Urdu Deccan

Monday, November 28, 2022

ظہور عنبر قریشی

یوم پیدائش 28 نومبر 1937

منزل پہ پہنچ کر بھی منزل نہیں پاتے ہو
تم کیسے مسافر ہو رکتے ہو نہ جاتے ہو 

آئے نہ عیادت کو جب سانس تھی کچھ باقی 
مرنے پہ عقیدت کے کیوں پھول چڑھاتے ہو 

پہلے مری نفرت پر مائل بہ کرم تھے تم 
اب میری محبت پر برہم نظر آتے ہو 

مے نوشی کا پھر مجھ پر الزام نہ آ جائے 
آنکھوں میں لئے مستی کیوں سامنے آتے ہو 

عنبرؔ تو ازل سے ہی رسوائے زمانہ ہے 
کیوں اور اسے اپنی نظروں سے گراتے ہو

ظہور عنبر قریشی


 

مقبول قریشی

یوم پیدائش 28 نومبر 1928

جنھیں حقیر سمجھ کر بجھا دیا تم نے 
وہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی
 
مقبول قریشی


 

بیخود موہانی

یوم وفات 27 نومبر 1940

کیوں اے خیال یار تجھے کیا خبر نہیں 
میں کیوں بتاؤں درد کدھر ہے کدھر نہیں 

نشتر کا کام کیا ہے اب اچھا ہے درد دل 
صدقے ترے نہیں نہیں اے چارہ گر نہیں 

کہتی ہے اہل ذوق سے بیتابیٔ خیال 
جس میں یہ اضطراب کی خو ہو بشر نہیں 

ہستی کا قافلہ سر منزل پہنچ گیا 
اور ہم کہا کیے ابھی وقت سفر نہیں 

دیوان گان عشق پہ کیا جانے کیا بنی 
وارفتگیٔ حسن کو اپنی خبر نہیں 

دنیائے درد دل ہے تو دنیائے شوق روح 
ہوں اور بھی جہاں مجھے کچھ بھی خبر نہیں 

صحرائے عشق و ہستئ موہوم و راز حسن 
ان منزلوں میں دل سا کوئی راہبر نہیں 

ہر ذرہ جس سے اک دل مضطر نہ بن سکے 
وہ کوئی اور چیز ہے تیری نظر نہیں 

اس بے دلی سے کہنے کا بیخودؔ مآل کیا 
الفاظ کچھ ہیں جمع معانی مگر نہیں

بیخود موہانی


راشد انور راشد

یوم پیدائش 27 نومبر 1971

یوں نہ بیگانہ رہو گیت سناتی ہے ہوا 
دل کی سرگوشی سنو گیت سناتی ہے ہوا 

زندگی ساز ہے اس ساز پہ نغمے چھیڑو 
تم بھی کچھ خواب بنو گیت سناتی ہے ہوا 

رات کے پچھلے پہر خواب لبادہ تج کر 
آج تم خود سے ملو گیت سناتی ہے ہوا 

راہ میں آئیں گی چٹانیں بہت سی لیکن 
موج کے ساتھ بہو گیت سناتی ہے ہوا 

شب کے ساحل پہ کئی جگنو دکھائی دیں گے 
کوئی غمگین نہ ہو گیت سناتی ہے ہوا 

ایسی چاہت میں نہیں کوئی قباحت لیکن 
اپنا بھی دھیان رکھو گیت سناتی ہے ہوا 

خوشبوؤں کو کوئی تقسیم کہاں کر پایا 
سرحدیں توڑ بھی دو گیت سناتی ہے ہوا 

منزلیں بڑھ کے ترے قدموں کا بوسہ لیں گی 
یہ سفر طے تو کرو گیت سناتی ہے ہوا 

تھک کے جو بیٹھے تو ٹولی سے بچھڑ جاؤ گے 
آگے ہی بڑھتے چلو گیت سناتی ہے ہوا 

راشد انور راشد



عزیز حمزہ پوری

یوم پیدائش 26 نومبر 1960

زمیں پہ کوستے رہتے ہو جو شراروں کو
کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤگے چاند تاروں کو

بھروسا کر لے ہتھیلی کے جگنوؤں پہ مگر
بجھا کے طاق کی شمعیں نہ دیکھ تاروں کو

نگاہیں رکھنا کہیں پر بجز نشان ہدف
سمجھتا خوب ہے وہ میرے استعاروں کو

چمن میں تیرے اگر پھول کوئی کھل نہ سکا
خزاں کے رت میں نہ اب دوش دے بہاروں کو

نہ جانے کیا ہوا منظر نہیں رہے دلکش
نظر یہ کس کی لگی دلنشیں نظاروں کو

حجاب عقل پہ ان کے پڑا ہے کیا کیجے
خدا دے عقل کہ سمجھیں وہ گل کو، خاروں کو

قدم ہے جو بھی مخالف کا ذد پہ تم ہی ہو
عزیر سمجھو اگر وقت کے اشاروں کو

عزیز حمزہ پوری


 

شین کاف نظام

یوم پیدائش 26 نومبر 1947

وہی نہ ملنے کا غم اور وہی گلا ہوگا 
میں جانتا ہوں مجھے اس نے کیا لکھا ہوگا 

کواڑوں پر لکھی ابجد گواہی دیتی ہے 
وہ ہفت رنگی کہیں چاک ڈھونڈھتا ہوگا 

پرانے وقتوں کا ہے قصر زندگی میری 
تمہارا نام بھی اس میں کہیں لکھا ہوگا 

چبھن یہ پیٹھ میں کیسی ہے مڑ کے دیکھ تو لے 
کہیں کوئی تجھے پیچھے سے دیکھتا ہوگا

گلی کے موڑ سے گھر تک اندھیرا کیوں ہے نظامؔ 
چراغ یاد کا اس نے بجھا دیا ہوگا

شین کاف نظام


 

شرر فتح پوری

یوم پیدائش 26 نومبر 1932

صحرا صحرا گلشن گلشن 
گرد تمنا دامن دامن 

نقش تحیر چہرہ چہرہ 
حسن کرامت جوبن جوبن 

ایک ہی صورت جلوہ جلوہ 
ایک ہی مورت درپن درپن 

شانہ شانہ گیسو گیسو 
خوشبو چندن بن چندن بن 

ابرو ابرو کڑی کمانیں 
خنجر خنجر چتون چتون 

کاجل کاجل جھلمل جھلمل 
افشاں افشاں روشن روشن 

روپ کی ٹھنڈک چاندی چاندی 
تن کا سونا کندن کندن 

رس میں ڈوبی سانس کی سرگم 
نغمہ نغمہ دھڑکن دھڑکن 

چھم چھم چھم چھم زینہ زینہ 
آنگن آنگن چھن چھن چھن چھن 

گھونگھٹ گھونگھٹ مکھڑا مکھڑا 
کوندا کوندا چلمن چلمن 

سجدہ سجدہ کعبہ کعبہ 
پریم شوالا درشن درشن 

کیسے رشتے کیسے ناتے 
جینا مرنا بندھن بندھن 

دل میں جوالا آنکھ میں آنسو 
آگ کی برکھا ساون ساون 

جوگن آنکھیں درس کی پیاسی 
من بیراگی بھٹکے بن بن

شرر فتح پوری


مطیع اللہ نازش

یوم پیدائش 25 نومبر 1985

ہے الجھنوں کی بھیڑ زمانہ خراب ہے
یہ زندگی ہماری لگے اک عذاب ہے

جاہل اگر سوال کرے تم سے جب کبھی
خاموشی اس کی باتوں کا واحد جواب ہے

میں نے تکلفات کے پردے اٹھا دیے
پھر درمیاں ہمارے یہ کیسا حجاب ہے

تعبیر ڈھونڈتا ہوں میں نازشؔ ابھی تلک 
پلکوں پہ میری ٹھہرا سنہرا جو خواب ہے

مطیع اللہ نازش


 

روبینہ ممتاز روبی

یوم پیدائش 25 نومبر 1964

دھوکے پہ دھوکہ اس طرح کھاتے چلے گئے 
ہم دشمنوں کو دوست بناتے چلے گئے 

ہر زخم زندگی کو گلے سے لگا لیا 
ہم زندگی سے یوں ہی نبھاتے چلے گئے 

وہ نفرتوں کا بوجھ لیے گھومتے رہے 
ہم چاہتوں کو ان پہ لٹاتے چلے گئے 

جو خواب زندگی کی حقیقت نہ بن سکا 
اس کے حسیں فریب میں آتے چلے گئے 

روبیؔ چھپانا درد کو آساں نہ تھا مگر 
ہم آڑ میں ہنسی کی چھپاتے چلے گئے

روبینہ ممتاز روبی


 

سلیم کاوش

یوم پیدائش 24 نومبر 1962

تم یقیں ہو گمان سے نکلو
تیر بن کر کمان سے نکلو

اشک ہو تو بہو نا آنکھوں سے
نالہ ہوتو زبان سے نکلو

میں ستارہ بنالوں قسمت کا
تم ذرا آسمان سے نکلو

آخری وقت کیوں پریشاں ہو
تم مری جاں ہو جان سے نکلو

مجھ کو اپنی تلاش ہے کاوش
تم نہ میرے دھیان سے نکلو

سلیم کاوش



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...