یوم پیدائش 04 دسمبر
مقدر کھو گیا میرا ، کسی ڈوبے ستارے میں
مرا تو چاند رہتا تھا ، وہاں بہتے شرارے میں
وہ کشتی ، چاند، اور پانی کے اک منظر میں ہم تم تھے
واں پھر ہاتھوں کو تھامے ہم رکے تھے اس کنارے میں
کنارے دو طرح کے تھے ، جہاں دریا وہ بہتا تھا
کہ ہم تم کھو گئے جاناں ، انہیں کے تیز دھارے میں
ترے حاکم جفا کش ہیں ، اے میری ماں ، مری مٹی
وگرنہ کیا کمی تھی حسن میں ، تیرے نظارے میں
میں گھٹ گھٹ رو کے تھک ہاری ، تری جانب پلٹتی ہوں
خدایا، شکر ہے تیرا ، میں اب تک تھی ، خسارے میں
وہ عاقِ دل ہوا جس دن ، ملا پھر آج رستے میں
بڑی انجان تھیں نظریں ، کہا کچھ نا اشارے میں
مجھے معلوم تھا دے گی جفا مجھ کو بڑھاپے میں
اے رب اولاد دھوکہ ہے ، میں ہوں تیرے سہارے میں
جو مدت بعد رستے میں اچانک مل گئے ہو اب
مرے تم حال کو چھوڑو کہو کچھ اپنے بارے میں
فریحہ عکسٓ