یوم پیدائش 06 جنوری 1955
پھر میسر یہ ملاقات کبھی ہو کہ نہ ہو
سامنے بیٹھ کے پھر بات کبھی ہو کہ نہ ہو
آؤ ہم بوجھ دلوں کا ذرا ہلکا کر لیں
کیا خبر اشکوں کی برسات کبھی ہو کہ نہ ہو
یہ بھی ممکن ہے کہ میں آپ کا دل رکھ پاؤں
پھر سے یہ عالم جذبات کبھی ہو کہ نہ ہو
چھوڑنے والا تھا دل تیرے کرم کی امید
ڈر تھا پھر لطف اشارات کبھی ہو کہ نہ ہو
تھا ارادہ کہ کوئی بات ادھوری نہ رہے
کیا خبر فرصت لمحات کبھی ہو کہ نہ ہو
پیار کے نام پہ یہ زخم بھی ہیں مجھ کو قبول
پھر مری نذر یہ سوغات کبھی ہو کہ نہ ہو
تجھ سے ملنے کا یہ موقع ہمیں قسمت سے ملا
ایسی دلچسپ ملاقات کبھی ہو کہ نہ ہو
یہی بہتر ہے کہ ہم کر لیں قبول اپنے گناہ
خود سے اس طرح ملاقات کبھی ہو کہ نہ ہو
اتنا بے بس تھا میں انجمؔ کہ زباں کھل نہ سکی
کیا خبر ختم سیہ رات کبھی ہو کہ نہ ہو