Urdu Deccan

Sunday, January 29, 2023

حبیب احمد صدیقی

یوم پیدائش 15 جنوری 1908

خزاں نصیب کی حسرت بروئے کار نہ ہو 
بہار شعبدۂ چشم انتظار نہ ہو 

فریب خوردۂ الفت سے پوچھئے کیا ہے 
وہ ایک عہد محبت کہ استوار نہ ہو 

نظر کو تاب نظارہ نہ دل کو جرأت دید 
جمال یار سے یوں کوئی شرمسار نہ ہو 

قبا دریدہ و دامان و آستیں خونیں 
گلوں کے بھیس میں یہ کوئی دل فگار نہ ہو 

نہ ہو سکے گا وہ رمز آشنائے کیف حیات 
جو قلب چشم تغافل کا رازدار نہ ہو 

طریق عشق پہ ہنستی تو ہے خرد لیکن 
یہ گمرہی کہیں منزل سے ہمکنار نہ ہو 

نہ طعنہ زن ہو کوئی اہل ہوش مستوں پر 
کہ زعم ہوش بھی اک عالم خمار نہ ہو 

وہ کیا بتائے کہ کیا شے امید ہوتی ہے 
جسے نصیب کبھی شام انتظار نہ ہو 

یہ چشم لطف مبارک مگر دل ناداں 
پیام عشوۂ رنگیں صلائے دار نہ ہو 

کسی کے لب پہ جو آئے نوید زیست بنے 
وہی حدیث وفا جس پہ اعتبار نہ ہو 

جو دو جہان بھی مانگے تو میں نے کیا مانگا 
وہ کیا طلب جو بقدر عطائے یار نہ ہو

حبیب احمد صدیقی


 

نذیر قیصر

یوم پیدائش 15 جنوری 1945

میری آنکھوں کو مری شکل دکھا دے کوئی 
کاش مجھ کو مرا احساس دلا دے کوئی 

غرض اس سے نہیں وہ کون ہے کس بھیس میں ہے 
میں کہاں پر ہوں مجھے میرا پتا دے کوئی 

ڈھونڈھتا پھرتا ہوں یوں اپنے ہی قدموں کے نشاں 
جیسے مجھ کو مری نظروں سے چھپا دے کوئی 

دل کی تختی سر بازار لیے پھرتا ہوں 
کاش اس پر تری تصویر بنا دے کوئی 

یوں تجھے دیکھ کے چونک اٹھتی ہیں سوئی یادیں 
جیسے سناٹے میں آواز لگا دے کوئی 

دوسری سمت ہیں خوشبو کے افق کی صبحیں 
رنگ کے کہر کی دیوار گرا دے کوئی 

سانس روکے ہوئے بیٹھے ہیں مکانوں میں مکیں 
جانے کب اور کسے آ کے صدا دے کوئی

نذیر قیصر


 

یونس آرزو

یوم پیدائش 15 جنوری 1954

نفرت کے چراغوں کو حکمت سے بجھا دیں گے
ہم شمع محبت کی ہر دل میں جلا دیں گے

ہر رنگ کے پھولوں سے گل دان سجا دیں گے
ہر سمت نئی دنیا الفت کی بسا دیں گے

دعویٰ تو نہیں کرتے کوشش ہے مگر جاری
ماحول گلستاں کا پُرامن بنا دیں گے

ہر سمت فضاؤں میں الفت کی حکومت ہو
ہم سوچ میں انساں کی یہ بات بٹھا دیں گے

ہر شخص ہمیں اپنی مجلس میں بلائے گا
جب اپنے خیالوں کو پاکیزہ بنا دیں گے

ہر وقت فضاؤں میں خوشبو ہو محبت کی
ہم امن کے وہ پھول زمانے میں کھلا دیں گے

ہر فرد کی آنکھوں سے ہم پونچھ کے اشکِ غم
اک آرزوؔ جینے کی ہر دل میں جگا دیں گے

یونس آرزو



فیاض کاوش

یوم پیدائش 15 جنوری 1937
رباعی 
اب دل میں محبت کا شرارا بھی نہیں
کچھ آپ کی نظروں کا اشارا بھی نہیں
کس درجہ ہوئی تیرہ و تاریک حیات
پلکوں پہ لرزتا ہوا تارا بھی نہیں

رباعی 
بجلی کا گھٹاؤں میں سفر ہوتا ہے
تاروں میں تجلی کا گذر ہوتا ہے
اے روشنی_قلب کے منکر سن لے
پتھر کے بھی سینے میں شرر ہوتا ہے

رباعی 
آغوش_قمر میں جو مچل جاتی ہے
پھولوں کے جو پہلو سے نکل جاتی ہے
وہ مہکی ہوئی چاندنی کیسے ساقی
ہر صبح مرے جام میں ڈھل جاتی ہے

فیاض کاوش



عمانوئیل نذیر مانؔی

یوم پیدائش 14 جنوری 1972

لوٹ کر آئے نہیں شہر سے جانے والے 
جانے کس دیس میں جاتے ہیں نہ آنے والے
 
ہم نے ہر بار وفاؤں کی سزا پائی ہے 
ہم نے دھوکے یہاں کھائے ہیں نہ کھانے والے 

ہم نے اِس کارِ محبت میں قدم رکھا تھا 
ہم وہ عاشق ہیں میاں دشت بسانے والے 

اُس کو دیکھا تو مری آنکھ سے چھلکے آنسو 
کُچھ تو ہوتے ہی نہیں زخم چُھپانے والے 

اِن درختوں پہ بھی آسیب کا سایہ ہے کوئی 
سانپ بیٹھے ہیں پرندوں کو ستانے والے 

اب کے دشمن کے لئے مَیں نے دعا مانگی ہے 
دوست مِلتے ہیں مجھے خون بہانے والے 

میرے خوابوں کی یوں تعمیر کہاں ممکن ہے 
دل میں رہتے ہیں مری نیند چُرانے والے 

اُن کی یادوں سے نِکلتا ہی نہیں دِل مانی 
مر کے بھی ساتھ نبھاتے ہیں نبھانے والے 

عمانوئیل نذیر مانؔی



بھویش دلشاد

یوم پیدائش 14 جنوری 1981

نہ قریب آ نہ تو دور جا یہ جو فاصلہ ہے یہ ٹھیک ہے 
نہ گزر حدوں سے نہ حد بتا یہی دائرہ ہے یہ ٹھیک ہے 

نہ تو آشنا نہ ہی اجنبی نہ کوئی بدن ہے نہ روح ہی 
یہی زندگی کا ہے فلسفہ یہ جو فلسفہ ہے یہ ٹھیک ہے 

یہ ضرورتوں کا ہی رشتہ ہے یہ ضروری رشتہ تو ہے نہیں 
یہ ضرورتیں ہی ضروری ہیں یہ جو واسطہ ہے یہ ٹھیک ہے 

میری مشکلوں سے تجھے ہے کیا تیری الجھنوں سے مجھے ہے کیا 
یہ تکلفات سے ملنے کا جو بھی سلسلہ ہے یہ ٹھیک ہے 

ہم الگ الگ ہوئے ہیں مگر ابھی کنپکنپاتی ہے یہ نظر 
ابھی اپنے بیچ ہے کافی کچھ جو بھی رہ گیا ہے یہ ٹھیک ہے 

مری فطرتوں میں ہی کفر ہے مری عادتوں میں ہی عذر ہے 
بنا سوچے میں کہوں کس طرح جو لکھا ہوا ہے یہ ٹھیک ہے

بھویش دلشاد


 

رضی احمد فیضی

یوم پیدائش 13 جنوری 1973

جو آسمان پر ہے وہ مہتاب اور ہے
میں جس کو دیکھتا ہوں تہہِ آب اور ہے

انگڑائی میں نے دیکھی ہے اس ماہتاب کی
جو آپ جانتے ہیں وہ محراب اور ہے

ہر ساز دلنشیں ہے مگر جانِ مطربہ
تار نفس کو چھیڑے وہ مضراب اور ہے

مضمون دلفریب ہے لیکن مرے حضور
عنوانِ باب اور ہے یہ باب اور ہے

ہو کوئی دیدہ ور تو کرے کارِ امتیاز
آنسو الگ ہے دیدۂِ خوناب اور ہے

شاید نہ پیشِ لفظ ہو یہ بھی فریب کا
ظالم کے رخ پہ آج تب و تاب اور ہے

تعریف سامنے ہے برائی ہے پیٹھ پر
یعنی ہمارا حلقۂِ احباب اور ہے

دریا کے پاس فیضی نہ اس کو تلاشئے
دل جس میں ڈوبتا ہے وہ گرداب اور ہے

رضی احمد فیضی


 

قیصر امام قیصر

یوم پیدائش 12 جنوری 1970

روز نیا الزام لگایا جاتا ہے
ہم کو دہشت گرد بتایا جاتا ہے

شبدوں کا اک جال بچھایا جاتا ہے
خون کے آنسو ہم کو رلایا جاتا ہے

مسجد کی دیوار گرا کر سب خوش ہیں
گھی کا دیا مندر میں جلایا جاتا ہے

اچھے دن اب لوٹ کے پھر نہ آئیں گے
جھوٹا سپنا روز دکھایا جاتا ہے

لاکھوں بچے بھوکے ہی سو جاتے ہیں
کتوں کو بھر پیٹ کھلایا جاتا ہے

گو رکشا کے نام پہ ہم دیں والوں کے 
خون کا دریا روز بہایا جاتا ہے

قیصر امام قیصر



اشفاق احمد اشفاق

یوم پیدائش 12 جنوری 1973

چشمِ عالم میں وہ خوب تر ہوگئے
سنگ ریزے جو لعل و گہر ہوگئے

یا خدا آنکھ والوں کی اب خیر ہو
کوربینا جو تھے دیدہ ور ہوگئے

گوشۂ دل میں چہرے جو محفوظ تھے
ریزہ ریزہ سبھی ٹوٹ کر ہوگئے

ظلم پر ظلم کا ہے یہ ردِ عمل
پیکرِ گل تھے جو وہ شرر ہوگئے

جب سے ظلِ الٰہی نے تمغہ دیا
تھے جو نامعتبر ، معتبر ہوگئے

ہم نے پالا کبھی آستیں میں جنھیں
وہ مرے واسطے پُرخطر ہوگئے

میں تو نکلا سفر میں اکیلا مگر
آبلے پاؤں کے ہم سفر ہوگئے

مسند آراء ہوئے بدنما چہرے جب
تو وہ اشفاق زیبِ نظر ہوگئے

اشفاق احمد اشفاق



Sunday, January 15, 2023

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...