Urdu Deccan

Sunday, July 2, 2023

بختیار رضیا

یوم پیدائش 21 اپریل 1922

اتنا ہے زندگی کا تعلق خوشی کے ساتھ 
ایک اجنبی ہو جیسے کسی اجنبی کے ساتھ
 
سورج افق تک آتے ہی گہنا گیا یہاں 
کچھ تیرگی بھی بڑھتی رہی روشنی کے ساتھ 

حکام کا سلوک وہی ہے عوام سے 
ابن زیاد کا تھا جو ابن علی کے ساتھ 

اللہ رے تغافل چارہ گران وقت 
سنتے ہیں دل کی بات مگر بے دلی کے ساتھ
 
طبقوں میں رنگ و نسل کے الجھا کے رکھ دیا 
یہ ظلم آدمی نے کیا آدمی کے ساتھ

بختیار رضیا


 

بینا خان

یوم پیدائش 20 اپریل 

اس سے پہلے کہ وہ بکھر جائے
 اُس سے کہئے کہ اپنے گھر جائے
 
 روشنی کی طلب میں نکلی ہوں
  گھر اندھیرا نہ دل میں کر جائے
 
شہر ، جنگل منافقین کا ہے
 کیسے پھر آدمی کاڈر جائے؟
 
دفن ہونے تو دے محبت کو
اُس سے کہہ دو ذرا ٹھہر جائے

 اب نہ ہوگی منافقت ہم سے 
 دل ادھر جائے یا اُدھر جائے
 
 خوش گمانی میں اُس کو جینے دو
  "وہ نقاب اُٹھتے ہی نہ مر جائے"
  
بینا خان

مائل نہیں تھا محفلِ دلبر میں آگیا 
دل تیرے التفات کے چکّر میں آگیا

تیری طرح ہے غم تیرا آوارۂ مزاج
"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا"

اپنا بھی جادو چلتا تھا سارے جہان میں 
پھر یہ ہوا وہ سِحر کے پیکر میں آگیا

خودداری کا سوال تھا ؛سنتے کسی کی کیا
چپ چاپ اُنکی بزم سے میں گھر میں آگیا 

خاموشی چیختی ہے کہ تنہائیوں کا رنگ
دیوار پر ؛ دریچوں میں ؛ ہر در میں آگیا 

بینا نہیں ہے بوجھ اٹھانے کی اب سکت 
افسردگی کا رنگ مقدر میں آگیا

بینا خان



آلِ عمر

یوم پیدائش 20 اپریل 1995

ایک دفعہ وہ مجھے دل میں تو آنے دیتا 
میں اسے شام نہیں دیتا زمانے دیتا 

آپ کے غم پہ بہت کام کیا ہے میں نے 
اب میں روتا ہوں تو آنسو نہیں آنے دیتا 

وہ مجھے ایک سے پہلے نہیں سونے دیتی 
میں اسے خواب سے جلدی نہیں جانے دیتا 

رب کے آگے تو تر و تازہ گیا ہوتا میں 
وقت کچھ دیر مجھے ٹیک لگانے دیتا 

شعر کا رزق ان آنکھوں میں ہے لیکن مرے دوست 
دل مجھے ہونٹ سے اوپر نہیں جانے دیتا 

ہر حسیں لڑکی کو تسلیم کیا کرتا ہوں
کوئی مصرع نہیں میں گرنے گرانے دیتا 

آلِ عمر


 

اظہر بخش اظہر

یوم پیدائش 20 اپریل 1952

شکاری ہیں بڑے شاطر بہانہ لے کے چلتے ہیں 
وہ ترچھی نظروں میں سیدھا نشانہ لے کے چلتے ہیں 

ہماری میزبانی سے نہ گھبرایا کرو لوگو 
ہم اپنے ساتھ اپنا آب و دانہ لے کے چلتے ہیں 

ذرا پہچان کر بتلاؤ تو یہ کون ہیں کیا ہیں 
کہ بادل جن کے سر پر شامیانہ لے کے چلتے ہیں 

کہ ہم اہل ادب ہم کیا کریں گے ہمسری ان کی 
جو اپنے ساتھ سرکاری خزانہ لے کے چلتے ہیں 

سبھی کو علم ہے گو پھول ان کو کچھ نہیں کہتے 
یہ بھنورے ہیں مزاج عاشقانہ لے کے چلتے ہیں 

ٹھکانوں کی نہ سوچو آپ اظہرؔ گھر سے تو نکلو 
پرندے ساتھ میں کب آشیانہ لے کے چلتے ہیں

اظہر بخش اظہر


 

توقیر زیدی

یوم پیدائش 19 اپریل 1970

پیکر خاکی یہ مانا موت سے دو چار ہے 
زندگی تیرا مگر رستہ بہت دشوار ہے 

جو ہے مفلس وہ زمانے میں ذلیل و خوار ہے 
مال و زر ہو پاس جس کے صاحب کردار ہے
 
رس رہا ہے خوں بدن سے بھیگتا ہے پیرہن 
زخم ہے میرے جگر کا یا کہ لالہ زار ہے 

خون دل سے میں نے سینچا ہے تجھے اے زندگی 
میرے ہی دم سے تو یہ چہرا ترا گلزار ہے 

بھاپ بن کر اڑ گیا میری رگ جاں سے لہو 
بارشیں اب خون کی ہوں گی یہی آثار ہے 

جانے کس کی جستجو یہ کر رہے ہیں روز و شب 
چاند سورج کے لئے اک منزل دشوار ہے 

بک رہے ہیں دین و ایماں بک رہے ہیں جسم و جاں 
یہ جہان آرزو اک مصر کا بازار ہے 

آپ کے دل کا معمہ ذہن نے حل کر لیا 
آپ کے انکار ہی میں آپ کا اقرار ہے 

منفرد میری زباں ہے خوب تر میرا بیاں 
فکر کا توقیرؔ اک دریا پس دیوار ہے

توقیر زیدی


 

اعجاز جودھ پوری

یوم پیدائش 18 اپریل 1921

اس بڑے کارِ زمانہ سے نبٹنے کے لیے
لوگ لے لے کر حیاتِ مختصر آتے رہے

اعجاز جودھ پوری


 

شمسؔ ذبیحی بنارسی

یوم پیدائش 18 اپریل 1923

مومنوں آئی ہے قسمت سے مناجات کی رات
ہو مبارک ہے شبِ قدر عبادات کی رات

جس نے بخشی ہے سلام اور تحیات کی رات
بھیجو کثرت سے درود اس پہ ہے صلوۃ کی رات

دیکھو انوارِ الہی کی تجلی ہر سو
لائی ہے نور ہی نور اہلِ سماوات کی رات

لطف معراج کا لے لو بخدا سجدے میں
 کی ہے ﷲ نے مخصوص ملاقات کی رات

قدر والے ہی شبِ قدر کی کرتے ہیں قدر
سونے کا نام نہیں جاگتے ہیں رات کی رات

خوابِ غفلت میں گنواتی ہے دن اپنا اُمّت
آقاﷺ سوئے نہیں اُمّت کے لیے رات کی رات

اے مرے دوستو تم ذکرِ الٰہی کے سوا
اور باتیں نہ کرو آج نہیں بات کی رات

حتی الامکان دل و جان سے تم قدر کرو
قابلِ قدر ہے یہ تحفہ و سوغات کی رات

شمسؔ ہوتی ہے میسّر اسی خوش قسمت کو
جسکی تقدیر میں ہے فضل و کمالات کی رات

شمسؔ ذبیحی بنارسی



برق آشیانوی کلیم

یوم پیدائش 18 اپریل 1918

زیست کیا چیز ہے اور زیست کا غم کیا شے ہے 
تیرے بندوں کے لئے دیر و حرم کیا شے ہے 

تو نے اب تک جو کیا اس کو کرم ہی سمجھا 
ہم نے جانا ہی نہیں تیرا ستم کیا شے ہے 

جو گزرتا ہے وہ رکھ دیتا ہے اس جا پہ جبیں 
کیا بتاؤں کہ ترا نقش قدم کیا شے ہے 

ہم نے طے کر لی ہے تسلیم و رضا کی منزل 
ہم کو معلوم نہیں درد و الم کیا شے ہے 

رند تو رند ہیں ہو جاتے ہیں زاہد بھی اسیر 
مصحف رخ پہ سیہ زلف کا خم کیا شے ہے 

تیری آنکھوں میں دو عالم کی خبر پڑھتے ہیں 
ایسے رندوں کے لئے ساغر جم کیا شے ہے 

میں تو کمتر ہوں ہر اک ذرۂ خاکی سے کلیمؔ 
مجھ سے اس وسعت آفاق میں کم کیا شے ہے

برق آشیانوی کلیم


 

عبد اللہ کمال

یوم پیدائش 17 اپریل 1948

اپنی آنکھوں کو امیدوں سے سجائے رکھنا 
جلتی راتوں میں کوئی خواب بچائے رکھنا 

لوٹ کر آؤں گا پھر گاؤں تمہارے اک دن 
اپنے دروازے پہ اک دیپ جلائے رکھنا 

اجنبی جان کے پتھر نہ سواگت کو بڑھیں 
اپنی گلیوں کو مرا نام بتائے رکھنا 

سونے ساون میں ستائے گی بہت پروائی 
درد کو دل میں مگر اپنے دبائے رکھنا 

ہجر کی تیرہ شبی ٹھہری ہے تقدیر وصال 
میری یادوں کے ستاروں کو جگائے رکھنا 

خوش نقابی کا بھرم ٹوٹنے پائے نہ کمالؔ 
غم کو ہونٹوں کے تبسم میں چھپائے رکھنا

عبد اللہ کمال


 

جاوید جمیل

یوم پیدائش 17 اپریل 1958

کیا نگاہوں نے کوئی خواب سجایا نہ کبھی 
کیا کسی کو بھی قریب اپنے بلایا نہ کبھی 

آتے رہنے کے لئے شکریہ اے یاد کہ دوست 
میں ہی مجرم ہوں تری یاد میں آیا نہ کبھی 

اس کی البم میں تو تصویر مری ہے موجود 
اس نے تصویر کو سینے سے لگایا نہ کبھی 

میں تجھے کیسے بتا دیتا دل ناز کا حال 
حال دل میں نے تو خود کو بھی بتایا نہ کبھی 

دل چرا کر مرا کہتا ہے مجھے چور یہ اب 
خود ہی چوری ہوا اس نے تو چرایا نہ کبھی 

قہقہے اوروں کی خوشیوں میں رہے ہیں شامل 
میرے حالات نے خود مجھ کو ہنسایا نہ کبھی 

میں نے اوروں سے سنا ہے کہ نسیم آتی ہے 
کیوں مجھے وقت سحر اس نے جگایا نہ کبھی 

تیری جاویدؔ یہ عادت ہے خدا کو بھی پسند 
تو نے نظروں سے کسی کو بھی گرایا نہ کبھی

جاوید جمیل


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...