Urdu Deccan

Tuesday, April 11, 2023

ریحانہ شبیر

یوم پیدائش 23 مارچ 1972
نظم اک جوگی
اک جوگی ڈھونڈ رہی ہوں میں
جو زہر نکالے سانپوں کا
ہر جانب پھن پھیلائے ہوئے
ہیں ڈھیروں کالے ناگ یہاں
کچھ ہوس زدہ، کچھ حرص زدہ
کچھ اس دھرتی کی مایا پہ
پھن کو پھیلائے بیٹھے ہیں
کچھ استحصال کے کنڈل میں
سب کو لپٹائے بیٹھے ہیں
کوئی ہمت والا جوگی ہو
نہ زر کا کوئی روگی ہو
اک جوگی ڈھونڈ رہی ہوں میں
جو زہر نکالے سانپوں کا
ہے لفظوں میں تاثیر بہت
اور لفظوں میں تریاق بھی ہے
ان لفظوں سے انساں بدلے
ان لفظوں سے قومیں بدلیں
یہ طاقت ور کو زیر کریں
اور بزدل کو بھی شیر کریں
الفاظ میں ایسی خوبی ہے
الفاظ میں ایسی طاقت ہے
اے میرے دیس کے سخن ورو!
اپنے الفاظ کی لاٹھی سے
کچلو سر کالے ناگوں کے
اور استحصال کی کنڈل کو
کھولو الفاظ کی قوت سے
مزدور کی ہمت بن جاؤ
مظلوم کی طاقت بن جاؤ
تم سب کے سب ہی جوگی ہو
اب بین بجاؤ لفظوں کی
اور زہر نکالو سانپوں کا

ریحانہ شبیر

 

غلام مرتضی راہی

یوم پیدائش 23 مارچ 1937

نایاب چیز کون سی بازار میں نہیں
لیکن میں ان کے چند خریدار میں نہیں

چھو کر بلندیوں کو پلٹنا ہے اب مجھے
کھانے کو میرے گھاس بھی کہسار میں نہیں

آتا تھا جس کو دیکھ کے تصویر کا خیال
اب تو وہ کیل بھی مری دیوار میں نہیں

عرفان و آگہی کی یہ ہم کس ہوا میں ہیں
جنبش تک اس کے پردۂ اسرار میں نہیں

اگلا سا مجھ میں شوق شہادت نہیں اگر
پہلی سی کاٹ بھی تری تلوار میں نہیں

غلام مرتضی راہی



ڈاکٹر مختار شممیم

یوم پیدائش 23 مارچ 1944

صبح رنگین و جواں شام سہانی مانگے 
دل بیتاب کہ تیری ہی کہانی مانگے 

کوئی دیکھے یہ مرا عالم‌ جولانی طبع 
جس طرح آب رواں آپ روانی مانگے 

خوگر عیش نہیں فطرت شوریدہ‌ سراں 
غم و اندوہ طلب سوز نہانی مانگے 

دشت غربت میں ان آنکھوں کی نمی یاد آئے 
تشنہ لب جیسے کوئی صحرا سے پانی مانگے 

شومیٔ زیست کہ یہ آج زلیخا کی طرح 
کاسۂ عمر میں لمحات جوانی مانگے 

اپنے خوابوں پہ ہے شرمندہ شب غم دیدہ 
صبح معصوم اسی شب کی کہانی مانگے 

غنچۂ شوق شمیمؔ آج کھلا ہے شاید 
دل وحشت زدہ خوننابہ نشانی مانگے

 ڈاکٹر مختار شممیم





فیاض حسین شاہ

یوم پیدائش 22 مارچ

ایسا نہیں کہ حیلے بہانے بناؤں گا
کشتی نہ بن سکی تو میں تنکے بناؤں گا

اک روز میں بناؤں گا دونوں جہاں میں ربط
اور موت کے علاوہ بھی رستے بناؤں گا

یہ دیکھ میرے ہاتھوں کی پامال انگلیاں
پردیس آ کے سوچا تھا پیسے بناؤں گا

اک تیری کائنات ہے اک میری کائنات
گر ہوسکا تو ان میں دریچے بناؤں گا

اک روز میں بناؤں گا کاغذ کی تتلیاں
اور سات آٹھ پھول بھی نیلے بناؤں گا

پہلے بناؤں گا کسی کاغذ پہ اپنی آنکھ
پھر اس میں تیرے خواب کے ریشے بناؤں گا

فیاض حسین شاہ


 

Saturday, April 8, 2023

آصفہ رومانی

یوم پیدائش 22 مارچ 1945

گھر کو کیسا بھی تم سجا رکھنا 
کہیں غم کا بھی داخلہ رکھنا 

گر کسی کو سمجھنا اپنا تم 
دھوکہ کھانے کا حوصلہ رکھنا 

اتنی قربت کسی سے مت رکھو 
کچھ ضروری ہے فاصلہ رکھنا 

ان کی ہر بات میٹھی ہوتی ہے 
جھوٹی باتوں کا مت گلہ رکھنا 

زندگی ایک بار ملتی ہے 
اس کو جینے کا حوصلہ رکھنا 

ناامیدی کو کفر کہتے ہیں 
رب سے امید آصفہؔ رکھنا 

آصفہ رومانی


 

نصرت عتیق

یوم پیدائش 22 مارچ 1975

یہ اور بات ہے کہ سہارا نہیں بنے 
لیکن کسی کی راہ کا کانٹا نہیں بنے 

یاروں کے ہم نے عیب چھپائے ہیں بارہا 
ان کو بچایا خود بھی تماشہ نہیں بنے 

دشوار راستوں کا انہیں تجربہ نہیں 
منزل جو لوگ بن گئے رستا نہیں بنے 

انسان ہی تو بن نہیں پائے جو اہم تھا 
ویسے تو لوگ بننے کو کیا کیا نہیں بنے 

تم سے بڑی امید لگا رکھی تھی مگر 
تم بھی تو میرے حق میں مسیحا نہیں بنے 

نصرتؔ وہ ہم سے اس لیے ناراض ہیں کہ ہم 
ان کی بلائی بھیڑ کا حصہ نہیں بنے 

نصرت عتیق


 

شمشاد شاد

یوم پیدائش 21 مارچ 1963

اللہ کرے درد ترا سب پہ عیاں ہو
اے دشمنِ جاں تیرے جگر کا بھی زیاں ہو

حاوی ترے اعصاب پہ ہو عشق کا آسیب
اطراف مرے ہونے کا تجھ کو بھی گماں ہو

کیا میں ہی ترے ہجر میں روتا رہوں پہیم
چشمہ تری آنکھوں سے بھی اشکوں کا رواں ہو

غافل نہ رہوں ظلم وستم سے کبھی تیرے
شعروں میں مرے تیری جفاؤں کا بیاں ہو

اک دوجے کے بن حال یہ ہو جائے ہمارا
جینا تو الگ بات ہے مرنا بھی گراں ہو

مرکوز مری آنکھ رہے چہرے پہ تیرے
تو ساتھ ہو جب روح نکلنے کا سماں ہو

ہیں شہرِ خموشاں میں بھی ہنگامے بہت شاد
لے چل مجھے اس جا کہ جہاں امن و اماں ہو

شمشاد شاد

 

 

مبارک علی انمول

یوم پیدائش 21 مارچ 1992

تجھ سے ملنا محال ہے پھر بھی
دل میں تیرا خیال ہے پھر بھی

ہم پہ آئے نہ کیوں زوال مگر
عشق تو لازوال ہے پھر بھی

جانتا ہوں کوئی جواب نہیں
ان لبوں پر سوال ہے پھر بھی

آنکھ روتی ہے خون کے آنسو
دل کے اندر ملال ہے پھر بھی

مبارک علی انمول


 

راجیش الفت

یوم پیدائش 21 مارچ 1961

کہہ دو دل میں جو بات باقی ہے 
یہ نہ سوچو کہ رات باقی ہے 

عشق کی بات ہے ابھی کر لو 
بھول جاؤ حیات باقی ہے 

ساری دنیا ہے پھر بھی تنہا ہوں 
اک تمہارا ہی ساتھ باقی ہے 

آج کہتے ہیں بس شراب شراب 
کل کہیں گے نجات باقی ہے 

پہلے لازم ہے جیتنا دل کا 
پھر کہاں کائنات باقی ہے

راجیش الفت


 

سعید الظفر صدیقی

یوم پیدائش 21 مارچ 1944

زیرِ زمیں کھلے کہ تہِ آسماں کھلے
میرےخداکہیں تومری داستاں کھلے

کھلتانہیں ہے بیٹھے بٹھائے کوئی یہاں
ہم نے زمین اوڑھ لی تب آسماں کھلے

مدت ہوئی ہے دونوں کوبچھڑےہوئےمگر
اب تک نہ ہم یہاں نہ وہ ابتک وہاں کھلے

وہ شہرِ دوستاں ہو کہ شہرِ ستم شعار
آوارگانِ عشق کسی پر کہاں کھلے

اب تک تو شہر مہر بلب ہے مرا سعید
شایدستم کچھ اوربڑھے تو زباں کھلے

سعید الظفر صدیقی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...