Urdu Deccan

Friday, July 21, 2023

مدثر حسن

یوم پیدائش 10 مئی 1995

اس طرح ترے ہجر کا غم توڑ گیا ہے
جیسے کسی بے کس کو ستم توڑ گیا ہے

تبدیل نہ ہو پائے گااب فیصلہ اس کا
منصف کی طرح وہ بھی قلم توڑ گیا ہے

شاید ہی کسی اور پہ اب ہوگا بھروسا
اک شخص محبت کا بھرم توڑ گیا ہے

اک دھن پہ تھا رقصاں مری سانسوں کا تسلسل
پر کوئی اچانک سے ردھم توڑ گیا ہے

وہ اور ہیں جو کر کے ستم توڑ رہے ہیں
تُو مجھ کو مگر کر کے کرم توڑ گیا ہے

میں دیکھ نہیں پاتا ہوں کچھ اس کے علاوہ
اک چہرہ مری نظروں میں دم توڑ گیا ہے

مدثر حسن


 

معین شفق

یوم پیدائش 10 مئی 1977

سخت مشکل جو ہے آسان بھی ہوسکتا ہے
آدمی چاہے تو انسان بھی ہوسکتا ہے

بے جھجک تم جسے کہہ دیتے ہو کافر لوگو!
تم سے اچھا وہ مسلمان بھی ہوسکتا ہے

دیکھ مظلوم کی آہوں میں اثر ہے کتنا
سرد جھونکا سا ہے طوفان بھی ہوسکتا ہے

اے شفقؔ سب کو پریشاں جو کیا کرتا ہے
ایک دن خود وہ پریشان بھی ہوسکتا ہے

معین شفق


 

ذاکر خان ذاکر

یوم پیدائش 10 مئی 1975

احساس کا قصہ ہے سنانا تو پڑے گا 
ہر زخم کو اب پھول بنانا تو پڑے گا 

ممکن ہے مرے شعر میں ہر راز ہو لیکن 
اک راز پس شعر چھپانا تو پڑے گا 

آنکھوں کے جزیروں پہ ہیں نیلم کی قطاریں 
خوابوں کا جنازہ ہے اٹھانا تو پڑے گا 

چہرے پہ کئی چہرے لیے پھرتی ہے دنیا 
اب آئنہ دنیا کو دکھانا تو پڑے گا 

ذہنوں پہ مسلط ہیں سیہ سوچ کے بادل 
ظلمت میں دیا دل کا جلانا تو پڑے گا 

وہ دشمن جاں جان سے پیارا بھی ہمیں ہے 
روٹھے وہ اگر اس کو منانا تو پڑے گا 

رشتوں کا یہی وصف ہے ذاکرؔ کی نظر میں 
کمزور سہی رشتہ نبھانا تو پڑے گا

ذاکر خان ذاکر


 

انظار البشر

یوم پیدائش 10 مئی 1959

مہر و فا خلوص نے دفنا دیا مجھے
اپنا بنا کے آپ نے ٹھکرا دیا مجھے

چاہا کہ چھو کے دیکھ لوں اک بار آپ کو
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بہلا دیا مجھے

اپنا پتا ملا نہ تمھاری خبر ملی
اتنے عروج پر کہاں ٹھہرا دیا مجھے

الجھا کے اپنے دوش پہ رکھ لیجیے حضور
سلجھی ہوئی یہ زلف نے الجھا دیا مجھے

خوش فہمیوں کے جال میں ہم پھنس کے رہ گئے
بانہوں کا ہار تم نے جو پہنا دیا مجھے

مجھ کو بشرؔ خرد نے چمکنے نہیں دیا
میرے جنونِ شوق نے چمکا دیا مجھے

انظار البشر


 

رباب حیدری

یوم پیدائش 10 مئی 1977

عصائے عشق سے یہ معجزہ نہ ہو جائے
کہ تیرے دل میں مرا راستہ نہ ہو جائے

ہے تازہ تازہ محبت سو اس کا لطف اٹھا
پڑی پڑی کہیں بد ذائقہ نہ ہو جائے

ترا گریز نہ ہو انتہائی درجے کا
جو زاویہ ہے ترا، دائرہ نہ ہو جائے

جو حالیہ ہے اسی سے ہو مستفید، کہیں
نئے کی دھن میں یہی سابقہ نہ ہو جائے

پہاڑ اگنے لگے ہیں جو خوش گمانی کے
ہمارے بیچ کوئی سلسلہ نہ ہو جائے

تو آئنے کے مقابل چمکتا ہے جیسے 
مجھے تو ڈر ہے کہ خود آئنہ نہ ہو جاے

ہیں جس طرح سے مسلسل سفر میں لوگ رباب 
کہیں رکیں تو کوئی حادثہ نہ ہو جائے

رباب حیدری


 

بی ایس جین جوہر

یوم پیدائش 10 مئی 1927

اک ہوک سی جب دل میں اٹھی جذبات ہمارے آ پہنچے 
الفاظ جو ذہن میں موزوں تھے ہونٹوں کے کنارے آ پہنچے 

حالات غم دل کہہ نہ سکے اور درد دروں بھی سہ نہ سکے 
آنسو جو حصار چشم میں تھے پلکوں کے سہارے آ پہنچے 
 
ہم جوش جوانی میں آ کر اک لا محدود سفر میں تھے 
معلوم ہوا منزل یہ نہ تھی جب گھاٹ کنارے آ پہنچے 

اک عمر گزاری تھی ہم نے مظلوموں کی ہی حمایت میں 
جب گوشہ نشینی کی ٹھانی پھر ظلم کے مارے آ پہنچے
 
بچپن میں بہت دکھ ہوتا تھا مظلوم کی آہ و زاری پر 
ہوتے ہی جواں بہلانے کو دنیا کے نظارے آ پہنچے
 
دنیا کے حوادث نے اتنا پامال کیا ہم کو جوہرؔ 
بچنے کی کوئی امید نہ تھی قسمت کے ستارے آ پہنچے

بی ایس جین جوہر


 

کھیم راج گپت ساغر

یوم پیدائش 09 مئی 1931

بڑھ بڑھ کے اور لوگ ہوئے ان سے ہم کلام
میرے لبوں پہ مہرِ خموشی لگی رہی

کھیم راج گپت ساغر


 

ثمر خانہ بدوشؔ

یوم پیدائش 09 مئی 1987

منزلیں دور ہیں اور آبلہ پائی اپنی 
کیسے ممکن ہو ترے شہر رسائی اپنی

میں ترا نام قبیلے میں جو لیتا ہوں کبھی
ہر کوئی جھاڑنے لگتا ہے خدائی اپنی 

ایک وہ تھا کہ وہ جرگے میں بھی خاموش نہ تھا
ایک ہم تھے کہ نہ دے پائے صفائی اپنی 

اب تو یہ حق بھی نہیں ہے اسے چاہا جائے 
اب تو یہ زیست بھی لگتی ہے پرائی اپنی

عشق کہتے ہیں جسے ہے در یزداں کا چراغ 
اور اسی عشق میں دنیا ہے سمائی اپنی 

مل گئی ہجر کی سوغات ہمیں بھی آخر
جانے اب کیسے کٹے گی مرے بھائی اپنی 

یہ محبت ہے محبت ہے محبت جو ثمر 
عمر بھر کی ہے یہی نیک کمائی اپنی 

 ثمر خانہ بدوشؔ


 

یحیی امجد

یوم پیدائش 09 مئی 1943

پھر لب پہ تیرا ذکر ہے پھر تیرا نام ہے 
پھر جاں لٹانے والوں کا اک ازدحام ہے 

سبط رسول ﷺ ہونا ہی عزت کی بات ہے 
پر اس سے بڑھ کے تیرے عمل کا مقام ہے

ہے حرب عشق فتح کی خواہش سے بے نیاز 
یہ بات الگ کہ ہار کے بھی فتح نام ہے 

کیا غم اگر یزید رہا اقتدار میں 
پرچم تو پھر حسین کا میر عوام ہے 

یحیی امجد 



خالد رحیم

یوم پیدائش 09 مئی 1944

وہ شخص کون تھا مڑ مڑ کے دیکھتا تھا مجھے 
اکیلا بیٹھ کے پہروں جو سوچتا تھا مجھے 

میں اس کے پاس سے گزرا تو یہ ہوا محسوس 
وہ دھوپ سر پہ لیے چھاؤں دے رہا تھا مجھے 

الٹ رہا تھا مری زندگی کے وہ اوراق 
کسی کتاب کی مانند پڑھ رہا تھا مجھے 

اسی میں دیکھ رہا تھا میں اپنا عکس خیال 
وہ ایک چہرہ کہ جو آئنہ لگا تھا مجھے 

اب اس کی یاد لیے پھر رہا ہوں شہر بہ شہر 
کبھی سکون کا لمحہ جو دے گیا تھا مجھے 

وہ شخص میرے توجہ کا بن گیا تھا مدار 
نہ جانے کون سا منظر دکھا رہا تھا مجھے 

میں اس کے جسم کا سایہ تھا سربسر خالدؔ 
جو روشنی کا سمندر سا لگ رہا تھا مجھے

خالد رحیم


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...