یوم پیدائش 15 اپریل 1975
نظم ایک روٹی سے
تمام زندگی کو سمجھا جا سکتا ہے،
گر وہ دو آدھ کر کے کھائی جائے،
تو سمجھیں کہ یہ کوئی بے اولاد جوڑا ہے،
یا نیا شادی شدہ جوڑا ہے،
جو ابھی اولاد کے لیے پرامید ہے،
گر وہ روٹی آدھی کھائی جائے،
اور آدھی رومال میں ڈھانپ کر رکھی جائے،
تو یوں سمجھیں کہ یہ کوئی مزدور کی بیوی ہے،
اور ابھی شام نہیں ہوئی!
ہاں گر اس روٹی کے چار ٹکڑے کیے گئے ہیں،
تو جان لیں کہ بہن بھائی، باپ ماں،
مل کر کھا رہے ہیں!
گر اسی روٹی کا ایک ٹکڑا بچ گیا ہے،
تو سمجھ لیں کہ وہ بوڑھا گداگر بیمار پڑا ہے
یا اس دنیا سے گزر گیا ہے!
گر پوری روٹی سوکھ گئی ہے،
تو ضرور کسی بیوہ عورت کا وہ کتا مر گیا ہے،
جو گندم کی روٹی کی اہمیت کو جانتا تھا۔
نوٹ: سندھی میں محاورہ ہے کے کتا کیا جانے گندم کی روٹی کی اہمیت کو۔
بھوک روٹی اٹھا کے بھاگی اور،
ایک بچے کا چور ہوجانا۔
ایک لڑکی کا منچ پر آنا،
اور تھیٹر کا شور ہوجانا۔
پرندے سے پوچھا گیا:
آسماں اور پنجرے کے بارے میں کیا ہے
تمہارا خیال؟
تو اس نے دیا یوں جواب:
کہ امبر ہے میرے لئے ایک پنجرہ وسیع
اور پنجرہ ہے میرے لئے اک ننھا آسماں۔
گیت ہوں گم شدہ جزیرے کا
بس سمندر ہی گنگنائے مجھے،
بے قراری ہوں اک بگولے کی
کوئی صحرا میں چھوڑ آئے مجھے،
موت کی سیڑھیاں اترتے ہی،
زندگی سے جھگڑنے جاتا ہوں۔
میں تو ماحول دوست ہوں پیارے،
آنسو پیتا نہیں بہاتا ہوں۔
ایک روٹی سے
تمام زندگی کو سمجھا جا سکتا ہے،
گر وہ دو آدھ کر کے کھائی جائے،
تو سمجھیں کہ یہ کوئی بے اولاد جوڑا ہے،
یا نیا شادی شدہ جوڑا ہے،
جو ابھی اولاد کے لیے پرامید ہے،
گر وہ روٹی آدھی کھائی جائے،
اور آدھی رومال میں ڈھانپ کر رکھی جائے،
تو یوں سمجھیں کہ یہ کوئی مزدور کی بیوی ہے،
اور ابھی شام نہیں ہوئی!
ہاں گر اس روٹی کے چار ٹکڑے کیے گئے ہیں،
تو جان لیں کہ بہن بھائی، باپ ماں،
مل کر کھا رہے ہیں!
گر اسی روٹی کا ایک ٹکڑا بچ گیا ہے،
تو سمجھ لیں کہ وہ بوڑھا گداگر بیمار پڑا ہے
یا اس دنیا سے گزر گیا ہے!
گر پوری روٹی سوکھ گئی ہے،
تو ضرور کسی بیوہ عورت کا وہ کتا مر گیا ہے،
جو گندم کی روٹی کی اہمیت کو جانتا تھا۔
نوٹ: سندھی میں محاورہ ہے کے کتا کیا جانے گندم کی روٹی کی اہمیت کو۔
بھوک روٹی اٹھا کے بھاگی اور،
ایک بچے کا چور ہوجانا۔
ایک لڑکی کا منچ پر آنا،
اور تھیٹر کا شور ہوجانا۔
پرندے سے پوچھا گیا:
آسماں اور پنجرے کے بارے میں کیا ہے
تمہارا خیال؟
تو اس نے دیا یوں جواب:
کہ امبر ہے میرے لئے ایک پنجرہ وسیع
اور پنجرہ ہے میرے لئے اک ننھا آسماں۔
گیت ہوں گم شدہ جزیرے کا
بس سمندر ہی گنگنائے مجھے،
بے قراری ہوں اک بگولے کی
کوئی صحرا میں چھوڑ آئے مجھے،
موت کی سیڑھیاں اترتے ہی،
زندگی سے جھگڑنے جاتا ہوں۔
میں تو ماحول دوست ہوں پیارے،
آنسو پیتا نہیں بہاتا ہوں۔