Urdu Deccan

Wednesday, March 1, 2023

ضیاء الحق قاسمی

یوم پیدائش 25 فروری 1935

دل کے زخموں پہ وہ مرہم جو لگانا چاہے 
واجبات اپنے پرانے وہ چکانا چاہے 

میری آنکھوں کی سمندر میں اترنے والا 
ایسا لگتا ہے مجھے اور رلانا چاہے 

دل کے آنگن کی کڑی دھوپ میں اک دوشیزہ 
مرمریں بھیگا ہوا جسم سکھانا چاہے 

سیکڑوں لوگ تھے موجود سر ساحل شوق 
پھر بھی وہ شوخ مرے ساتھ نہانا چاہے 

آج تک اس نے نبھایا نہیں وعدہ اپنا 
وہ تو ہر طور مرے دل کو ستانا چاہے 

میں نے سلجھائے ہیں اس شوخ کے گیسو اکثر 
اب اسی جال میں مجھ کو وہ پھنسانا چاہے 

میں تو سمجھا تھا فقط ذہن کی تخلیق ہے وہ 
وہ تو سچ مچ ہی مرے دل میں سمانا چاہے 

اس نے پھیلائی ہے خود اپنی علالت کی خبر 
وہ ضیاؔ مجھ کو بہانے سے بلانا چاہے

ضیاء الحق قاسمی


 

سرور جاوید

یوم پیدائش 25 فروری 1947

یہی دنیا ہے کھو جائے گا تو بھی
اسی جنگل کا ہو جائے گا تو بھی

مجھے معلوم کب تک طشت دل میں
زیاں کی فصل بو جائے گا تو بھی

مسافت عمر بھر کی ایک شب میں
دم فرقت ہے سو جائے گا تو بھی

تری آنکھیں ستارے بانٹی ہیں
مرا دامن بھگو جائے گا تو بھی 

سرور جاوید



Tuesday, February 28, 2023

تلک راج پارس

یوم پیدائش 24 فروری 1952

جبریل ملے آپؐ سے سرکار حرا میں 
اقرا پڑھے تھے سیدِ ابرار حرا میں 

کی حمد خدا آ پ نے سرکار ! حرا میں
آ تے تھے یہاں سید ابرار حرا میں 

 پندرہ سو برس بیت گئے آپؐ کو آقا 
 خوشبو ہے مگر آپؐ کی سرکار حرا میں 

سینے کو کیا چاک فرشتے نے یہاں پر 
ضو بار ہوا آپؐ کا کردار حرا میں 

جو ان کےہیں قدموں کے نشاں کرتے ہیں باتیں 
رہتے ہیں سدا احمدِ مختار حرا میں 

محسوس ہوئی مجھ کو ترے لمس کی خوشبو
جب میں بھی گیا سید ابرار حرا میں

پارس ہو کبھی لطف وکرم چشمِ عنایت   
میں نعت لکھوں سید ابرار حرا میں 

تلک راج پارس


 

باسط اوجینی

یوم پیدائش 24 فروری 1919

روداد غم کی جب سے شہرت سی ہو گئی ہے 
رنگینئ جہاں سے وحشت سی ہو گئی ہے 

تیور بتا رہے ہیں انداز بے رخی کے 
ان کو جفا سے شاید رغبت سی ہو گئی ہے 

ناحق اٹھا رہے ہو طوفاں تجلیوں کے 
ذوق نظر کو میرے غفلت سی ہو گئی ہے 

محسوس کر رہا ہوں تار نفس میں تیزی 
کچھ اضطراب غم میں شدت سی ہو گئی ہے 

مطلب نہیں کرم سے بے مہریوں کا غم کیا 
صبر و رضا سے اب تو الفت سی ہو گئی ہے 

تاروں کی انجمن میں محو خیال ہو کر 
راتوں کو جاگنے کی عادت سی ہو گئی ہے 

دل بجھ چکا ہے باسطؔ باقی نہیں تمنا 
اب زندگی سے مجھ کو نفرت سی ہو گئی ہے

باسط اوجینی


 

مصدق اعظم

یوم پیدائش 22 فروری 1978

صبح کا منظر ہے لیکن گل کوئی تازہ نہیں 
روئے گلشن پر کہیں بھی اوس کا غازہ نہیں 

ٹوٹ کر ہم چاہنے والوں سے جب بچھڑیں گے آپ 
ہم ہی ہم بکھریں گے لیکن مثل شیرازہ نہیں
 
غار والوں کی طرح نکلا ہے وہ کمرے سے آج 
اس کو اس دنیا کی تبدیلی کا اندازہ نہیں 

کچھ نہ کچھ کہتے تو رہتے ہیں یہاں ہم لوگ جی 
پھر بھی اس شہر بتاں میں کئی وازہ نہیں 

اس عمارت کے مقدر کی لکیروں میں کہیں 
کھڑکیاں تو ہیں مگر مصداقؔ دروازہ نہیں

مصدق اعظم



ساگر چاپدنوی

یوم پیدائش 22 فروری 1935

لب ہنستے ہیں ، دل روتا ہے
ساتھی ایسا بھی ہوتاہے

ساگر چاپدنوی


 

درد فیض خان

یوم پیدائش 22 فروری 

جل کے جب دل لگی راکھ ہو جاتی ہے 
عاشقوں کی خوشی راکھ ہو جاتی ہے

ہجر کے شعر جس پر میں لکھ دیتا ہوں
میری وہ ڈائری راکھ ہو جاتی ہے

پتھروں کے مکانات جلتے نہیں 
ہاں مگر جھوپڑی راکھ ہو جاتی ہے 

عشق میں درد ہے درد میں ہے مزہ 
بے مزہ زندگی راکھ ہو جاتی ہے
 
کوئی بھی چیز ٹکتی نہیں اُس کے پاس
ہر پرانی نئی راکھ ہو جاتی

جس میں اک دوسرے پر بھروسہ نہ ہو
ایسی ہر دوستی راکھ ہو جاتی ہے

چار دن جیب میں گر نہ پیسے رہیں
عشق کیا عاشقی راکھ ہو جاتی ہے

گل سے بلبل اگر بات کرنے لگے 
دیکھ کر ہر کلی راکھ ہو جاتی ہے 

اب تو جگنو بھی دعویٰ یہ کرنے لگے
ہم سے بھی تیرگی راکھ ہو جاتی ہے

صرف سگریٹ سے دل ہی جلتے نہیں
ان لبوں کی نمی راکھ ہو جاتی ہے 

جس میں مل کے بھی دو لوگ ملتے نہیں
ایسی وابستگی راکھ ہو جاتی ہے

اک سہیلی کو اس کی اگر پھول دوں 
دیکھ کر دوسری راکھ ہو جاتی ہے 

شعريت جس میں آتی نہیں ہے نظر 
فیض وہ شاعری راکھ ہو جاتی ہے

درد فیض خان


 

لطیف شاھد

یوم پیدائش 21 فروری 1950

قلیل ہوتی ہے ہر ایک شئے مزید کے بعد 
مہینہ خالی کا ہوتا ہے ،ماہ عید کے بعد 

اک آرزو ہوئی پوری کہ دوسری جاگی 
نگاہ شوق بھڑکتی ہے اور دید کے بعد 

ہرایک بستی میں ہے سینکڑوں کا نام حسین 
یزید نام نہ رکھا گیا یزید کے بعد 

خدا ہی جانے یہ ہے مصلحت کہ مجبوری 
ہم آئے یاد انھیں مدت مدید کے بعد 

صبا کے پیچھے ہی گلشن سے بوئے گل بھی گئی 
قرار مل نہ سکا پیر کو مرید کے بعد 

ہلال عید تو پیغام شادمانی ہے 
ہماری عید تو ہوگی تمہاری دید کے بعد 

 لطیف شاھد



بہار کوٹی

یوم وفات 21 فروری 1971

کروٹیں لے رہے ہیں ذرّوں میں 
جانے کتنے جہانِ نامعلوم 

بہار کوٹی



آیوش چراغ

یوم پیدائش 21 فروری 1991

تصور پیار کا جو ہے پرانا کرنے والا ہوں 
میں اپنی آپ بیتی کو فسانہ کرنے والا ہوں 

جہاں پہ صرف وہ تھی اور میں تھا اور خوشبو تھی 
اسی جھرمٹ کو اپنا آشیانہ کرنے والا ہوں 

جسے میں چاہتا ہوں وہ کہیں کی شاہزادی ہے 
سو اس کے واسطے خود کو شہانہ کرنے والا ہوں 

اداسی دیکھ آئی ہے مکاں شہر محبت میں 
جہاں میں شام کو جا کر بیانہ کرنے والا ہوں 

مجھے معلوم ہے وہ کیا شکایت کرنے والی ہے 
اسے معلوم ہے میں کیا بہانہ کرنے والا ہوں 

تری آنکھوں تری زلفوں ترے ہونٹھوں سے وابستہ 
کئی ارمان ہیں جن کو سیانا کرنے والا ہوں 

اسے جو عقل مندی کی بڑی باتیں بتاتے ہیں 
انہیں لوگوں کو اب اپنا دوانہ کرنے والا ہوں 

آیوش چراغ


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...