Urdu Deccan

Tuesday, February 28, 2023

دین محمد امین صابونیہ

یوم پیدائش 21 فروری 1948

پوچھ پوچھ کر عقل سے چلنا ، دیوانوں کا کام نہیں
دن میں دیپ جلے تو جلنا ، پروانوں کا کام نہیں

اہل جنوں کی سنگت میں کچھ سال بتانے پڑتے ہیں
عشقِ بتاں کی باتیں کرنا ، ودوانوں کا کام نہیں

اُن کی مے میں مستی ہے اور ان کی مے میں عشق ہی عشق
اہل حرم کا شیوہ ہے جو، میخانوں کا کام نہیں

تاج ، حکومت چھوڑ کے عاشق ، بن باسی بن جاتے ہیں
عشق و محبت ٹوٹ کے کرنا ، فرزانوں کا کام نہیں

دل کی بستی کیسے اُجڑی ، بستے گھر ویران ہوئے
میرے اپنے ہی تھے دشمن ، بیگانوں کا کام نہیں

ذکرِ یار ذرا چھیڑو تو ، ایک غزل ہو جاتی ہے
عشق کی باتیں ظاہر کرنا ،افسانوں کا کام نہیں

دردِ دل ہے دردِ جگر ہے ،دردِ سر ہے عشق امین
عشق کی اُلجھن کو سلجھانا ، ایوانوں کا کام نہیں

دین محمد امین صابونیہ


بشیر النساء بیگم بشیر

یوم وفات 20 فروری 1972

تجھ پہ کیا خاک اے زمیں ہوتا 
ہم نہ ہوتے تو کچھ نہیں ہوتا 

نہ یہ دنیا میں شورشیں ہوتیں 
اور نہ یہ ذوق آں و ایں ہوتا 

زندگی نام ہے تڑپنے کا 
جب سکوں ہو سکوں نہیں ہوتا 

حشر سو بار رونما ہوتا 
دل کو آنکھوں پہ گر یقیں ہوتا 

کس قدر دل نواز منظر ہے 
کاش برجا دل حزیں ہوتا 

کچھ بڑی بات تھی ید اللہہی 
تجھ کو اپنے پہ گر یقیں ہوتا 

آگے چرچے تھے جن کی باتوں کے 
ان کا اب ذکر تک نہیں ہوتا 

دل میں اگلی سی بات گر ہوتی 
حرف نا خواندہ دل نشیں ہوتا 

گردش چرخ کہہ رہی ہے بشیرؔ 
جذب کامل سے کیا نہیں ہوتا

بشیر النساء بیگم بشیر


قمر نیاز

یوم پیدائش 20 فروری 

یہ دل مرا جیتا نہیں ، ہارا بھی نہیں ہے
تجھ ہجر کے گھائو کا مداوا بھی نہیں ہے

پوچھا جو نہیں اس نے مرا حال تو پھر کیا 
دریا کی کوئی پیاس بجھاتا بھی نہیں ہے

وحشت نے نئے رنگ بھرے آنکھ میں تیری
کیا ذکر ہو دریا کا کہ صحرا بھی نہیں ہے

اتنی تو سہولت تھی مرے خواب سجاتا
افسوس ! تُو اب خواب میں آتا بھی نہیں ہے

یہ بات بجا ، وجہِ سکوں ڈھونڈ رہا ہوں 
یہ بات الگ ، اور گوارا بھی نہیں ہے

ہر رنگ جو ملتا ہے قمر ، رنگ میں تیرے 
آنکھوں میں کوئی رنگ سمایا بھی نہیں ہے

قمر نیاز


 

بلال سہارن پوری

یوم پیدائش 20 فروری 1983

قہر برسا آسماں سے تب پشیمانی ہوئی 
بھول بیٹھے ہم خدا کو ہم سے نادانی ہوئی 

کیا حسیں رونق یہاں تھی کس قدر آباد تھا 
آج اپنے شہر کو دیکھا تو حیرانی ہوئی 

ہو گئے ہیں مندر و مسجد کے دروازے بھی بند 
ساری دنیا پر مسلط کیسی ویرانی ہوئی 

جی حضوری کر نہ پائے حکم پر اس کے بلالؔ 
بادشاہ وقت کی ہم سے نہ دربانی ہوئی

بلال سہارن پوری



یوسف مثالی

یوم پیدائش 20 فروری 1955

کیا ضروری ہے ! کوئی زخم کریدا جائے
میں جو خوش ہوں تو مرا حال نہ پوچھا جائے

ایک اک کر کے سبھی چھوڑ گئے ہیں مجھ کو
اب تو سوچا ہے پرندہ بھی نہ پالا جائے

تو نے دیکھے نہیں یاروں کے بھیانک چہرے
یہ وہ منظر ہے کہ آنکھوں سے نظر کھا جائے

شام ، ہر شام دلاسے نہیں دینے والی
اس سے کہنا کہ وہ اب لوٹ کے گھر آجائے

اپنی سوچوں سے مری جان کہاں پھوٹے گی
آج بھی سوچ رہا ہوں کہ نہ سوچا جائے

تیری یادوں کی کڑی دھوپ سے شکوہ کیسا
اپنی دیوار ہی سائے کو اگر کھا جائے

یوسف مثالی



سید شکیل دسنوی

یوم پیدائش 20 فروری 1941

اتنی مدت بعد ملے ہو کچھ تو دل کا حال کہو 
کیسے بیتے ہم بن پیارے اتنے ماہ و سال کہو 

روپ کو دھوکا سمجھو نظر کا یا پھر مایا جال کہو 
پریت کو دل کا روگ سمجھ لو یا جی کا جنجال کہو 

آنکھوں دیکھی کیا بتلائیں حال عجب کچھ دیکھا ہے 
دکھ کی کھیتی کتنی ہری اور سکھ کا جیسے کال کہو 

ایک وفا کو لے کے تمہاری ساری بازی کھیل گئے 
یاروں نے تو ورنہ چلی تھی کیسی کیسی چال کہو 

ٹھیس لگی ہے کیسی دل پر ہم سے کھنچے سے رہتے ہو 
آخر پیارے آیا کیسے اس شیشے میں بال کہو 

سیدؔ جی کیا بیتی تم پر کھوئے کھوئے رہتے ہو 
کچھ تو دل کی بات بتاؤ کچھ اپنے احوال کہو

سید شکیل دسنوی



سدرشن فاکر

یوم وفات 19 فروری 2008

اہل الفت کے حوالوں پہ ہنسی آتی ہے 
لیلیٰ مجنوں کی مثالوں پہ ہنسی آتی ہے 

جب بھی تکمیل محبت کا خیال آتا ہے 
مجھ کو اپنے ہی خیالوں پہ ہنسی آتی ہے 

لوگ اپنے لئے اوروں میں وفا ڈھونڈتے ہیں 
ان وفا ڈھونڈنے والوں پہ ہنسی آتی ہے 

دیکھنے والو تبسم کو کرم مت سمجھو 
انہیں تو دیکھنے والوں پہ ہنسی آتی ہے 

چاندنی رات محبت میں حسیں تھی فاکرؔ 
اب تو بیمار اجالوں پہ ہنسی آتی ہے

سدرشن فاکر


 

غلام محمد بختیار قیسی

یوم وفات 18 فروری 2023
اناللہ واناالیہ راجعون 
 شہر ناگپور کے بزرگ شاعر حضرت غلام محمد بختیار قیسی

آج اس دارفانی سے کوچ کر گئے

نور محمد جالب

یوم وفات 18 فروری 2023

ہر ایک سے نباہ کا اقرار کم کرو
کچی سڑک پہ نکلے ہو رفتار کم کرو

مانا کہ تشنہ لب کوئی تم سا نہیں مگر
دریا سے اپنی پیاس کا اظہار کم کرو

کانوں میں پھر اذان کی آواز آئے گی
کمرے کی گونجتی ہوئی جھنکار کم کرو

ہے زندگی کا لطف نشیب و فراز میں
بہتر ہے اپنا راستہ ہموار کم کرو

جالب تمہیں بھی تنکا سمجھ لیں نہ یہ کہیں
ان سر پھری ہواؤں سے تکرار کم کرو

نور محمد جالب


 

رجب چوہدری

یوم پیدائش 18 فروری 

مکان دل کا سجانے کی اب ضرورت ہے
کسی کو اس میں بسانے کی اب ضرورت ہے

بھڑک اٹھیں گے مری راکھ سے کئی شعلے 
ذرا سی آگ دکھانے کی اب ضرورت ہے

نئی صدی ہے بدل دو پرانی رسموں کو
نیا سماج زمانے کی اب ضرورت ہے

کچھ اتنا دور نہیں ہے پہنچ سے سورج بھی
بس ایک جست لگانے کی اب ضرورت ہے

دئیے کا تیل بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا
نئے چراغ جلانے کی اب ضرورت ہے

تھکے تھکے سے بہت لگ رہے ہیں منزل پر
مسافروں کو ٹھکانے کی اب ضرورت ہے

رجب چوہدری 



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...