Urdu Deccan

Friday, July 21, 2023

خالد رحیم

یوم پیدائش 09 مئی 1944

وہ شخص کون تھا مڑ مڑ کے دیکھتا تھا مجھے 
اکیلا بیٹھ کے پہروں جو سوچتا تھا مجھے 

میں اس کے پاس سے گزرا تو یہ ہوا محسوس 
وہ دھوپ سر پہ لیے چھاؤں دے رہا تھا مجھے 

الٹ رہا تھا مری زندگی کے وہ اوراق 
کسی کتاب کی مانند پڑھ رہا تھا مجھے 

اسی میں دیکھ رہا تھا میں اپنا عکس خیال 
وہ ایک چہرہ کہ جو آئنہ لگا تھا مجھے 

اب اس کی یاد لیے پھر رہا ہوں شہر بہ شہر 
کبھی سکون کا لمحہ جو دے گیا تھا مجھے 

وہ شخص میرے توجہ کا بن گیا تھا مدار 
نہ جانے کون سا منظر دکھا رہا تھا مجھے 

میں اس کے جسم کا سایہ تھا سربسر خالدؔ 
جو روشنی کا سمندر سا لگ رہا تھا مجھے

خالد رحیم


 

سید مراتب اختر

یوم پیدائش 09 مئی 1939

ادق یہ بات سہی پھر بھی کر دکھائیں گے 
بلندیوں پہ پہنچ کر تجھے بلائیں گے

مجھے وہ وقت وہ لمحات یاد آئیں گے 
یہ ننھے لان میں جب تتلیاں اڑائیں گے

کیا ہے عہد اکیلے رہیں گے ہم دائم 
بھری رہے تری دنیا میں ہم نہ آئیں گے

سموں کا راستہ تکتی رہیں گی سانولیاں 
جو پنچھیوں کی طرح لوٹ کر نہ آئیں گے

مری قسم تجھے شہلا نہ رو نہ ہو بیتاب 
ترے زوال کے یہ دن بھی بیت جائیں گے

سید مراتب اختر


 

Tuesday, July 4, 2023

ساجدہ اکبر سجل

یوم پیدائش 08 مئی 1972

حسن کی تپتی دوپہروں سے روپ کی ڈھلتی شام تلک
ایک کہانی ورد زباں تھی رنجش سے آلام تلک

اس کے اشارہ ابرو سے ہلتے ہیں جگہ سے ہم ورنہ
باندھے ہاتھ کھڑے رہتے ہیں صبح سے لے کر شام تلک

دنیا ناٹک منڈی ہے اور ہاتھوں ہاتھ کا سودا ہے
بک جاتا ہے اس منڈی میں خاص سے لے کر عام تلک

سکھ آرام اور چین کا کوئی پل گزرا نہ دنیا میں 
سانسوں کو لیکن چلنا تھا دنیا کے بسرام تلک

کتنا رستہ کھو بیٹھے ہیں ہم ابہام سے منزل تک
اور سجل باقی ہے کتنا منزل سے ابہام تلک

ساجدہ اکبر سجل



شکیلہ بانو بھوپالی

یوم پیدائش 08 مئی 1942

جو شخص مدتوں مرے شیدائیوں میں تھا 
آفت کے وقت وہ بھی تماشائیوں میں تھا 

اس کا علاج کوئی مسیحا نہ کر سکا 
جو زخم میری روح کی گہرائیوں میں تھا 

وہ تھے بہت قریب تو تھی گرمئ حیات
شعلہ ہجوم شوق کا پروائیوں میں تھا 

کوئی بھی ساز ان کی تڑپ کو نہ پا سکا 
وہ سوز وہ گداز جو شہنائیوں میں تھا 

بزم تصورات میں یادوں کی روشنی 
عالم عجیب رات کی تنہائیوں میں تھا 

اس بزم میں چھڑی جو کبھی جاں دہی کی بات 
اس دم ہمارا ذکر بھی سودائیوں میں تھا 

کچھ وضع احتیاط سے بانوؔ تھے ہم بھی دور 
کچھ دوستوں کا ہاتھ بھی رسوائیوں میں تھا

شکیلہ بانو بھوپالی




 

رضی الدین رضی

یوم پیدائش 07 مئی 1964

دھڑک رہا ہے اگر تو ابھی دھڑکنے دے 
یہ میرا دل ہے تو اس کو یونہی دھڑکنے دے 

خموش کیوں ہے مرے ساتھ ہم کلام بھی ہو 
سنا رہا ہوں تجھے شاعری دھڑکنے دے 

عجیب دھڑکا لگا رہتا ہے ہمیں تجھ سے 
یہ کیا کہ روک دے دھڑکن کبھی دھڑکنے دے 

تو جانتی ہے خموشی بھی بات کرتی ہے 
سو اب سکوت میں بس خامشی دھڑکنے دے 

ہماری صبح تری صبح سے الگ ہو گی 
ہماری صبح میں کچھ رات بھی دھڑکنے دے 

دھڑک اٹھا تو یہ دل جان لیوا دھڑکے گا 
تو اس کو یونہی رضی واجبی دھڑکنے دے

رضی الدین رضی




 

مشتاق احمد نوری

یوم پیدائش 07 مئی 1950

روایتوں کا بہت احترام کرتے ہیں 
کہ ہم بزرگوں کو جھک کر سلام کرتے ہیں 

ہر ایک شخص یہ کہتا ہے اور کچھ کہئے 
ہم اپنی بات کا جب اختتام کرتے ہیں 

کبھی جلاتے نہیں ہم تو برہمی کا چراغ 
وہ دشمنی کی روش روز عام کرتے ہیں 

حریف اپنا اگر سر جھکا کے ملتا ہے 
تو ہم بھی تیغ کو زیب نیام کرتے ہیں 

مجھے خبر بھی نہیں ہے کہ ایک مدت سے 
وہ میرے خانۂ دل میں قیام کرتے ہیں 

حقیقتوں کو جنہیں سن کے وجد آ جائے
کچھ ایسے کام بھی ان کے غلام کرتے ہیں 

شراب کم ہو تو نوریؔ بہ نام تشنہ بھی 
لہو نچوڑ کے لبریز جام کرتے ہیں

مشتاق احمد نوری


 

زبیر قیصر

یوم پیدائش 07 مئی 1975

یہ خزاں تھی جو اب بہار ہوئی
زندگی تجھ سے خوشگوار ہوئی

دل کی دھڑکن ہے اخری دم پر
آنکھ بھی رزق انتظار ہوئی

سب سے پہلے بنے سوالی ہم
دیکھتے دیکھتے قطار ہوئی

اول اول سکوں کا باعث تھی
پھر تری یاد خلفشار ہوئی

تیری تصویر آنکھ میں رکھی
جب مری روح بیقرار ہوئی

 زبیر قیصر


 

محمد صہیب ثاقب

یوم وفات 06 مئی 2023

نہیں ہیں آپ طوافِ کوئے بتاں کے لیے! 
بنے ہیں مدحتِ سلطانِ دو جہاں کے لیے! 

وہ جس کی نعت کی حسرت ہے اے مرے ہمدم! 
بیان چاہیے اس صاحبِ بیاں کے لیے

نجومِ شوق سے وابستگی بھی اپنی جگہ
نشانِ رہ بھی ضروری ہے کارواں کے لیے

کسی کی راہنمائی کی احتیاج بھی ہے
کسی کا نقش بھی لازم ہے انس و جاں کے لیے 

قبول کیجے مرے جان و دل مرے آقا! 
یہ سنگِ در کے لیے ہے، وہ آستاں کے لیے

 محمد صہیب ثاقب


 

ذاکرہ شبنم

یوم پیدائش 06 مئی 1973
نظم :-تم سچ میں بہت اچھی ہو

تمہارا یہ پیار بھرا جملہ 
مجھے زندگی جینا آسان بناتا ہے 
میری کمہلائی ہوئی زندگی کو 
تر و تازگی سی بخشتا ہے 
تمہارے پیار بھرے الفاظ 
کانوں میں رس گھولنے لگتے ہیں 
آنکھوں میں اک چمک سی آ جاتی ہے 
ہونٹوں پہ مسکان چھا جاتی ہے 
تم جب بھی مجھ سے یہ کہتے ہو کہ 
تم سچ میں بہت اچھی ہو 
میری بے جان سی روح میں جان آ جاتی ہے 
میں اپنا دکھ درد بھول جاتی ہوں 
اپنی ہی ذات کے گنبد میں قید 
چہکنے لگتی ہوں مہکنے لگتی ہوں 
تم جب بھی مجھ سے یہ کہتے ہو کہ 
تم سچ میں بہت اچھی ہو 
تمہاری یاد میں کھوئی کھوئی سی 
تمہارے پیار کی خوشبو سے معطر 
میں لمحوں میں صدیاں جی لیتی ہوں 
ہاں لمحوں میں صدیاں جی لیتی ہوں 
اور پھر میں سوچنے لگتی ہوں 
مجھے ایسا لگتا ہے کہ 
گر میں بہت اچھی ہوں تو 
مجھے دیکھنے والی وہ آنکھیں 
دراصل بے حد دل کش ہیں 
وہ دل جس میں میں بستی ہوں 
بے انتہا خوب صورت ہے 
مجھے جینے کا حوصلہ دینے والی 
تمہاری پیار بھری سوچ 
سچ میں بہت اچھی ہے 
سچ تو یہ ہے کہ 
میں نہیں تم بہت اچھے ہو 
تم سچ میں بہت اچھے ہو 
ہاں تم بہت ہی اچھے ہو 

ذاکرہ شبنم



عنبرین صلاح الدین

یوم پیدائش 06 مئی 

کوئی احساس مکمل نہیں رہنے دیتا 
درد کا ساتھ مسلسل نہیں رہنے دیتا 

ہوش کی سرد نگاہوں سے تکے جاتا ہے 
کون ہے جو مجھے پاگل نہیں رہنے دیتا 

وقت طوفان بلا خیز کے گرداب میں ہے 
سر پہ میرے مرا آنچل نہیں رہنے دیتا 

ہاتھ پھیلاؤں تو چھو لیتا ہے جھونکے کی طرح 
ایک پل بھی مجھے بے کل نہیں رہنے دیتا 

خواب کے طاق پہ رکھی ہیں یہ آنکھیں کب سے 
وہ مری نیند مکمل نہیں رہنے دیتا 

میرے اس شہر میں اک آئنہ ایسا ہے کہ جو 
مجھ کو اس شخص سے اوجھل نہیں رہنے دیتا

عنبرین صلاح الدین

ہمیں ملنا درختوں سے پگھلتی برف دھانی کونپلوں میں جب بدل جائے
ہمیں ملنا، ہمارے دل میں ٹھہرا زمہریری وقت شاید تب بدل جائے 

ہمیں ملنا نئے امکان سے، یعنی نئے قصے، نئے عنوان سے ملنا
ہمیں ملنا کہ جب مطلب کے سب الفاظ اور الفاظ کا مطلب بدل جائے 

ہم اپنے حق میں تیرے سب کہے الفاظ گنتے ہیں، پھر ان کا وزن کرتے ہیں
بھلے تعداد سے معیار افضل ہے مگر معیار جانے کب بدل جائے 

تماشا گر، ہمارے آئنوں پر گرد ہے، تیرا تماشا بھی پرانا ہے
مگر شاید ہماری سیربینیں ٹھیک ہونے تک ترا کرتب بدل جائے 

ہماری زندگانی بس ہماری حیرتوں کا ایک بے پایاں تسلسل ہے
نہ جانے کس گھڑی پلکیں جھپک جائیں، کسے معلوم منظر کب بدل جائے 

کوئی بتلائے ناممکن کو ممکن میں یہاں ڈھلتے ہوئے کیا دیر لگتی ہے؟
تو پھر صحرا میں ساگر اور ساگر میں مہاساگر نہ جانے کب بدل جائے

عنبرین صلاح الدین



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...