Urdu Deccan

Monday, December 5, 2022

رونق اسلمی شیام نگری

یوم وفات 04 دسمبر 1984

نظریں تمھاری رنگ بدلتی ہیں ہر گھڑی
آنکھوں پہ کیا تمھاری بھروسا کریں گے ہم

رونق اسلمی شیام نگری


 

احترام الدین احمد شاغل عثمانی

یوم پیدائش 04 دسمبر 1896

اک آہِ سرد بھی تو ہو شورِ فغاں کے ساتھ
تاثیر بھی تو چاہیے زورِ بیاں کے ساتھ

احترام الدین احمد شاغل عثمانی 



فریحہ عکسٓ

یوم پیدائش 04 دسمبر 

مقدر کھو گیا میرا ، کسی ڈوبے ستارے میں 
مرا تو چاند رہتا تھا ، وہاں بہتے شرارے میں 

وہ کشتی ، چاند، اور پانی کے اک منظر میں ہم تم تھے 
واں پھر ہاتھوں کو تھامے ہم رکے تھے اس کنارے میں 

کنارے دو طرح کے تھے ، جہاں دریا وہ بہتا تھا 
کہ ہم تم کھو گئے جاناں ، انہیں کے تیز دھارے میں

ترے حاکم جفا کش ہیں ، اے میری ماں ، مری مٹی 
وگرنہ کیا کمی تھی حسن میں ، تیرے نظارے میں 

میں گھٹ گھٹ رو کے تھک ہاری ، تری جانب پلٹتی ہوں
خدایا، شکر ہے تیرا ، میں اب تک تھی ، خسارے میں 

وہ عاقِ دل ہوا جس دن ، ملا پھر آج رستے میں 
بڑی انجان تھیں نظریں ، کہا کچھ نا اشارے میں 

مجھے معلوم تھا دے گی جفا مجھ کو بڑھاپے میں 
اے رب اولاد دھوکہ ہے ، میں ہوں تیرے سہارے میں

جو مدت بعد رستے میں اچانک مل گئے ہو اب
مرے تم حال کو چھوڑو کہو کچھ اپنے بارے میں

فریحہ عکسٓ


 

جلال اصغر فریدی

یوم پیدائش 03 دسمبر 1962

جینا محال لگتا ہے تیرا فضاؤں میں
یہ کس نے زہر گھول دیا ہے ہواؤں میں

پہلے ہی مجھ کو کرنا تھا خوابوں کا تجزیہ
تعبیر ٹاکنی تھی نظر کی رداؤں میں

اب بھی مرے وجود کا بھیگا ہوا بدن
آرام چاہتا ہے کہیں دھوپ چھاؤں میں

آنکھوں میں اضطراب لیے جاگتا رہا
میں نیند چھوڑ آیا تھا خوابیدہ گاؤں میں

مصلوب میں نہ ہوتا نظر کی صلیب پر
زنجیر ڈالنی تھی خیالوں کے پاؤں میں

یہ چلتے چلتے کیسے گزر گاہ تھم گئی
حلقہ بگوش کون تھا ٹوٹی صداؤں میں

جلال اصغر فریدی


 

شبیر ابروی

یوم پیدائش 03 دسمبر 1949

کیا بیاں کوئی کرے شانِ رسالت آپؐ کی
جب خدا قرآن میں کرتا ہے مدحت آپؐ کی

فرش والے کیا سمجھ پائیں گئے سیرت آپؐ کی
عرش والے جانتے ہیں کیا ہے رفعت آپ ؐکی

دنیا والے لائیں اپنے ہر حسیں کردار کو
پیش ہم بھی کر رہے ہیں شانِ سیرت آپؐ کی

پا گیا ایمان والا نارِ دوزخ سے نجات
اک نظر دنیا میں دیکھی جس نے صورت آپؐ کی 

آپؐ جب تشریف لائے آمنہ بی بی کے گھر
جاگ اٹھی دنیا کی قسمت بھی بدولت آپؐ کی

ہے حدیث قدس بن کر تا قیامت برقرار
مومنوں کے واسطے روشن ہدایت آپؐ کی

رفتہ رفتہ وہ بھی اللہ والا ہو گیا
یا رسول اللہ جس نے کی اطاعت آپؐ کی 

شبیر ابروی

ارشد علی عرش

یوم پیدائش 03 دسمبر 1970

درد اٹھتے ہیں سلگتے ہیں سلا دیتے ہیں
خواب پھر آکے ترے خواب دکھا دیتے ہیں

میرے آنسو میری تنہائی کے ساتھی ہی نہیں
تو بھی مجھ میں ہے کہیں یہ بھی پتہ دیتے ہیں

ہاں سوا تیرے کوئی مول کیا انکا جانے
درد جو موتی تیرے در پہ بہا دیتے ہیں

کتنے ارمان‌پتنگوں سے امنڈ آتے ہیں
ہم‌تیری یاد کی جو شمعیں جلا دیتے ہی 

اور تو کچھ نہیں، شاید تیرے در تک پہنچیں
ہم‌جو آنسو تیری فرقت میں بہا دیتے ہیں

یہ خرد والے کہاں جانیں کہ اہل_ دل کو
زخم کھلتے ہیں تو کس درجہ مزہ دیتے ہیں

وہ مہذب ، ہیں وضعدار ، وفا دار نہیں
ہم‌ہیں آوارہ مگر پیار نبھا دیتے ہیں

   ارشد علی عرش



شہرت اورنگ آبادی

یوم پیدائش 02 دسمبر 2000

حاضری دوں میں ان کی محفل میں
اورکوئی آرزونہیں دل میں

کیسےماراکہ جب نہیں کوئی
آلۂ حرب دست قاتل میں

جنگ جیتوں توکیسےمیں جیتوں
وہ ہیں آئےمرےمقابل میں

ہم سفرمیں ہیں کاٹتےشب وروز
اوروہ ٹھہرےہوےہیں منزل میں

میری آنکھوں میں کیابسےہیں وہ
کھلبلی ہےمچی ہوی دل میں

حسن کل جسم کا اکٹھا ہے
اس کےرخسارپراُگےتِل میں

ہاتھ کوئی نہ تھامےگا شہرت
*راستہ خودبناؤمشکل میں*

شہرت اورنگ آبادی


 

رباب رشیدی

یوم پیدائش 02 دسمبر 1969

پھر تری یاد میں وہ دیدۂ گریاں مانگے
پھر وہی جشن کا ساماں سرِ مژگاں مانگے

اب نہ بیزاری کوئی موجِ نظر سے اٹھے
اور پھر ذہن کوئی خوابِ پریشاں مانگے

اک تبسم کا سہارا بھی بہت ہوتا ہے
نذر کردیں گے اگر کوئی دل و جاں مانگے

چشمِ گستاخ کا کیا کام ہے اس محفل میں
آئینہ روز فقط دیدۂ حیراں مانگے

کوئی تصویر ، کوئی نقش ، کوئی عکسِ جمیل
خود سے گھبرائے تو کیا کیا دلِ ویراں مانگے

دولتِ ضبط بھی دی ، ذوقِ قناعت بھی دیا
تجھ سے کیا اور ترا بندۂ احساں مانگے

دھوپ میں لوگ درختوں کی پناہیں چاہیں
اور اک شخص خیالِ رخِ جاناں مانگے

رباب رشیدی



حرمت الااکرام

یوم پیدائش 02 دسمبر 1927

طے کیا اس طرح سفر تنہا 
ایک ہم ایک رہ گزر تنہا 

کون ہوتا رفیق تیرہ شبی 
دل جلایا ہے تا سحر تنہا 

خیریت پوچھنے کو آئی ہے 
زندگی مجھ کو دیکھ کر تنہا 

آفت جاں ہے وضع ہم سفری 
وقت کی راہ سے گزر تنہا 

دھڑکنوں کا بھی ہے عجب انداز 
دل کی وادی ہے کس قدر تنہا 

نہ ملا درد آشنا کوئی 
کٹ گیا درد کا سفر تنہا 

دشت میں اپنی ہی تجلی کے 
جھلملایا کیا قمر تنہا 

ساعتیں دیتی ہی رہیں آواز 
زندگی چل پڑی کدھر تنہا 

قتل گاہ وفا ملی خالی 
حرمتؔ آئے ہمیں نظر تنہا

حرمت الااکرام



ریاض الرحمان ساغر

یوم پیدائش 01 دسمبر 1941

دل جو گھبرایا تو اٹھ کر دوستوں میں آ گیا 
میں کہ آئینہ تھا لیکن پتھروں میں آ گیا 

آج اس کے بال بھی گرد سفر سے اٹ گئے 
آج وہ گھر سے نکل کر راستوں میں آ گیا  

لوگ کہتے ہیں کہ اپنا شہر ہے لیکن مجھے 
یوں گماں ہوتا ہے جیسے دشمنوں میں آ گیا 

ہم بھرے بازار میں اس وقت سولی پر چڑھے 
شہر سارا ٹوٹ کر جب کھڑکیوں میں آ گیا 

شب‌ زدوں نے روشنی مانگی تو سورج دفعتاً 
آسمانوں سے اتر کر بستیوں میں آ گیا 

جب سمیٹا میں نے اپنے ریزہ ریزہ جسم کو 
اور بھی کچھ زور ساغرؔ آندھیوں میں آ گیا 

ریاض الرحمان ساغر

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...