Urdu Deccan

Tuesday, July 4, 2023

رضی الدین رضی

یوم پیدائش 07 مئی 1964

دھڑک رہا ہے اگر تو ابھی دھڑکنے دے 
یہ میرا دل ہے تو اس کو یونہی دھڑکنے دے 

خموش کیوں ہے مرے ساتھ ہم کلام بھی ہو 
سنا رہا ہوں تجھے شاعری دھڑکنے دے 

عجیب دھڑکا لگا رہتا ہے ہمیں تجھ سے 
یہ کیا کہ روک دے دھڑکن کبھی دھڑکنے دے 

تو جانتی ہے خموشی بھی بات کرتی ہے 
سو اب سکوت میں بس خامشی دھڑکنے دے 

ہماری صبح تری صبح سے الگ ہو گی 
ہماری صبح میں کچھ رات بھی دھڑکنے دے 

دھڑک اٹھا تو یہ دل جان لیوا دھڑکے گا 
تو اس کو یونہی رضی واجبی دھڑکنے دے

رضی الدین رضی




 

مشتاق احمد نوری

یوم پیدائش 07 مئی 1950

روایتوں کا بہت احترام کرتے ہیں 
کہ ہم بزرگوں کو جھک کر سلام کرتے ہیں 

ہر ایک شخص یہ کہتا ہے اور کچھ کہئے 
ہم اپنی بات کا جب اختتام کرتے ہیں 

کبھی جلاتے نہیں ہم تو برہمی کا چراغ 
وہ دشمنی کی روش روز عام کرتے ہیں 

حریف اپنا اگر سر جھکا کے ملتا ہے 
تو ہم بھی تیغ کو زیب نیام کرتے ہیں 

مجھے خبر بھی نہیں ہے کہ ایک مدت سے 
وہ میرے خانۂ دل میں قیام کرتے ہیں 

حقیقتوں کو جنہیں سن کے وجد آ جائے
کچھ ایسے کام بھی ان کے غلام کرتے ہیں 

شراب کم ہو تو نوریؔ بہ نام تشنہ بھی 
لہو نچوڑ کے لبریز جام کرتے ہیں

مشتاق احمد نوری


 

زبیر قیصر

یوم پیدائش 07 مئی 1975

یہ خزاں تھی جو اب بہار ہوئی
زندگی تجھ سے خوشگوار ہوئی

دل کی دھڑکن ہے اخری دم پر
آنکھ بھی رزق انتظار ہوئی

سب سے پہلے بنے سوالی ہم
دیکھتے دیکھتے قطار ہوئی

اول اول سکوں کا باعث تھی
پھر تری یاد خلفشار ہوئی

تیری تصویر آنکھ میں رکھی
جب مری روح بیقرار ہوئی

 زبیر قیصر


 

محمد صہیب ثاقب

یوم وفات 06 مئی 2023

نہیں ہیں آپ طوافِ کوئے بتاں کے لیے! 
بنے ہیں مدحتِ سلطانِ دو جہاں کے لیے! 

وہ جس کی نعت کی حسرت ہے اے مرے ہمدم! 
بیان چاہیے اس صاحبِ بیاں کے لیے

نجومِ شوق سے وابستگی بھی اپنی جگہ
نشانِ رہ بھی ضروری ہے کارواں کے لیے

کسی کی راہنمائی کی احتیاج بھی ہے
کسی کا نقش بھی لازم ہے انس و جاں کے لیے 

قبول کیجے مرے جان و دل مرے آقا! 
یہ سنگِ در کے لیے ہے، وہ آستاں کے لیے

 محمد صہیب ثاقب


 

ذاکرہ شبنم

یوم پیدائش 06 مئی 1973
نظم :-تم سچ میں بہت اچھی ہو

تمہارا یہ پیار بھرا جملہ 
مجھے زندگی جینا آسان بناتا ہے 
میری کمہلائی ہوئی زندگی کو 
تر و تازگی سی بخشتا ہے 
تمہارے پیار بھرے الفاظ 
کانوں میں رس گھولنے لگتے ہیں 
آنکھوں میں اک چمک سی آ جاتی ہے 
ہونٹوں پہ مسکان چھا جاتی ہے 
تم جب بھی مجھ سے یہ کہتے ہو کہ 
تم سچ میں بہت اچھی ہو 
میری بے جان سی روح میں جان آ جاتی ہے 
میں اپنا دکھ درد بھول جاتی ہوں 
اپنی ہی ذات کے گنبد میں قید 
چہکنے لگتی ہوں مہکنے لگتی ہوں 
تم جب بھی مجھ سے یہ کہتے ہو کہ 
تم سچ میں بہت اچھی ہو 
تمہاری یاد میں کھوئی کھوئی سی 
تمہارے پیار کی خوشبو سے معطر 
میں لمحوں میں صدیاں جی لیتی ہوں 
ہاں لمحوں میں صدیاں جی لیتی ہوں 
اور پھر میں سوچنے لگتی ہوں 
مجھے ایسا لگتا ہے کہ 
گر میں بہت اچھی ہوں تو 
مجھے دیکھنے والی وہ آنکھیں 
دراصل بے حد دل کش ہیں 
وہ دل جس میں میں بستی ہوں 
بے انتہا خوب صورت ہے 
مجھے جینے کا حوصلہ دینے والی 
تمہاری پیار بھری سوچ 
سچ میں بہت اچھی ہے 
سچ تو یہ ہے کہ 
میں نہیں تم بہت اچھے ہو 
تم سچ میں بہت اچھے ہو 
ہاں تم بہت ہی اچھے ہو 

ذاکرہ شبنم



عنبرین صلاح الدین

یوم پیدائش 06 مئی 

کوئی احساس مکمل نہیں رہنے دیتا 
درد کا ساتھ مسلسل نہیں رہنے دیتا 

ہوش کی سرد نگاہوں سے تکے جاتا ہے 
کون ہے جو مجھے پاگل نہیں رہنے دیتا 

وقت طوفان بلا خیز کے گرداب میں ہے 
سر پہ میرے مرا آنچل نہیں رہنے دیتا 

ہاتھ پھیلاؤں تو چھو لیتا ہے جھونکے کی طرح 
ایک پل بھی مجھے بے کل نہیں رہنے دیتا 

خواب کے طاق پہ رکھی ہیں یہ آنکھیں کب سے 
وہ مری نیند مکمل نہیں رہنے دیتا 

میرے اس شہر میں اک آئنہ ایسا ہے کہ جو 
مجھ کو اس شخص سے اوجھل نہیں رہنے دیتا

عنبرین صلاح الدین

ہمیں ملنا درختوں سے پگھلتی برف دھانی کونپلوں میں جب بدل جائے
ہمیں ملنا، ہمارے دل میں ٹھہرا زمہریری وقت شاید تب بدل جائے 

ہمیں ملنا نئے امکان سے، یعنی نئے قصے، نئے عنوان سے ملنا
ہمیں ملنا کہ جب مطلب کے سب الفاظ اور الفاظ کا مطلب بدل جائے 

ہم اپنے حق میں تیرے سب کہے الفاظ گنتے ہیں، پھر ان کا وزن کرتے ہیں
بھلے تعداد سے معیار افضل ہے مگر معیار جانے کب بدل جائے 

تماشا گر، ہمارے آئنوں پر گرد ہے، تیرا تماشا بھی پرانا ہے
مگر شاید ہماری سیربینیں ٹھیک ہونے تک ترا کرتب بدل جائے 

ہماری زندگانی بس ہماری حیرتوں کا ایک بے پایاں تسلسل ہے
نہ جانے کس گھڑی پلکیں جھپک جائیں، کسے معلوم منظر کب بدل جائے 

کوئی بتلائے ناممکن کو ممکن میں یہاں ڈھلتے ہوئے کیا دیر لگتی ہے؟
تو پھر صحرا میں ساگر اور ساگر میں مہاساگر نہ جانے کب بدل جائے

عنبرین صلاح الدین



رحمان راہی

یوم پیدائش 06 اپریل 1925

بہت آئے مگر ہم جیسے کم ہی دیدہ ور آئے
ہماری طرح جو انکے لب و رخ تک گذرآئے

فریب جستجو ہے یہ کہ ہے تکمیل نظارہ
نگاہ شوق جس جانب اٹھی تم ہی نظر آئے

نظر آیا نہ شام بے کسی پرسان غم کوئی
اجالا پھیلتے ہی کس قدر سائے ابھر آئے

سمیٹے ہی رہے کانٹوں کے ڈر سے لوگ دامن کو
صبا کی طرح ہم تو وادئ گل سے گذر آئے

نہ جانے کس قدر راہوں کے پیچ و خم سے گذرے ہیں
کہیں پھر جاکے راہی ہم کو آداب سفر آئے

رحمان راہی 


 

محمد اشفاق چغتائی

یوم پیدائش 05 مئی 1958

اِترائی ہوئی خاک سے کہہ دے کوئی
افلاک کے تیراک سے کہہ دے کوئی
فرعون ہے عبرت کا نمونہ اشفاق
یہ طاقتِ سفاک سے کہہ دے کوئی

محمد اشفاق چغتائی 



مسعود تنہا

یوم پیدائش 05 مئی 1978

اس شہر نگاراں میں کوئی تجھ سا نہیں ہے 
میں کیسے بتاؤں تجھے تو کتنا حسیں ہے 

پھولوں کا گداز اک ترے پیکر کا حوالہ 
مہتاب سے بڑھ کر تری رخشندہ جبیں ہے 

خوشبو ترے سانسوں کی رچی ہے رگ و پے میں 
محسوس یہی ہوتا ہے تو میرے قریں ہے 

کم ملنے کا احساس گراں لگتا ہے تیرا 
اب لطف و کرم بھی ترا پہلے سا نہیں ہے 

وہ جھیل کی پہنائی میں اک قطرہ ہے لیکن 
رک جاتا ہے جب پلکوں پہ آ کر تو نگیں ہے 

ذکر غم دل اوروں سے اچھا نہیں لگتا 
یہ درد محبت تو مرے دل کا مکیں ہے 

ہنستا ہوا ملتا تھا سدا بزم میں تنہاؔ 
اب جانے وہ کیوں اتنا اداس اور حزیں ہے

مسعود تنہا


 

فائق اعوان

یوم پیدائش 05 مئی 1999

پروردگار! تجھ سے ہے اتنی سی التجا
گزرے دنوں کی یاد نہ اب کے برس میں ہو

فائق اعوان
 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...