یوم پیدائش 20 اپریل
اس سے پہلے کہ وہ بکھر جائے
اُس سے کہئے کہ اپنے گھر جائے
روشنی کی طلب میں نکلی ہوں
گھر اندھیرا نہ دل میں کر جائے
شہر ، جنگل منافقین کا ہے
کیسے پھر آدمی کاڈر جائے؟
دفن ہونے تو دے محبت کو
اُس سے کہہ دو ذرا ٹھہر جائے
اب نہ ہوگی منافقت ہم سے
دل ادھر جائے یا اُدھر جائے
خوش گمانی میں اُس کو جینے دو
"وہ نقاب اُٹھتے ہی نہ مر جائے"
بینا خان
مائل نہیں تھا محفلِ دلبر میں آگیا
دل تیرے التفات کے چکّر میں آگیا
تیری طرح ہے غم تیرا آوارۂ مزاج
"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا"
اپنا بھی جادو چلتا تھا سارے جہان میں
پھر یہ ہوا وہ سِحر کے پیکر میں آگیا
خودداری کا سوال تھا ؛سنتے کسی کی کیا
چپ چاپ اُنکی بزم سے میں گھر میں آگیا
خاموشی چیختی ہے کہ تنہائیوں کا رنگ
دیوار پر ؛ دریچوں میں ؛ ہر در میں آگیا
بینا نہیں ہے بوجھ اٹھانے کی اب سکت
افسردگی کا رنگ مقدر میں آگیا