Urdu Deccan

Friday, April 7, 2023

محمد حنیف رامے

یوم پیدائش 15 مارچ 1930

گونگی التجا (نظم)
رب العزت 
وہ زمین جسے تو نے بنی آدم کے لیے جنت بنایا تھا 
اور امن کے گہوارے کا نام دیا تھا 
جہاں ہماری آزمائش کے لیے شجر ممنوعہ کے ساتھ ساتھ 
ہماری ربوبیت کے لیے تو نے شجر حیات بھی اگایا تھا 
ہماری وہ زمین پانی ہوا اور خشکی کی مخلوق کا مشترکہ گھر تھی 
اس پیاری زمین پر آباد ساری مخلوق ایک دوسرے سے راضی تھی 
اور جس کی ساری مخلوق کو باہم راضی دیکھ کر تو بھی ہم سے راضی تھا 
اے رب العزت ہم نے وہ زمین اپنے ہاتھوں برباد کر کے رکھ دی ہے 
ہمارا تجھ پر کوئی حق نہیں کہ ضد کریں 
لیکن تو نے توبہ کا دروازہ تو کھلا رکھا ہے 
بے شک توبہ کی ابتدا اعتراف سے ہوتی ہے 
مگر اس کی انتہا ہمیشہ دعا سے ہوتی آئی ہے 
میرے پاس دعا کے لائق الفاظ نہیں ہیں 
لیکن تیرے پاس میری گونگی التجا سننے کے لیے بہت اچھے کان ہیں 
حسن سماعت تجھ پر ختم ہے 
اس لیے کہ تو ازل سے مضطروں کی سنتا اور مردہ زمینوں کو زندہ کرتا آیا ہے 
سن اے سمیع سن 
ایک مرتبہ پھر اس زمین پر امن امید اور مسرت کے پھریرے لہرا دے 
ایک مرتبہ پھر اس کے بیٹے بیٹیوں کا ہاتھ پکڑ 
انہیں ادھورے پن سے نجات دے دے 
پورا کر دے انہیں 
وہ ہوس اور بے صبری کی کھولتی دلدل میں 
بد صورت مینڈکوں کی طرح اوندھے منہ پڑے ہیں 
انہیں پورے قد سے کھڑا کر دے 
ان کی عظمت آدم لوٹا دے 
انہیں ایک دوسرے پر اعتماد کرنا سکھا دے 
توفیق دے انہیں کہ تیری عطا کردہ قوت تخلیق سے 
زمین کو حسن اور معنی سے مالا مال کر دیں 
احترام ڈال دے ان کے دل و دماغ میں اس زمین کے لیے 
اپنی اس ماں کے لیے 
اس کی ساری مخلوق کے لیے 
نسل عقیدے جنس اور ثقافت کا فرق ان کی وحدت میں نئے رنگ بھرے 
وہ پورے کرۂ ارض پر پھیلے ہوں لیکن ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر 
وہ پورے کرۂ ارض کو ایک ایسے دسترخواں کی شکل دے دیں 
جس پر زمین کا سارا رزق زمین کی ساری مخلوق کے لیے عام ہو 
چھ عرب انسان ہی نہیں زمین کی ساری مخلوق سیراب و شاد کام ہو 
اے رب العزت 
تو نے اس زمین کی صورت میں جو جنت ہمیں دی تھی 
ہم نے اسے اپنے لیے جہنم بنا لیا ہے 
یہ جہنم صرف نفاق اور نفرت ہی نہیں خوف سے بھی لبریز ہے 
ایک دوسرے سے خوف اپنے آپ سے خوف 
اور خوف تو محبت کی نفی ہوتا ہے 
اور ساری محبتوں کی ابتدا اور انتہا 
ہمیں ایک مرتبہ پھر محبت سے سرشار کر دے 
کہ محبت کے بغیر ہمیں نہ تو سچا امن نصیب ہوگا اور نہ سچی زندگی 
ہم محبت سے محروم رہے تو خواہ تو زمین کو سو مرتبہ بھی جنت بنا دے 
ہم ہزار مرتبہ اسے جہنم بنا کے رکھ دیں گے 
ہم نے نفرت نفاق اور خوف کو آزما کر دیکھ لیا ہے 
اے رب العزت 
ہمارے وجود محبت کے لیے اس طرح ترس رہے ہیں 
جیسے پیاسی زمین بارش کے لیے ترستی ہے 
ہمیں محبت نصیب کر دے 

محمد حنیف رامے



رفیق احمد نقش

یوم پیدائش 15 مارچ 1959

ہر سانس ہے کراہ مگر تم کو اس سے کیا
ہو زندگی تباہ مگر تم کو اس سے کیا 

تم ہو سہیلیوں میں مگن اور میرا حال
تنہائی بے پناہ مگر تم کو اس سے کیا

تم تو ہر ایک بات پہ دل کھول کر ہنسو
بھرتا ہے کوئی آہ مگر تم کو اس سے کیا

منزل ملی نہ ساتھ تمہارا ہوا نصیب 
کھوئی ہے میں نے راہ مگر تم کو اس سے کیا

سیلاب میں سروں کی فصیلیں بھی بہہ گئیں 
بے جرم بے گناہ مگر تم کو اس سے کیا

اب زندگی کی مانگتے ہیں بھیک در بہ در 
شاہانِ کج کلاہ مگر تم کو اس سے کیا

رفیق احمد نقش



عبد الرحیم راقم

یوم پیدائش 14 مارچ 1912

آج سہارے چھوٹ گئے ہیں
بن کے مقدر پھوٹ گئے ہیں

عشق میں ان کے جانے کتنے
پیار بھرے دل ٹوٹ گئے ہیں

تاروں بھری راتوں میں اکثر
رنگیں سپنے ٹوٹ گئے ہیں

اب بھی بھروساکس پہ کروں جب
پیار کے رشتے ٹوٹ گئے ہیں

ہم بھی راقمؔ ہجر میں ان کے
چھاتی اپنی کوٹ گئے ہیں

عبد الرحیم راقم


 

عفاف روحی

یوم پیدائش 14 مارچ

اُداسی غزل گنگنانے لگی ہے
مجھے حال میرا بتانے لگی ہے

ہر اک لفظ میں گڑبڑاہٹ ہے اُتری
سکوں,وحشتِ دل مٹانے لگی ہے

جہاں میں کوئی بھی بُرا کب رہا ہے
انا میری جب سے ٹھکانے لگی ہے

دمِ آخری ہے،کہے جا رہی ہوں
مجھے زندگی اب گنوانے لگی ہے

خرد کا جنوں سے نہیں ہے تعلق
نگاہ ولی یہ بتانے لگی ہے

ملمّع بناوٹ کا وقتی سہی پر
دکان ریا جگمگانے لگی ہے

کُھلے زخم سی کر یہاں ایک لڑکی
لباس خودی کو بچانے لگی ہے

عفاف روحی

Wednesday, April 5, 2023

گوہر سیما

یوم پیدائش 14 مارچ 1968

چلو دنیا میں مہکائیں محبت 
بشر کو آؤ سکھلائیں محبت
 
کریں مسمار دیواریں انا کی 
زمیں پر مل کے پھیلائیں محبت 

ہوئی ہے گم کہیں یہ وحشتوں میں 
چلو اب ڈھونڈ کر لائیں محبت 

خزاں سی چھا گئی نفرت کی ہر سو 
چمن میں پھر سے بکھرائیں محبت 

بہت مشکل سفر ہے عشق یارو 
کہاں تک سب کو سمجھائیں محبت

گوہر سیما



واقف القادری نانپاروی

یوم پیدائش 13 مارچ 1917

تا حشر رہے دل کو یارب آزار مدینے والے کا
سنتے ہیں مسیحا ہوتا ہے بیمار مدینے والے کا

اے زائر طیبہ فکر ہے کیوں تم نے تو مدینہ دیکھا ہے
 پروانۂ جنت ہوتا ہے دیدار مدینے والے کا
 
خود فاقے کئے غیروں کو دیا اور پیٹ سے یتھر کو باندھا
اے صَلِّ علےٰ سبحان اللہ ایثار مدینے والے کا

کیا ذکر ترے میخانے کا کوثر کو بھی ٹھکرا دیتا ہے
ساقی ہے دو عالم سے برہم میخوار مدینے والے کا

بیواؤں یتیموں کا حامی ہر بے کس و مضطر کا والی
مخلوق پہ تھا اللہ و غنی یہ پیار مدینے والے کا

بیکار ہے یہ فرد عصیاں بے سود ہیں شعلے دوزخ کے
بخشش کیلئے بس کافی ہے اقرار مدینے والے کا

تا حشر ر ہے گی اے واقف گلہائے عقیدت کی خوشبو
شاداب رہے گا عالم میں گلزار مدینے والے کا

واقف القادری نانپاروی


 

تنویر دانش

یوم پیدائش 13 مارچ 1977

یہ جو دو گھونٹ کی اداسی ہے
تم نے بھی دیکھ لی اداسی ہے

میری تصویر الٹ کر دیکھو
دوسری سمت بھی اداسی ہے 

دیکھ تو نے بھی خوب دان کیا
مجھ کو درکار بھی اداسی ہے

رکھ دیا ہے چراغ سرحد پر
دیکھ اس پار بھی اداسی ہے

بات جوں چل رہی تھی دانش سے
اس نے کہنا تھا پی اداسی ہے

تنویر دانش


 

مظہر محی الدین

یوم وفات 12 مارچ 2021

غم حیات کہاں تک تجھے مناؤں میں
نشاط وکیف کے ساماں کہاں سے لاؤں میں

بس اک صدا کہ دلِ مضطرب سے اٹھتی ہے
نہ تم کو یاد رکھوں اب نہ بھول پاؤں میں

تمام عمر رفیقوں کے درمیاں گزری
کچھ ایسا ہو کہ کبھی خود سے مل بھی پاؤں میں

بہت اُٹھائے ترے ناز زندگی اب تو
متاع درد بتا اور کیا کماؤں میں

زمانہ اپنے فتور نظر پہ شاداں ہے
بس ایک فکر ہر اک پل ، اسے جگاؤں میں

مظہر محی الدین 



عبد الطیف عارف

یوم پیدائش 12 مارچ 1947

غم عیش کے پردے میں نہاں دیکھ رہا ہوں
محرومیِ قسمت کو جواں دیکھ رہا ہوں

شید دلِ مضطر میں کہیں آگ لگی ہے
نزدیک گریباں کے دھواں دیکھ رہا ہوں

ہوتا ہے جہاں ذکر غم و رنج و الم کا
اے قلبِ حزیں تجھ کو وہاں دیکھ رہا ہوں

بس یاد ہی تیری ہے شبِ غم کا سہارا
رہ رہ کے اسے راحتِ جاں دیکھ رہا ہوں

عارفؔ کے خیالاتِ مزیّن کی نزاکت
ہرشعر کے پردے میں نہاں دیکھ رہا ہوں 

عبد الطیف عارف



اکرم کُنجاہی

یوم پیدائش 12 مارچ

ہیں بد نما جو تھے کبھی شہکا ر یا رسولؐ
خود دیکھ لیں یہ زیست کے رخسار یا رسولؐ

ہیں شاخ شاخ سوختہ وہ نخل بد نصیب
شاداب تھے کبھی مرے اشجار یارسولؐ

اِس بار ہیں شکستہ مرے بال و پر حضورؐ
 اِس بار حادثے ہیں دل ا فگار یا رسولؐ

آشوب زندگی کا ہے اِس بار خو ف ناک 
اب ساتھ سر کے جائے گی دستار یا رسولؐ

سب کر ر ہے ہیں زند گی کو روز خار زار
یہ زندگی کے دکھ سبھی آزار یا رسولؐ

کچھ بھی نہیں ہے تاز گی اور کچھ نہیں مٹھاس
بھولے ہیں اپنے ذائقے اشجار یا رسولؐ

ہر سانس ناؤ کیجیے در پیش ہے سفر 
 دریا کی موج موج میں منجدھار یا رسول ؐ

کرتے ہیں ہم تلاش سکوں بھی کہاں کہاں 
  قرآن اور حدیث مدد گار یا رسولؐ

ہر گز نہ منکشف ہوئے وہ رازِ کائنات
جو آپؐ ہی پہ وا ہو ئے اسرار یارسولؐ

آقاؐ ہیں عاصیوں کے بس اک آپؐ چارہ گر
کس سے کریں گے عرض گنہگار یا رسولؐ

ہو جائے اِس سماج میں بھی زیست خوش نما
میرے کریں نصیب کو بیدار یا رسولؐ

اکرم کُنجاہی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...