Urdu Deccan

Sunday, January 15, 2023

فصیح احمد ساحر

یوم پیدائش 08 جنوری 1955

تشنہ لبوں کی آہ فلک تک پہنچ گئی
رحمت برس پڑی ہے گھٹا کے بغیر بھی

فصیح احمد ساحر



مجید عاصم

یوم پیدائش 08 جنوری 1948

مجھ کو سننا ہے تو رہنا گوش برآواز تم
گونج ہوں ماضی کی لیکن گنبدِ فردا میں ہوں

مجید عاصم



احمد معراج

یوم پیدائش 07 جنوری 1986

کوچہء زیست میں ہر شخص پریشاں نکلا
پیکرِ رنج و اسیرِ غمِ دوراں نکلا

سخت دشوار جو کام اہلِ خرد کے لئے تھا
کام وہ اہلِ جنوں کے لئے آساں نکلا

نئی تہذیب کی دیکھی یہ عجب عریانی
خوش لباسی میں بدن حسن کا عریاں نکلا

سخت حیرت ہوئی قاتل کو مرے قتل کے بعد
ایک قطرہ بھی کہاں خونِ رگِ جاں نکلا

وہ اکیلا ہی نکلتا تو کوئی بات نہ تھی
ساتھ آدم کو لئے خلد سے شیطاں نکلا

جس کو پھولوں کی رفاقت تھی میسر معراج
صحنِ گلشن سے ہوئی چاک بداماں نکلا

احمد معراج


 

عتیق الرحمن صفی

یوم پیدائش 07 جنوری 1972

مری مشکل اگر آساں بنا دیتے تو اچھا تھا 
لبوں سے لب دم آخر ملا دیتے تو اچھا تھا 

میں جی سکتا تھا بس تیری ذرا سی اک عنایت سے 
مرے ہاتھوں میں ہاتھ اپنا تھما دیتے تو اچھا تھا 

مری بیتاب دھڑکن کو بھی آ جاتا قرار آخر 
مرے خوابوں کی دنیا کو سجا دیتے تو اچھا تھا 

تمہاری بے رخی پر دل مرا بے چین رہتا تھا 
کبھی عادت یہ تم اپنی بھلا دیتے تو اچھا تھا 

کبھی اس جلد بازی کا ثمر اچھا نہیں ہوتا 
کوئی دن اور چاہت میں بتا دیتے تو اچھا تھا 

صفیؔ آنسو بھی دشمن بن گئے ہیں دیکھ لے آخر
نہ ان کو ضبط کرتے تم بہا دیتے تو اچھا تھا

عتیق الرحمن صفی

 

حسن عباسی


یوم پیدائش 07 جنوری 1971

پہلے کچھ دیر چراغوں میں نظر آتا ہے
پھر وہ چہرہ مری آنکھوں میں نظر آتا ہے

اک زمانہ ہوا بچھڑے اُسے لیکن اب بھی 
راہ چلتے ہوئے لوگوں میں نظر آتا ہے

تتلیاں ورنہ کہاں ڈھونڈتیں اس کو جا کر
اس کا احساں ہے کہ پھولوں میں نظر آتا ہے 

دشت و دریا کے مناظر میں ہے بکھرا بکھرا
حسن جیسا ترے وعدوں میں نظر آتا ہے

دل بھی ساتھ اس کے دھڑکتا ہو ضروری تو نہیں
ہاتھ جس کا مرے ہاتھوں میں نظر آتا ہے 

یہ جو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے اندر کی گھٹن
ایسا ماحول تو باغوں میں نظر آتا ہے

جانے کیا ہے کہ سمندر ہی سمندر ہر سو
پچھلے کچھ روز سے خوابوں میں نظر آتا ہے 

اور پیغام لیے پھرتی ہے ساحل کی ہوا
اضطراب اور ہی لہروں میں نظر آتا ہے

مجھ کو آغوش میں لے لیتی ہے تنہائی حسن
چاند جب پیڑ کی بانہوں میں نظر آتا ہے 

حسن عباسی

 

نور اقبال

زخم دیتا ہے تو مرہم بھی لگا دیتا ہے
پھر شفا کے لئے رو رو کے دعا دیتا ہے

میری تصویر فریموں میں سجا دیتا ہے
بعد میں دوسری تصویر لگا دیتا ہے

اس کو شاعر نہ کہو وہ ہے پہلوان سخن
اچھے اچھوں کو سدا دھول چٹا دیتا ہے

جیب میں اپنی کبھی رکھتا نہیں کوئی رومال
میرے آنسو کو وہ پنکھے سے سکھا دیتا ہے

عید کا چاند دکھاتا ہے مجھے اور کبھی
میرے چہرے کو محرم وہ بنا دیتا ہے

نور اقبال



Saturday, January 14, 2023

سدھا جین انجم

یوم پیدائش 06 جنوری 1955

پھر میسر یہ ملاقات کبھی ہو کہ نہ ہو 
سامنے بیٹھ کے پھر بات کبھی ہو کہ نہ ہو 

آؤ ہم بوجھ دلوں کا ذرا ہلکا کر لیں 
کیا خبر اشکوں کی برسات کبھی ہو کہ نہ ہو 

یہ بھی ممکن ہے کہ میں آپ کا دل رکھ پاؤں 
پھر سے یہ عالم جذبات کبھی ہو کہ نہ ہو 

چھوڑنے والا تھا دل تیرے کرم کی امید 
ڈر تھا پھر لطف اشارات کبھی ہو کہ نہ ہو 

تھا ارادہ کہ کوئی بات ادھوری نہ رہے 
کیا خبر فرصت لمحات کبھی ہو کہ نہ ہو 

پیار کے نام پہ یہ زخم بھی ہیں مجھ کو قبول 
پھر مری نذر یہ سوغات کبھی ہو کہ نہ ہو 

تجھ سے ملنے کا یہ موقع ہمیں قسمت سے ملا
ایسی دلچسپ ملاقات کبھی ہو کہ نہ ہو 

یہی بہتر ہے کہ ہم کر لیں قبول اپنے گناہ
خود سے اس طرح ملاقات کبھی ہو کہ نہ ہو 

اتنا بے بس تھا میں انجمؔ کہ زباں کھل نہ سکی
کیا خبر ختم سیہ رات کبھی ہو کہ نہ ہو

سدھا جین انجم



عباس رانا

یوم پیدائش 06 جنوری 1942

اپنے ہی خون سے اس طرح عداوت مت کر 
زندہ رہنا ہے تو سانسوں سے بغاوت مت کر 

سیکھ لے پہلے اجالوں کی حفاظت کرنا 
شمع بجھ جائے تو آندھی سے شکایت مت کر 

سر کی بازار سیاست میں نہیں ہے قیمت 
سر پہ جب تاج نہیں ہے تو حکومت مت کر 

خواب ہو جام ہو تارہ ہو کہ محبوب کا دل 
ٹوٹنے والی کسی شے سے محبت مت کر 

دیکھ پھر دست ضرورت میں نہ بک جائے ضمیر 
زر کے بدلے میں اصولوں کی تجارت مت کر 

پرسش حال سے ہو جائیں گے پھر زخم ہرے 
اس سے بہتر ہے یہی میری عیادت مت کر 

سر جھکانے کو ہی سجدہ نہیں کہتے داناؔ 
جس میں دل بھی نہ جھکے ایسی عبادت مت کر

عباس رانا



منصور راٹھوڑ

یوم پیدائش 06 جنوری 1975

دھنک کے رنگ چُرا لیں ہمارا بس جو چلے
تری ہتھیلی میں ڈالیں ہمارا بس جو چلے

بنا کے وقت کا کوئی وجود سورج سا
اسے ڈبوئیں نکالیں ہمارا بس جو چلے

یہ چاند گیند کے جیسے اچھالتے جائیں
ستارے جیب میں ڈالیں ہمارا بس جو چلے

تمہیں پہن لیں ہم اپنے وجود کے اوپر
تمہیں لباس بنا لیں ہمارا بس جو چلے

تمہاری مٹی کو گوندھیں ھم اپنی مٹی میں
پھر ایک جسم میں ڈھالیں ہمارا بس جو چلے

زمیں نے باندھ کے رکھا ہے جس کشش سے یہ چاند
تمہیں یوں خود سے لگا لیں ہمارا بس جو چلے

یہ کارِ عشق جنوں ہے، نہ جان شیشہ گری
تمہیں تو نوچ کے کھا لیں ہمارا بس جو چلے

فراق در پہ بوقتِ وصال آ پہنچے 
تو اگلے سال پہ ٹالیں ہمارا بس جو چلے

منصور راٹھوڑ



اشرف سلیم

یوم پیدائش 05 جنوری 1963

ترے بدن کے نئے زاویے بناتا ہوا 
گزر رہا ہے کوئی دائرے بناتا ہوا 

یہاں ستارے کو کیا لین دین کرنا تھا 
جو ٹوٹ پھوٹ گیا رابطے بناتا ہوا 

وفا پرست نہیں تھا تو اور کیا تھا وہ 
جو زخم زخم ہوا آئنے بناتا ہوا 

میں دوستوں کے اک اک امتحاں سے گزرا ہوں 
بکھر گیا ہوں کئی راستے بناتا ہوا 

سلیمؔ ٹوٹ نہ جائے کہیں بھرم اپنا 
نکل پڑا ہوں نئے سلسلے بناتا ہوا

اشرف سلیم



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...