Urdu Deccan

Saturday, January 14, 2023

رہبر گیاوی

یوم پیدائش 05 جنوری 1967

کھوٹے سکے اچھالتے رہیے 
کام اپنا نکالتے رہیے 

لوگ سیدھے ہیں جو انہیں یوں ہی 
جھوٹے وعدوں پہ ٹالتے رہئے 

بھوکے پیاسے عوام جی لیں گے 
آپ کتوں کو پالتے رہیے 

ہم کو گر کر سنبھلنا آتا ہے 
آپ خود کو سنبھالتے رہیے 

یہ ہیں بچے بہل ہی جائیں گے 
آپ پانی ابالتے رہیے 

مال جیسا ملے مرے رہبرؔ 
اپنی جھولی میں ڈالتے رہیے

رہبر گیاوی



مبین مرزا

یوم پیدائش 05 جنوری 1965

نہ آہ کرتے ہوئے اور نہ واہ کرتے ہوئے 
جئیں گے ضبط کو اپنی پناہ کرتے ہوئے 

وہ ایک رنگ جو چھلکے گا اس کی آنکھوں سے 
وہ جیت لے گا مجھے اک نگاہ کرتے ہوئے 

بدل بھی سکتی ہے دنیا یہ جانتا ہوں مگر 
میں ہار جاؤں گا اس سے نباہ کرتے ہوئے 

میں سب حساب رکھوں گا سفیدیوں سے پرے 
اب اپنی فرد عمل کو سیاہ کرتے ہوئے 

ترے بغیر مجھے زندگی نہ راس آئی 
سو جی رہا ہوں میں خود کو تباہ کرتے ہوئے

مبین مرزا



محمد اظہر عارف

یوم پیدائش 05 جنوری 1976

جو شہر بھر میں ہے چرچا بدل بھی سکتا ہے
ہمارا چھوٹا سا بچہ بدل بھی سکتا ہے

رئیسِ شہر ہو تو کیا ، ادب سے بات کرو
یہ میرا نرم سا لہجہ بدل بھی سکتا ہے

بہت جتن سے نہ رکھو چھپا کے سکوں کو
جو چل رہا ہے وہ سکہ بدل بھی سکتا ہے

یہ مشورہ ہے سیاست میں مت الجھ عارفؔ
یہ وہ ہنر ہے جو رتبہ بدل بھی سکتا ہے

محمد اظہر عارف



م، سرور پنڈولوی

یوم پیدائش 05 جنوری 1945

ہر طرف اس کے لیے بننے لگی ہے اب ہوا
دیکھیے اس شمعِ روشن کو بجھا ئے کب ہوا

پیار ، ہمدردی ، وفاسب اچھے دن کےتھےرفیق
جب برے دن آ گئے تو ہو گئے  ہیں  سب    ہوا

ان مشینو ں کی ہواؤں سے خدارا اب بچا
کھول دے سارے دریچے تازہ آئے تب ہوا 

کارخانہ زیست کا چلتا بھی اس کے دم سے ہے 
گھر کا گھر ویران کر دے قہر ڈھا ئے جب ہوا

آج کا انساں تو سورج چاند پر بھی جا بسے!
ہاں ، میسّر کاش کردے اُن پہ میرا رب ہوا

لگ گئی تھی آگ بستی میں کہیں پانی نہ تھا
اور ایسے میں بھیانک کر گئی کر تب ہوا 

اب کہاں ہے فکراس کو دل کے رشتوں کی ذرا !
کیا امارت کی اسے بھی لگ گئی مطلب ہوا؟

گا ئوں میں اب جاکےسرور دیکھیےکیسی ہےیہ
شہرکی تو ہوگئی ہے اب بڑی بے ڈھب ہوا

م، سرور پنڈولوی


جہانگیر یوسف

یوم پیدائش 05 جنوری 1955

چار دن کی یہ زندگانی ہے
ہنستے گاتے ہمیں بتانی ہے

ہاتھ آئے نہ پھر حسیں موقع
کچھ ہی لمحوں کی تو جوانی ہے

زندگی کی بقا تری تب تک
جب تلک خون میں روانی ہے

آؤ اک دوسرے میں کھو جائیں
ایسی رت پھر کبھی نہ آنی ہے

قلت گل بہار کا موسم
باغباں کی یہ مہر بانی ہے

حسرت و یاس میں کٹے شب و روز
دوستو! یہ مری کہانی ہے

بھول جاؤں گا کس طرح جاناں
تیری یادوں سے زندگانی ہے

اب ہے ہمدم نہ ہمسفر کوئی
عمریوسف یونہی بتانی ہے

جہانگیر یوسف



زین رامش

یوم پیدائش 05 جنوری 1963

دست طلب دراز زیادہ نہ کر سکے 
ہم زندگی سے کوئی تقاضا نہ کر سکے 

چوں کہ کرم پہ ہم ترے شبہ نہ کر سکے 
بس اے خدا گناہ سے توبہ نہ کر سکے 

جب اعتبار ذوق نظر بھی نہ مل سکا 
نظروں کو اپنی وقف نظارہ نہ کر سکے 

تو جب قریب جاں بھی قریب نظر بھی تھا 
ہم بھی بزعم عشق اعادہ نہ کر سکے 

پھر تو ترا خیال بھی آیا نہیں کبھی 
پھر ہم تری طلب بھی گوارہ نہ کر سکے

زین رامش



فرحت حسین خوشدل

یوم پیدائش 05 جنوری 1958

تری نظر میں یقیناً ہے وہ بشر اچھا
ہو جس کی بات کا دل پر ترے اثر اچھا

قدم قدم پہ نئے مرحلے رہے درپیش
رکاوٹیں تھیں مگر کٹ گیا سفر اچھا 

دراز ہو کے سبھی مسئلے سمٹتے گئے
نہ جانے کس کی دعاؤں کا تھا اثر اچھا 

ہر ایک شعر کی تفہیم پہ ہو جس کی نظر
تو ہر نظر میں ہے وہ صاحب نظر اچھا 

خدا کا شکر ہے خوش دلؔ وہ خوش ہوئے مجھ سے
سلوک مہر و وفا کا ہوا اثر اچھا

فرحت حسین خوشدل



مقبول منظر

یوم پیدائش 05 جنوری 1963

دہن دیا ہے تو شیریں زبان دے اللہ
بیان کو میرے حسنِ بیان دے اللہ

جو رہنما ہو، اندھیرے میں روشنی بخشے
مرے شعور کو ایسا تو گیان اللہ

ترے جہاں کی قدامت سے بھر گیا ہے دل
نئی زمین، نیا آسمان دے اللہ

شکاری جال بچھانے لگے ہیں جن کے لیے
تو اُن پرندوں کو اونچی اڑان دے اللہ

نہیں ہے مجھ کو گلہ اہل قصر و ایواں سے
جو بے مکاں ہیں انہیں بھی مکان دے اللہ

اندھیرا پھیلا ہے دہشت کا شہر و قریہ میں
اُگا کے امن کا سورج امان دے اللہ

جھلس رہا ہے مصائب کی دھوپ میں منظر
تو اس کے سر پہ کوئی سائبان دے اللہ

مقبول منظر



عبد الرؤف عروج

یوم پیدائش 05 جنوری 1932

خموشی میری لے میں گنگانا چاہتی ہے 
کسی سے بات کرنے کا بہانا چاہتی ہے 

نفس کے لوچ کو خنجر بنانا چاہتی ہے 
محبت اپنی تیزی آزمانا چاہتی ہے

مبادا شہر کا رستہ کوئی رہ رہ نہ پا لے 
ہوا قبروں کی شمعیں بھی بجھانا چاہتی ہے 

گلابوں سے لہو رستا ہے میری انگلیوں کا 
فضا کیسی چمن بندی سکھانا چاہتی ہے 

میں اب کے اس کی بنیادوں میں لاشیں چن رہا ہوں 
امارت کوئی قصر دلبرانہ چاہتی ہے 

جہاں پتھر سہی لیکن جنوں کی خود نمائی 
فریب جلوۂ آئینہ خانہ چاہتی ہے

عبد الرؤف عروج



جعفر ساہنی

یوم پیدائش 05 جنوری 1941

دل میں بیٹھا تھا ایک ڈر شاید 
آج بھی ہے وہ ہم سفر شاید 

ہاتھ پتھر سے ہو گئے خالی 
پیڑ پر ہے نہیں ثمر شاید 

ڈھونڈھتا تھا وجود اپنا وہ 
تھا ادھر اب گیا ادھر شاید 

سرخیاں اگ رہی ہیں دامن پر 
ہو گیا ہاتھ خوں سے تر شاید 

پھول الفت کے کھل رہے ہوں جہاں 
ہوگا ایسا بھی اک نگر شاید 

بیکلی بڑھ گئی ہے دریا کی 
کہہ گیا جھک کے کچھ شجر شاید 

درد کا ہو گیا ہے مسکن وہ 
لوگ کہتے ہیں جس کو گھر شاید 

مل کے ان سے خوشی ہوئی مجھ کو 
وہ بھی ہوں گے تو خوش مگر شاید 

روتے روتے ہنسی مری خواہش 
مل گئی اک نئی خبر شاید 

دن کا کٹنا محال ہے تو سہی 
رات ہو جائے گی بسر شاید 

آگ پانی میں جو لگاتا ہے 
وہ بھی ہوگا کوئی بشر شاید 

صحن دل سے خوشی نہیں گزری 
راستہ تھا وہ پر خطر شاید 

دھوپ کے گھر گھٹا گئی جعفرؔ 
خشک کرنے کو بال و پر شاید

جعفر ساہنی 



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...