Urdu Deccan

Tuesday, July 4, 2023

فائق اعوان

یوم پیدائش 05 مئی 1999

پروردگار! تجھ سے ہے اتنی سی التجا
گزرے دنوں کی یاد نہ اب کے برس میں ہو

فائق اعوان
 

علیم اسرار

یوم پیدائش 05 مئی 1976

سمٹے ہوئے ہیں فہم و ادراک دائرے میں
یعنی ہیں قید سارے چالاک دائرے میں

ارمان و آرزو ہیں پرکار زندگی پر
شدت سے گھومتا ہے ہر چاک دائرے میں

تمثیل لگ رہی ہے یارو مگر یہ سچ ہے
خوشیاں ہیں آدمی کی نمناک دائرے میں 

تجدید ہو رہی ہے گردش کے واسطے سے 
رہتے نہیں ہمیشہ خاشاک دائرے میں 

مالک مکاں کے بدلے کچھ دائروں کو باندھے 
دنیا کی جستجو نے املاک دائرے میں 

باہر نکلنا اس کے ممکن نہیں ہے لیکن 
کھنچو گے کچھ لکیریں بیباک دائرے میں 

رفتار بے بسی کی اسباب کی مسافت 
یہ کھیل ہے پرانا سفاک دائرے میں 

راز حیات کا ہے یہ مختصر سا قصہ 
اسرار تیرتے ہیں تیراک دائرے میں 

علیم اسرار


 

جوہر امیٹھوی

یوم پیدائش 04 مئی 1947

کوئی گستاخی نہ ہو اے خواہش دل دیکھ کر
شکوۂ غم حق مگر آداب محفل دیکھ کر

گھٹ کے رہ جاتا ہے اظہار محبت کا خیال
حُسن کے شہروں میں بازار سلاسل دیکھ کر

رشتۂ الفت ابھی اچھی طرح ٹوٹا نہیں
دل دھڑکتا ہے ابھی اُنکو مقابل دیکھ کر

بل نہ پڑجائیں جبین شمع محفل پر کہیں
دیکھ پروانے ذرا آداب محفل دیکھ کر

انکی کشتی ہوگئی موجوں کی شوخی کا شکار
ہو گئے جو بے عمل آثارِ ساحل دیکھ کر

کل یہ ممکن ہے کہ آنسو بھی نہ جوھر ہاتھ آئیں
آج رو لینے دو دنیا کو مرادل دیکھ کر 

جوہر امیٹھوی




 

آفاق صدیق

یوم پیدائش 04 مئی 1928

کیا زمیں کیا آسماں کچھ بھی نہیں 
ہم نہ ہوں تو یہ جہاں کچھ بھی نہیں 

دیدہ و دل کی رفاقت کے بغیر
فصل گل ہو یا خزاں کچھ بھی نہیں 

پتھروں میں ہم بھی پتھر ہو گئے 
اب غم سود و زیاں کچھ بھی نہیں 

کیا قیامت ہے کہ اپنے دیس میں 
اعتبار جسم و جاں کچھ بھی نہیں 

کیسے کیسے سر کشیدہ لوگ تھے 
جن کا اب نام و نشاں کچھ بھی نہیں 

ایک احساس محبت کے سوا 
حاصل عمر رواں کچھ بھی نہیں 

کوئی موضوع سخن ہی جب نہ ہو 
صرف انداز بیاں کچھ بھی نہیں

آفاق صدیق




 

صغیر اشرف

یوم پیدائش 03 مئی 1949

خواہشوں کی داستاں لکھتے رہے
ہم زمیں کو آسما ں لکھتے رہے

خواب جو کل تک تھے آنکھوں میں نہاں
ان کو گھر انگنائیاں لکھتے رہے

ٹوٹ کر بچپن میں چاہا تھا جسے
اس کو ہم جانِ جہاں لکھتے رہے

عمر بھر سوچا کئے جس کے تئیں
آپ اس کو خانداں لکھتے رہے
                  
لکھنا تھا تاریخ پہ اشرف ہمیں
برگِ گل کو گلستاں لکھتے رہے

 صغیر اشرف



سیدہ تسلیم علی

یوم پیدائش 03 مئی 1980

مومن کو وسوسوں سے بچاتا وہی تو ہے
رستہ سبھی کو سیدھا دکھاتا وہی تو ہے

قبضہ میں کائنات کے سارے نظام ہیں
"سوکھی زمیں پہ سبزہ اگاتا وہی تو ہے"

ہے کار ساز وہ ہی اسی کے ہیں کھیل سب
 ارض و سما پہ جلوہ دکھاتا وہی تو ہے
 
 یکتا ہے اس کی ذات نہیں کوئی بھی شریک
سب دہر کا نظام چلاتا وہی تو ہے

قادر بھی ہے مرید بھی مدرک بھی ہے وہی
 لیل و نہار جلوے دکھاتا وہی تو ہے 

سامع ہے سرمدی ہے لطیف و خبیر بھی
بندوں کے سارے عیب چھپاتا وہی تو ہے

 قادر ہے دوجہان پہ تسلیم جس کی ذات
 یہ رات دن گھٹاتا بڑھاتا وہی تو ہے 
 
سیدہ تسلیم علی


 

عمران میر

یوم پیدائش 03 مئی 

 آگ پانی میں لگنے والی ہے
کشتیاں ساحلوں پہ لے آو

عمران میر


 

نجم ثاقب

یوم پیدائش 03 مئی 1985

ہر سَمت نِگاہوں کو دِکھائی دیئے جاتے
کانوں کو فقط آپ سُنائی دیئے جاتے

جانا کوئی اتنا بھی ضروری تو نہیں تھا
گر تھا بھی تو تھوڑی سی رَسائی دیئے جاتے

اے کاش کہ اس بار خطا ہوتی ہماری
اور آپ صفائی پہ صفائی دیئے جاتے

کافی ہے یہی ہم کو میسر ہے خداوند
دُشوار تھا کتنا جو خُدائی دیئے جاتے

ہم ایسے مِرے مولا سبھی زِیست کے قیدی 
بے جُرم مُقید ہیں رِہائی دیئے جاتے

اُلفت میں ہَوس جن کی ہے، منزل تو بہت دور 
رَستے بھی نہیں ان کو سُجھائی دیئے جاتے

حاصل ہے جنہیں ثروتِ دنیا پہ اِجارہ
قابل تھے اگرچہ کہ گدائی دیئے جاتے 

نجم ثاقب


 

بال موہن پانڈے

یوم پیدائش 03 مئی 1998

آغاز سے انجام سفر دیکھ رہا ہوں 
دیکھا نہیں جاتا ہے مگر دیکھ رہا ہوں

تیراک لگاتار یہاں ڈوب رہے ہیں 
چپ چاپ میں دریا کا ہنر دیکھ رہا ہوں 

اس خواب کی تعبیر کوئی مجھ کو بتا دے 
منزل سے بھی آگے کا سفر دیکھ رہا ہوں 

اس شخص کے ہونٹوں پہ مرا ذکر بہت ہے 
میں اپنی دعاؤں کا اثر دیکھ رہا ہوں 

جو تجھ کو بہت دور کبھی لے گئی مجھ سے 
میں کب سے وہی راہ گزر دیکھ رہا ہوں 

اک عمر سے قائم ہے یہ راتوں کی حکومت 
اک عمر سے میں خواب سحر دیکھ رہا ہوں

بال موہن پانڈے

 

Monday, July 3, 2023

آکاش عرش

یوم پیدائش 02 جون 2001

پھر ایک دوسری ہجرت نہیں زمین نہیں 
یہ میری مملکت درد مجھ سے چھین نہیں 

نواح یاد کی دل نے مسافرت چھوڑی 
کہ ایک شخص بھی اس کنج کا مکین نہیں 

غبار بستہ ستاروں سے بھر چکا آنکھیں 
وہ قافلہ، کہ کسی صبح کا امین نہیں 

میں تیرے ہدیۂ فرقت پہ کیسے نازاں ہوں 
مری جبیں پہ ترا زخم تک حسین نہیں 

آکاش عرش


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...