زخمی ہوئے بدن تو کبھی سر قلم ہوئے
کیا کیا نہ حق پرستوں پہ ظلم و ستم ہوئے
دکھ درد میں شریک جب اوروں کے ہم ہوئے
ہر ایک کی نگاہ میں تب محترم ہوئے
یارب تو آج پھر مری غربت کی لاج رکھ
پھر مہرباں غریب پہ اہل کرم ہو
جل اٹھے تیری یادوں کے دل میں حسیں چراغ
یوں زخم تیرے زینت شام الم ہوئے
بے شک وہ لوگ عظمت فن کے امین ہیں
دنیا میں جو بھی نازش لوح و قلم ہوئے
کتنا سکون موت سے ہم کو ہوا نصیب
آرام کر کے تھوڑا سا پھر تازہ دم ہوئے
آساں نہیں ہے صاحب فن ہونا دوستو !
"جب دل ہوا لہو تو ہم اہل قلم ہوئے"
خوشبو ہر ایک زخم سے آنے لگی تری
جب آشنائے لذت درد و الم ہوئے
رکھتے ہیں اپنے ہاتھ میں پتھر جو ہر گھڑی
آئینے کی نظر میں وہ کب محترم ہوئے
واقف ہماری عظمت فن سے جہاں ہوا
جب واقعاتِ زیست ہمارے رقم ہوئے
شہزادئ غزل کو پلایا نچوڑ کر
جب ہم نے اپنا خون تب اہل قلم ہوئے
جو شخص مے پرستوں کا صابر ! امام ہے
اس کے مرید حضرت شیخ حرم ہوئے
صابر جوہری بھدوہوی