Urdu Deccan

Friday, July 21, 2023

انظار البشر

یوم پیدائش 10 مئی 1959

مہر و فا خلوص نے دفنا دیا مجھے
اپنا بنا کے آپ نے ٹھکرا دیا مجھے

چاہا کہ چھو کے دیکھ لوں اک بار آپ کو
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بہلا دیا مجھے

اپنا پتا ملا نہ تمھاری خبر ملی
اتنے عروج پر کہاں ٹھہرا دیا مجھے

الجھا کے اپنے دوش پہ رکھ لیجیے حضور
سلجھی ہوئی یہ زلف نے الجھا دیا مجھے

خوش فہمیوں کے جال میں ہم پھنس کے رہ گئے
بانہوں کا ہار تم نے جو پہنا دیا مجھے

مجھ کو بشرؔ خرد نے چمکنے نہیں دیا
میرے جنونِ شوق نے چمکا دیا مجھے

انظار البشر


 

رباب حیدری

یوم پیدائش 10 مئی 1977

عصائے عشق سے یہ معجزہ نہ ہو جائے
کہ تیرے دل میں مرا راستہ نہ ہو جائے

ہے تازہ تازہ محبت سو اس کا لطف اٹھا
پڑی پڑی کہیں بد ذائقہ نہ ہو جائے

ترا گریز نہ ہو انتہائی درجے کا
جو زاویہ ہے ترا، دائرہ نہ ہو جائے

جو حالیہ ہے اسی سے ہو مستفید، کہیں
نئے کی دھن میں یہی سابقہ نہ ہو جائے

پہاڑ اگنے لگے ہیں جو خوش گمانی کے
ہمارے بیچ کوئی سلسلہ نہ ہو جائے

تو آئنے کے مقابل چمکتا ہے جیسے 
مجھے تو ڈر ہے کہ خود آئنہ نہ ہو جاے

ہیں جس طرح سے مسلسل سفر میں لوگ رباب 
کہیں رکیں تو کوئی حادثہ نہ ہو جائے

رباب حیدری


 

بی ایس جین جوہر

یوم پیدائش 10 مئی 1927

اک ہوک سی جب دل میں اٹھی جذبات ہمارے آ پہنچے 
الفاظ جو ذہن میں موزوں تھے ہونٹوں کے کنارے آ پہنچے 

حالات غم دل کہہ نہ سکے اور درد دروں بھی سہ نہ سکے 
آنسو جو حصار چشم میں تھے پلکوں کے سہارے آ پہنچے 
 
ہم جوش جوانی میں آ کر اک لا محدود سفر میں تھے 
معلوم ہوا منزل یہ نہ تھی جب گھاٹ کنارے آ پہنچے 

اک عمر گزاری تھی ہم نے مظلوموں کی ہی حمایت میں 
جب گوشہ نشینی کی ٹھانی پھر ظلم کے مارے آ پہنچے
 
بچپن میں بہت دکھ ہوتا تھا مظلوم کی آہ و زاری پر 
ہوتے ہی جواں بہلانے کو دنیا کے نظارے آ پہنچے
 
دنیا کے حوادث نے اتنا پامال کیا ہم کو جوہرؔ 
بچنے کی کوئی امید نہ تھی قسمت کے ستارے آ پہنچے

بی ایس جین جوہر


 

کھیم راج گپت ساغر

یوم پیدائش 09 مئی 1931

بڑھ بڑھ کے اور لوگ ہوئے ان سے ہم کلام
میرے لبوں پہ مہرِ خموشی لگی رہی

کھیم راج گپت ساغر


 

ثمر خانہ بدوشؔ

یوم پیدائش 09 مئی 1987

منزلیں دور ہیں اور آبلہ پائی اپنی 
کیسے ممکن ہو ترے شہر رسائی اپنی

میں ترا نام قبیلے میں جو لیتا ہوں کبھی
ہر کوئی جھاڑنے لگتا ہے خدائی اپنی 

ایک وہ تھا کہ وہ جرگے میں بھی خاموش نہ تھا
ایک ہم تھے کہ نہ دے پائے صفائی اپنی 

اب تو یہ حق بھی نہیں ہے اسے چاہا جائے 
اب تو یہ زیست بھی لگتی ہے پرائی اپنی

عشق کہتے ہیں جسے ہے در یزداں کا چراغ 
اور اسی عشق میں دنیا ہے سمائی اپنی 

مل گئی ہجر کی سوغات ہمیں بھی آخر
جانے اب کیسے کٹے گی مرے بھائی اپنی 

یہ محبت ہے محبت ہے محبت جو ثمر 
عمر بھر کی ہے یہی نیک کمائی اپنی 

 ثمر خانہ بدوشؔ


 

یحیی امجد

یوم پیدائش 09 مئی 1943

پھر لب پہ تیرا ذکر ہے پھر تیرا نام ہے 
پھر جاں لٹانے والوں کا اک ازدحام ہے 

سبط رسول ﷺ ہونا ہی عزت کی بات ہے 
پر اس سے بڑھ کے تیرے عمل کا مقام ہے

ہے حرب عشق فتح کی خواہش سے بے نیاز 
یہ بات الگ کہ ہار کے بھی فتح نام ہے 

کیا غم اگر یزید رہا اقتدار میں 
پرچم تو پھر حسین کا میر عوام ہے 

یحیی امجد 



خالد رحیم

یوم پیدائش 09 مئی 1944

وہ شخص کون تھا مڑ مڑ کے دیکھتا تھا مجھے 
اکیلا بیٹھ کے پہروں جو سوچتا تھا مجھے 

میں اس کے پاس سے گزرا تو یہ ہوا محسوس 
وہ دھوپ سر پہ لیے چھاؤں دے رہا تھا مجھے 

الٹ رہا تھا مری زندگی کے وہ اوراق 
کسی کتاب کی مانند پڑھ رہا تھا مجھے 

اسی میں دیکھ رہا تھا میں اپنا عکس خیال 
وہ ایک چہرہ کہ جو آئنہ لگا تھا مجھے 

اب اس کی یاد لیے پھر رہا ہوں شہر بہ شہر 
کبھی سکون کا لمحہ جو دے گیا تھا مجھے 

وہ شخص میرے توجہ کا بن گیا تھا مدار 
نہ جانے کون سا منظر دکھا رہا تھا مجھے 

میں اس کے جسم کا سایہ تھا سربسر خالدؔ 
جو روشنی کا سمندر سا لگ رہا تھا مجھے

خالد رحیم


 

سید مراتب اختر

یوم پیدائش 09 مئی 1939

ادق یہ بات سہی پھر بھی کر دکھائیں گے 
بلندیوں پہ پہنچ کر تجھے بلائیں گے

مجھے وہ وقت وہ لمحات یاد آئیں گے 
یہ ننھے لان میں جب تتلیاں اڑائیں گے

کیا ہے عہد اکیلے رہیں گے ہم دائم 
بھری رہے تری دنیا میں ہم نہ آئیں گے

سموں کا راستہ تکتی رہیں گی سانولیاں 
جو پنچھیوں کی طرح لوٹ کر نہ آئیں گے

مری قسم تجھے شہلا نہ رو نہ ہو بیتاب 
ترے زوال کے یہ دن بھی بیت جائیں گے

سید مراتب اختر


 

Tuesday, July 4, 2023

ساجدہ اکبر سجل

یوم پیدائش 08 مئی 1972

حسن کی تپتی دوپہروں سے روپ کی ڈھلتی شام تلک
ایک کہانی ورد زباں تھی رنجش سے آلام تلک

اس کے اشارہ ابرو سے ہلتے ہیں جگہ سے ہم ورنہ
باندھے ہاتھ کھڑے رہتے ہیں صبح سے لے کر شام تلک

دنیا ناٹک منڈی ہے اور ہاتھوں ہاتھ کا سودا ہے
بک جاتا ہے اس منڈی میں خاص سے لے کر عام تلک

سکھ آرام اور چین کا کوئی پل گزرا نہ دنیا میں 
سانسوں کو لیکن چلنا تھا دنیا کے بسرام تلک

کتنا رستہ کھو بیٹھے ہیں ہم ابہام سے منزل تک
اور سجل باقی ہے کتنا منزل سے ابہام تلک

ساجدہ اکبر سجل



شکیلہ بانو بھوپالی

یوم پیدائش 08 مئی 1942

جو شخص مدتوں مرے شیدائیوں میں تھا 
آفت کے وقت وہ بھی تماشائیوں میں تھا 

اس کا علاج کوئی مسیحا نہ کر سکا 
جو زخم میری روح کی گہرائیوں میں تھا 

وہ تھے بہت قریب تو تھی گرمئ حیات
شعلہ ہجوم شوق کا پروائیوں میں تھا 

کوئی بھی ساز ان کی تڑپ کو نہ پا سکا 
وہ سوز وہ گداز جو شہنائیوں میں تھا 

بزم تصورات میں یادوں کی روشنی 
عالم عجیب رات کی تنہائیوں میں تھا 

اس بزم میں چھڑی جو کبھی جاں دہی کی بات 
اس دم ہمارا ذکر بھی سودائیوں میں تھا 

کچھ وضع احتیاط سے بانوؔ تھے ہم بھی دور 
کچھ دوستوں کا ہاتھ بھی رسوائیوں میں تھا

شکیلہ بانو بھوپالی




 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...