Urdu Deccan

Wednesday, April 5, 2023

مطرب بلیاوی

یوم پیدائش 12 مارچ 1929

بڑی لطیف کشش تھی حسیں پناہ میں تھا 
کھلی جو آنکھ تو میں اپنی خواب گاہ میں تھا 

حدیث عہد مسرت مری نگاہ میں تھی 
کہ ایک پیکر رعنا دل تباہ میں تھا 

تلا ہوا تھا کبھی جان لینے دینے پر 
عجیب رنگ وفا اس کے انتباہ میں تھا 

مری حیات ہی قاتل سہی مگر مطربؔ 
بڑے سکون سے میں اپنی قتل گاہ میں تھا

مطرب بلیاوی


 

ہستی مل ہستی

یوم پیدائش 11 مارچ 1947

پیار کا پہلا خط لکھنے میں وقت تو لگتا ہے 
نئے پرندوں کو اڑنے میں وقت تو لگتا ہے 

جسم کی بات نہیں تھی ان کے دل تک جانا تھا 
لمبی دوری طے کرنے میں وقت تو لگتا ہے 

گانٹھ اگر لگ جائے تو پھر رشتے ہوں یا ڈوری 
لاکھ کریں کوشش کھلنے میں وقت تو لگتا ہے 

ہم نے علاج زخم دل تو ڈھونڈ لیا لیکن 
گہرے زخموں کو بھرنے میں وقت تو لگتا ہے

ہستی مل ہستی



نفیس الحسینی نفیس

یوم پیدائش 11 مارچ 1933

جس تصوف میں خود نمائی ہے
وہ عبادت نہیں خدائی ہے

وہ سزاوارِ پارسائی ہے
جس کی فطرت میں بے ریائی ہے

کچھ جو میری سمجھ میں آتی ہے
زندگی موت کی دہائی ہے

قید ہستی سے جو رہائی ہے
خیر مقدم کو مرگ آئی ہے

روزِ اوّل سے جانتا ہوں اُنھیں
ان سے دیر ینہ آشنائی ہے

اللہ اللہ ، خالق و مخلوق
صفر سے نسبتِ اکائی ہے

ہمیں تیرا نشاں ملے نہ ملے
آرزوئے شکستہ پائی ہے

سدرۃ المنتہی سے بھی گزرے (صلی اللہ علیہ وسلم)
اللہ اللہ کیا رسائی ہے

غم وہ تحریر ہے محبت کی
خونِ دل جس کی روشنائی ہے

ہائے اس بے نیاز کی دُنیا
جس میں نمرود کی خدائی ہے

تنگ اسلاف ہوں ، معاذ اللہ
توبہ توبہ یہ بے وفائی ہے

جو برائی ہے میری اپنی ہے
اُن کا صدقہ ہے جو بھلائی ہے

دل کے ساغر سے پی رہا ہوں نفیس
 وہ جو پثرب سے کھنچ آئی ہے

نفیس الحسینی نفیس



احمد کمال پروازی

یوم پیدائش 11 مارچ 1944

تجھ سے بچھڑوں تو تری ذات کا حصہ ہو جاؤں
جس سے مرتا ہوں اسی زہر سے اچھا ہو جاؤں

تم مرے ساتھ ہو یہ سچ تو نہیں ہے لیکن
میں اگر جھوٹ نہ بولوں تو اکیلا ہو جاؤں

میں تری قید کو تسلیم تو کرتا ہوں مگر
یہ مرے بس میں نہیں ہے کہ پرندہ ہو جاؤں

آدمی بن کے بھٹکنے میں مزا آتا ہے
میں نے سوچا ہی نہیں تھا کہ فرشتہ ہو جاؤں

وہ تو اندر کی اداسی نے بچایا ورنہ
ان کی مرضی تو یہی تھی کہ شگفتہ ہو جاؤں

احمد کمال پروازی


 

اوج یقوبی

یوم پیدائش 10 مارچ 1913

حادثے ہم سے گلے مِل کے پشیماں ہونگے
ہم بہ ہر دَور حریفِ غمِ دوراں ہونگے

رُخ ہواؤں کا بدلتا تھا کبھی جن کے لئے
کیا خبر تھی وہ سفینے تہِ طوفاں ہونگے 

تپنے دے اور ذرا آتشِ غم میں دل کو
جتنے جوہر ہیں بیک وقت نُمایاں ہونگے

ساری دُنیا تو نہ کھائے گی تبسم کا فریب
کچھ تو انداز شناسِ غمِ پنہاں ہونگے

 غم مرتب ہو تو سنجیدگی آجاتی ہے
 ورنہ دنیا میں کئی چاک گریباں ہونگے
 
ضبط فطرت کے تقاضوں سے نہ جیتے گا کبھی
دل جو تڑپے گا تو آنسو سرِ مژگاں ہونگے

آپ زُلفوں کو سنواریں کہ پریشان رکھیں
ہونے والے تو بہر حال پریشاں ہونگے 

ہم تو خیر اہلِ وفا ٹھیرے ہمارا کیا ہے
آپ کو مشقِ جفا کم ہے، پشیماں ہونگے

درد جب دیتا ہے سانسوں کو بھی آہوں کا خراج
اوج انفاس وھَاں شعلہ بَداماں ہونگے

اوج یقوبی


 

رضوان رضی

یوم پیدائش 09 مارچ 1997

کوئی خوشی سے تو ہر گز جدا نہیں ہوتا
بچھڑنے والے میں تجھ سے خفا نہیں ہوتا

پرندے اپنا ٹھکانہ بدلتے رہتے ہیں
چمن میں ایک سا موسم سدا نہیں ہوتا

ہم اپنی طرز سے ہی زندگی گزارتے ہیں
ہمارے ہاتھوں پہ کچھ بھی لکھا نہیں ہوتا

ہوائیں توڑ تو دیتی ہیں بے دلی سے مگر
شجر سے ٹوٹ کے پتا ہوا نہیں ہوتا 

فقیہہ شہر تو مسجد بنا کے نازاں ہے
مگر وہ لوگ کہ جن کا خدا نہیں ہوتا

رضوان رضی


 

نصرت ظہیر

یوم پیدائش 09 مارچ 1951

کچھ خبر نہیں نصرت لوگ کیسے جیتے ہیں
موت کے بگولوں میں زندگی کے صحرا میں

نصرت ظہیر


 

قمر جلال آبادی

یوم پیدائش 09 مارچ 1917

کر لوں گا جمع دولت و زر، اُس کے بعد کیا
لے لوُں گا شاندار سا گھر ، اُس کے بعد کیا

مے کی طلب جو ہوگی تو بن جاؤں گا میں رند
کرلوں گا میکدوں کا سفر، اس کے بعد کیا

ہوگا جو شوق حسن سے راز و نیاز کا
کرلوں گا گیسوؤں میں سحر، اُس کے بعد کیا

شعر و سخن کی خوب سجاؤں گا محفلیں
دنیا میں ہوگا نام مگر، اُس کے بعد کیا

موج آۓ گی تو سارے جہاں کی کروں گا سیر
واپس وہی پرانا نگر، اُس کے بعد کیا

اک روز موت زیست کا در کھٹکھٹاۓ گی
بجھ جائے گا چراغِ قمر، اُس کے بعد کیا

اٹی تھی خاک خاک سے مل جائے گی وہیں
پھر اس کے بعد کس کو خبر، اُس کے بعد کیا

قمر جلال آبادی



قطب کامران

یوم پیدائش 08 مارچ 1966

رات خوابوں میں برستے رہے پتھر کتنے
پر بنے شیش محل ذہن کے اندر کتنے

میں اترتا گیا الفاط کی گہرائی میں
مجھ کو ملتے رہے افکار کے جوہر کتنے

شب کی آنکھوں میں رہی نیند کی مستی پھر بھی
اشک کی سیل بہا لے گئی دفتر کتنے

کامراںؔ موسمِ تنہائی بھی کیا موسم تھا
برف باری تھی اور آنکھوں میں تھے منظر کتنے

قطب کامران


 

شیخ علیم اسرار

نظم :- عورت ترے مقامِ تقدس کو ہے سلام

رب کی نوازشات میں پہلی ہے تو عطا 
نازک سا آبگینہ تو الفت کی انتہا 

تیری ہی گود بچے کی پہلی ہے درس گاہ 
ایثار تیرا وصف ہے بے لوث تیری چاہ 
کتنے ہی زاویوں کو بدلتی ہے اک نگاہ 
مشکل میں زندگی کی منّور کرے تو راہ

نظمِ جہاں میں ضبط کی تنویر بے بہا
احساس منفرد تری تمثیل ہے جدا

مہکے ترےوجود سے ہرایک انجمن 
تو آبرو سراپا ہے تو رونقِ چمن 
سب سے جدا ہے تیری اداؤں کا بانکپن 
تو ہم سفر کہ جس کا وفادار ہے چلن

توہےحیا کا رنگ سلاست کا آئینہ
مشکل سمجھنا تیراہے آسان فلسفہ

تو کائنات کا ہے مجسم حسین رنگ
آواز تیری جیسے کہ بجتا ہے جل ترنگ
تو کارزارِ عشق کی ہے جاوداں امنگ
امکان میں سدا رہی تیرے سبب سے جنگ

دنیا میں تو ہے عزم کی تصویر ماورا
خوبی سے تو نبھاتی ہے ہررشتہ باخدا

توہمنوا رفیق ہے تو مہربان غمگسار
عظمت نشان جیسے مچلتاہے آبشار
جھونکا ہواکا مست ہےتو موسمِ بہار 
انسانیت کے روپ کا دم سے ترے نکھار

تو خلق بے نیاز تو معصوم سی دعا
خوددار خود نما کہ ہے تو محورِ انا 

ضامن ہے تو نجات کی ممتا کا آسماں 
تو پیکرِ خلوص محبت کی کہکشاں
دریا کی موج تو ہے توکشتی کا بادباں 
مہر و وفا کی لاج ہے تو ضبط کا مکاں

اسرار دلنشین کہ دلبر ہے دلربا 
تو بحر بے کراں ہے ظرافت سے آشنا
عورت ترے مقامِ تقدس کو ہے سلام

شیخ علیم اسرار



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...