Urdu Deccan

Friday, April 7, 2023

احکم غازی پوری

یوم پیدائش 19 مارچ 1964

پرے ہے عقل سے پروازِ آرزوئے قلم
حدِ کمال سے آگے ہے جستجوئے قلم

مرے خیال میں مضمون لے کے آتے ہیں
سروشِ علم سے ہوتی ہے گفتگوئے قلم

غذائے ذہن اگر ہے جہاں کی معلومات
دلوں کی پیاس بجھاتا ہے آب جوئے قلم

یہی دعا ہے کہ علم و ادب کے گلشن میں
گلوں کے خامہ سے اٹھے فضا میں بوئے قلم

ادب کی قدر سے جو نابلد ہیں کیا جانیں
کہ اہلِ علم ہی ہوتے ہیں روبروئے قلم

یہ علم ایک قلم کار کی عبادت ہے
نماز حرف ، سیاہی ہے گر وضوئے قلم

میں آج قوم کی تاریخ لکھنے بیٹھا ہوں
یہ امتحان ہے ، رہ جا اے آبروئے قلم

امیرِ شہر ہو احکم ادب کی دنیا کے
اٹھو کہ دستِ سخنور بڑھا ہے سوئے قلم

احکم غازی پوری


 

قیصر صدیقی

یوم پیدائش 19 مارچ 1937

من بھی شاعر کی طرح تن بھی غزل جیسا ہے 
یہ ترے روپ کا درپن بھی غزل جیسا ہے 

ریشمی چوڑیاں ایسی کہ غزل کے مصرعے 
یہ کھنکتا ہوا کنگن بھی غزل جیسا ہے 

ان لچکتی ہوئی زلفوں میں ہے گوکل کا سماں 
یہ مہکتا ہوا ساون بھی غزل جیسا ہے 

لوگ گیتوں کی طرح تو بھی رسیلی ہے مگر 
میری سجنی ترا ساجن بھی غزل جیسا ہے 

میرے جذبات کی شوخی بھی غزل جیسی ہے 
میرے احساس کا بچپن بھی غزل جیسا ہے 

دیکھ کر تجھ کو غزل کیسے نہ لکھے قیصرؔ 
تو غزل جیسی ہے یوون بھی غزل جیسا ہے 

قیصر صدیقی


 

نجمہ خان افکار

یوم پیدائش 18 مارچ 1986

اس حیا کو یوں بے حجاب نہ کر
اپنے چہرے کو بے نقاب نہ کر

نجمہ خان افکار


 

مختار مسافر

یوم پیدائش 18 مارچ 1948

گنوا دو نہ خود کو خوشی کے لیے
یہی موت ہے زندگی کے لیے

گزرتے چلو دشت و دریا سے تم
نہ دم لوکبھی دو گھڑی کے لیے

کوئی نقش ایسا بناتے چلو
جو سورج بنے آدمی کے لیے

بچو اے مسافر کہ اب آدمی
خطرناک ہے آدمی کے لیے

مختار مسافر



صلاح الدین تسکین

یوم پیدائش 18 مارچ 1956

تیری الفت کی قسم جو کہہ دیا سو کہہ دیا
ہاتھ میں لے کر قلم جو کہہ دیا سو کہہ دیا

حق بیانی کے لیے ڈرتا نہیں ہوں میں کبھی
ہاتھ میں لے کر قلم جو کہہ دیا سو کہہ دیا

میں نے رکھا ہے صداقت کو سدا پیشِ نظر
ہو بھی جائے سر قلم جو کہہ دیا سو کہہ دیا

کردیا اظہارِ حق تسکینؔ میں نے شعر میں
چاہے کھل جایے بھرم جو کہہ دیا سو کہہ دیا

صلاح الدین تسکین


اعجاز مانپوری

یوم پیدائش 18 مارچ 1963

جو سمندر ہمیں گھنگھور گھٹا دیتا ہے 
وہی قطروں کو بھی دریا سے ملا دیتا ہے 

جدت آموز زمانہ ہمیں کیا دیتا ہے 
راہ کی دھول سمجھتا ہے اڑا دیتا ہے 

مفلسی کتنی تڑپ اٹھتی ہے بیتابی سے 
آ کے سائل جو کبھی در پہ صدا دیتا ہے 

ضبط کا پیڑ گھنا دل میں لگائے رکھنا 
یہ گھنا پیڑ سدا ٹھنڈی ہوا دیتا ہے 

تہہ میں جاؤ گے تو موتی بھی ملیں گے تم کو 
بلبلہ سارے خزانے کا پتہ دیتا ہے 

چین سے رہتا ہے بنیاد کا پتھر اعجازؔ 
زلزلہ اونچی عمارت کو گرا دیتا ہے

اعجاز مانپوری


 

واقف آروی

یوم پیدائش 18 مارچ 1916

اچھی نہیں ہمیشہ حقیقت کی بات چیت
کرتے ہیں لوگ اس سے شرارت کی بات چیت

مومن ہلاک لذت افطار ہو گیا
لیکن زباں پہ اس کی ہے جنت کی بات چیت

وہ آئے جب تو بحث کا نقشہ بدل گیا
کل سے چھڑی ہوئی تھی حماقت کی بات چیت

ہر روزہ دار مفتی اسلام ہوگیا
ہر مسئلہ میں کرتا ہے جنت کی بات چیت

روزہ میں کھل کے ہوتی ہے دو مفتیوں میں جنگ
اور اس کے بعد صاف جہالت کی بات چیت

 کرتے ہیں ضبط غصہ کو دونوں بجبر وقہر
رہ جاتی ہے ادھوری شجاعت کی بات چیت

مغرب کے بعد چھڑتی ہے پھر ٹھنڈی ٹھنڈی جنگ
ہوتی ہے سرد سرد امامت کی بات چیت

ایسے بھی خال خال ہیں جن سے اگر ملو
کرتے ہیں کچھ شگفتہ طبیعت کی بات چیت

رکھتے ہیں وہ بلندئ گفتار فطرتاً
شکوے کا شائبہ نہ شکایت کی بات چیت

دشمن کے نام کو بھی وہ لیتے ہیں اس طرح
اڑ جاتی ہے ہوا میں عداوت کی بات چیت

اور ایسے روزہ دار بھی ملتے ہیں صبح وشام
ہوتی ہے جن کے انس میں وحشت کی بات چیت

ذکر عذاب قبر زباں پر ہے رات دن
ملتے ہی چھیڑتے ہیں قیامت کی بات چیت

واقف آروی


 

مجذوب چشتی

یوم پیدائش 16 مارچ 1938

غبارِ کرب سے چہرہ گلاب کون کرے
تلاش رات کے وقت آفتاب کون کرے

مجذوب چشتی


 

میر غلام علی نازکی

یوم پیدائش 16 مارچ 1910

ضبط فغاں نہیں ہے مرے دسترس کی بات
جی بھر کے رولوں یہ بھی نہیں میرے بس کی بات

آدم بوصف خاک نژادی ہے رو بہ عرش
ثابت ہوئی ہے آج یہ صدہا برس کی بات

سنتا ہے کون اہلِ نظر سے حدیث دل
اہل ہوس کو بھاتی ہے اہل ہوس کی بات

وہ انہماک تھا کہ میں کچھ بھی نہ سن سکا
صحن چمن کا حال نہ کنج قفس کی بات

دل نے کبھی خرد کی امامت نہ کی قبول
غنچے کو نا پسند ہوئی خار و خس کی بات

اس دور کا مذاق ہی بگڑا ہوا سا ہے
گویا کوئی دلیل ہے ہر بوالہوس کی بات

مایوسیوں میں تیر تبسّم تھا دلنواز
جیسے کسی طبیب مسیحا نفس کی بات

میر غلام علی نازکی


 

فرہاد احمد فگار

یوم پیدائش 16 مارچ 1982

دیکھ تو کیا کمال رکھتی ہیں 
تیری آنکھیں سوال رکھتی ہیں 

چلی آتی ہیں میری خلوت میں 
یادیں کتنا خیال رکھتی ہیں 

سامنے جس قدر بھی مشکل ہو 
سب دعائیں سنبھال رکھتی ہیں 

عشق میں ہیں صعوبتیں ایسی 
مجھ کو ہر پل نڈھال رکھتی ہیں 

شوخ چنچل ادائیں بھی تیری 
آپ اپنی مثال رکھتی ہیں 

تجھ سے یہ دوریاں فگارؔ اکثر 
میرا جینا محال رکھتی ہیں 

فرہاد احمد فگار


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...