Urdu Deccan

Tuesday, January 31, 2023

احسان نانپاروی

یوم پیدائش 31 جنوری 1931

سفر ہے شرط رہ کہکشاں ہے تیرے لیے 
نئی زمین نیا آسماں ہے تیرے لیے 

بلا رہی ہے تجھے منزل بلند تری 
یہ نالۂ جرس کارواں ہے تیرے لیے 

ترے جنوں نے کھلائے لہو سے لالہ و گل 
بہار نازش صد گلستاں ہے تیرے لیے 

خوشا وہ عظمت فقر و خود آگہی تیری 
کہ خم جبین غرور شہاں ہے تیرے لیے 

بصیرت نگہ جذبۂ کلیمانہ 
عطا ہوئی ہے تجھے یہ جہاں ہے تیرے لیے 

احسان نانپاروی



عامر ریاض

یوم پیدائش 31 جنوری 1985

پرانے خول سے نکلے رخِ نَو تک چلے آئے
کھلے در آگہی کے ہم قلمرو تک چلے آئے

ضیائے رحمتِ یزداں جہاں انکو بلاتی تھی
اشارہ دیکھتے موسیَ اسی لَو تک چلے آئے

فراتِ جاں ابلتا ہے غم و آلام کی صورت 
سرشکِ خوں حدِ احساس کی رَو تک چلے آئے

رہِ دشوار میں ہونگی بڑی آسانیاں پیدا 
مکیں جب ظلمتِ شب کے کسی ضَو تک چلے آئے

غزل جوبن پہ آٸی تو ترے اکرام سے مولا 
تخیل خود بخود میری تگ و دو تک چلے آئے

عامر ریاض



اشک امرتسری

یوم پیدائش 31 جنوری 1900

قید ہستی میں ہوں اپنے فرض کی تعمیل تک 
اک نئی دنیا نئے انسان کی تشکیل تک 

دام ہم رنگ زمیں پھیلا دیا صیاد نے 
وادیٔ گنگ و جمن سے رود بار نیل تک 

آنکھ سے بہہ جائے گا دل میں اگر باقی رہا 
قطرۂ خوں داستان درد کی تکمیل تک 

شاعری کا ساز ہے وہ ساز ہو جس ساز میں 
نغمۂ روح الامیں سے بانگ اسرافیل تک 

تو ہی اسرار سخن سے ہے ابھی نا آشنا 
ورنہ اس اجمال میں موجود ہے تفصیل تک 

بس نہیں چلتا ہے ان کا ورنہ یہ ظلمت پرست
اپنی پھونکوں سے بجھا دیں عرش کی قندیل تک 

اشکؔ اپنے سینۂ پر خوں میں سیل اشک بھی 
روک رکھتا ہوں جگر کے خون کی تحلیل تک

اشک امرتسری



مقبول نقش

یوم وفات 31 جنوری 2005

اتفاقاً جو کہیں اب وہ نظر آتے ہیں 
کتنی یادوں کے حسیں نقش ابھر آتے ہیں 

کیسے گزری شب آشفتہ سراں کس کو خبر 
لوگ تو بام پہ ہنگام سحر آتے ہیں 

سوچ لیں آپ مرا ساتھ کہاں تک دیں گے 
مرحلے سیکڑوں دوران سفر آتے ہیں 

یوں غلط تو نہیں چہروں کا تأثر بھی مگر 
لوگ ویسے بھی نہیں جیسے نظر آتے ہیں 

ان سے جب ترک تعلق کا خیال آتا ہے 
رابطے کتنے تصور میں ابھر آتے ہیں

مقبول نقش



شمشاد شاؔد

اب بھگوئیں گے نہ پلکوں کے کنارے آنسو
ہو گئے خشک مری آنکھ کے سارے آنسو

میری آنکھوں سے نہ چھلکے ہیں نہ چھلکیں گے کبھی
انتہائے غم و تکلیف کے مارے آنسو

یہ بھی ہوتا ہے کہ جب چوٹ تمہیں لگتی ہے
بے تامل نکل آتے ہیں ہمارے آنسو

ساتھ دیتا نہیں چہرے کا تاثر ہرگز
چاہے آنکھوں میں کوئی لاکھ ابھارے آنسو

ایک اک بات تمہاری شب تنہائی میں
یاد کرتے ہیں تو بہتے ہیں ہمارے آنسو

دامن ضبط مرے ظرف نے چھوڑا ہے مگر
گھر سے بے گھر ہوئے جاتے ہیں بچارے آنسو

نوکِ انگشت سے برجستہ جھٹک کر میں نے
کہہ دیا دور مری آنکھ سے جا رے آنسو

جب چھلک آتے ہیں آنکھوں میں خوشی کے مارے
"میٹھا میٹھا سا مزہ دیتے ہیں کھارے سے"

ان کے بہہ جانے سے آتا ہے مرے دل کو قرار
اسلئے شاؔد مجھے لگتے ہیں پیارے آنسو

شمشاد شاؔد



Sunday, January 29, 2023

صادق گیاوی

یوم پیدائش 29 جنوری 1935

کوئی جینے کا کیا کرے ارماں
ڈس رہے ہیں حیات کے سائے

صادق گیاوی



مسلم نواز

یوم پیدائش 29 جنوری 1946

کچھ زمیں لیتا چلوں کچھ آسماں لیتا چلوں
جب جہاں سے جاؤں میں حسنِ جہاں لیتا چلوں

ہے بھٹک جانے کا اندیشہ مجھے گھیرے ہوئے
ساتھ اپنے اپنا میرِ کارواں لیتا چلوں

دشتِ تنہائی میں کوئی ساتھ جب دیتا نہیں
میں پریشانی میں گردِ کارواں لیتا چلوں

کون جانے کس گھڑی آجائے موجوں کا جلوس
اپنی کشتی کے لیے میں بادباں لیتا چلوں

رفتہ رفتہ زخم سارے مندمل ہوجائیں گے
میں پرانے زخمِ دل کے کچھ نشاں لیتا چلوں

اک صدائے خامشی کے درمیاں زندہ ہوں میں
زندگی تو ہی بتا تجھ کو کہاں لیتا چلوں

مسلم نواز


 

برہما نند جلیس

یوم پیدائش 28 جنوری 1930

دینے والے یہ زندگی دی ہے 
یا مرے ساتھ دل لگی کی ہے 

ہم کو معلوم ہی نہ تھا یہ راز 
موت کا نام زندگی بھی ہے 

آشیانوں کی خیر ہو یا رب 
صحن‌ گلشن میں روشنی سی ہے 

ہم نے برسوں جگر جلایا ہے 
پھر کہیں دل میں روشنی کی ہے 

آپ سے دوستی کا اک مفہوم 
ساری دنیا سے دشمنی بھی ہے 

لوگ مرتے ہیں زندگی کے لئے 
ہم نے مر مر کے زندگی کی ہے 

ہم کو مارا ہے عاشقی نے جلیسؔ 
لوگ کہتے ہیں خود کشی کی ہے

برہما نند جلیس



ماجد خلیل

یوم وفات 27 جنوری 2016

صحنِ حرم سے دیکھ رہا ہوں حدِ نظر سے آگے بھی
دستِ دعا سے بابِ اثر تک بابِ اثر سے آگے بھی

دیکھ نظر تو دیکھ سکے جو دیدۂ تر سے آگے بھی
شہر نبیؐ میں اک منظر ہے ہر منظر سے آگے بھی

فرشِ زمیں سے عرشِ بریں تک چھوٹ ہے گنبذ خضرا کی
خُلدِ نظر ہی خُلدِ نظر ہے خُلدِ نظر سے آگے بھی

سوچو تو معراج نبیؐ نے اک یہ بھی احسان کیا
فہمِ بشر کو وسعت دے دی فہمِ بشر سے آگے بھی

عزم ِسفر سے پہلے بھی تھی ایک ہی منزل قلب و نظر
ایک ہی منزل قلب و نظر سے ختمِ سفر سے آگے بھی

اہلِ ہنر نے نعت نبیؐ سے کیا کیا فیض اٹھائے ہیں 
کسبِ ہنر سے عرضِ ہنر تک عرضِ ہنر سے آگے بھی

بیشک خوش انجام ہے عاصی وہ جس کے دل میں اکثر
خوفِ قیامت بڑھ جاتا ہے موت کے ڈر سے آگے بھی

لازم تھا قوسین کا پردہ ورنہ تکلف کیا معنی
آئینہ کیا جا سکتا تھا آئینہ گر سے آگے بھی

قسمت ماجد اول و آخر آپؐ کی چوکھٹ آپؐ کا در 
آپؐ کی چوکھٹ سے پہلے بھی آپؐ کے در سے آگے بھی 

ماجد خلیل



جعفر بلوچ

یوم پیدائش 27 جنوری 1947

آج کسی کی یاد میں ہم جی بھر کر روئے دھویا گھر 
آج ہمارا گھر لگتا ہے کیسا اجلا اجلا گھر 

اپنے آئیں سر آنکھوں پر غیر کی یہ بیٹھک نہ بنے 
گھر آسیب کا بن جائے گا ورنہ ہنستا بستا گھر 

گھر کو جب ہم جھاڑیں پوچھیں رہتے ہیں محتاط بہت 
گرد آلود نہیں ہونے دیتے ہم ہم سایے کا گھر 

تم نے کڑیاں جھیلیں اور غیروں کے گھر آباد کیے 
راہ تمہاری تکتا ہے آبائی سونا سونا گھر 

جو آرام ہے اپنے گھر میں اور کہاں مل سکتا ہے 
ٹوٹا پھوٹا بھی ہو تو بھی اپنا گھر ہے اپنا گھر 

اک انجانے ڈر نے نیند اچک لی سب کی آنکھوں سے 
کتنی ہی راتوں سے مسلسل بے آرام ہے گھر کا گھر 

میری روح بروگن رہ رہ کر چلاتی رہتی ہے 
میرا گھر میرا پیارا گھر میرا پیارا پیارا گھر 

آوارہ گردی کے سبب وہ دن بھر تو مطعون رہا 
جب سورج مغرب میں ڈوبا جعفرؔ بھی جا پہنچا گھر 

جعفر بلوچ



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...