگ ہیں کہ یوں کیسے 
بغیر شرم و حیا بھی حیا کے ساتھ ہوں میں 

سفر شروع تو ہونے دے اپنے ساتھ مرا 
تو خود کہے گا یہ کیسی بلا کے ساتھ ہوں میں 

میں چھو گیا تو ترا رنگ کاٹ ڈالوں گا 
سو اپنے آپ سے تجھ کو بچا کے ساتھ ہوں میں 

درود بر دل وحشی سلام بر تپ عشق 
خود اپنی حمد خود اپنی ثنا کے ساتھ ہوں میں 

یہی تو فرق ہے میرے اور ان کے حل کے بیچ 
شکایتیں ہیں انہیں اور رضا کے ساتھ ہوں میں 

میں اولین کی عزت میں آخرین کا نور 
وہ انتہا ہوں کہ ہر ابتدا کے ساتھ ہوں میں 

دکھائی دوں بھی تو کیسے سنائی دوں بھی تو کیوں 
ورائے نقش و نوا ہوں فنا کے ساتھ ہوں میں 

بہ حکم یار لویں قبض کرنے آتی ہے 
بجھا رہی ہے؟ بجھائے ہوا کے ساتھ ہوں میں 

یہ صابرین محبت یہ کاشفین جنوں 
انہی کے سنگ انہیں اولیا کے ساتھ ہوں میں 

کسی کے ساتھ نہیں ہوں مگر جمال الہ 
تری قسم ترے ہر مبتلا کے ساتھ ہوں میں 

زمانے بھر کو پتا ہے میں کس طریق پہ ہوں 
سبھی کو علم ہے کس دل ربا کے ساتھ ہوں میں 

منافقین تصوف کی موت ہوں میں علیؔ 
ہر اک اصیل ہر اک بے ریا کے ساتھ ہوں میں

علی زریون



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...