Urdu Deccan

Tuesday, March 23, 2021

صابر جوہری بھدوی

 زخمی ہوئے بدن تو کبھی سر قلم ہوئے

کیا کیا نہ حق پرستوں پہ ظلم و ستم ہوئے


دکھ درد میں شریک جب اوروں کے ہم ہوئے

ہر ایک کی نگاہ میں تب محترم ہوئے


یارب تو آج پھر مری غربت کی لاج رکھ 

پھر مہرباں غریب پہ اہل کرم ہو 


جل اٹھے تیری یادوں کے دل میں حسیں چراغ 

یوں زخم تیرے زینت شام الم ہوئے


بے شک وہ لوگ عظمت فن کے امین ہیں

دنیا میں جو بھی نازش لوح و قلم ہوئے


کتنا سکون موت سے ہم کو ہوا نصیب 

آرام کر کے تھوڑا سا پھر تازہ دم ہوئے


آساں نہیں ہے صاحب فن ہونا دوستو !

"جب دل ہوا لہو تو ہم اہل قلم ہوئے"


خوشبو ہر ایک زخم سے آنے لگی تری 

جب آشنائے لذت درد و الم ہوئے


رکھتے ہیں اپنے ہاتھ میں پتھر جو ہر گھڑی

آئینے کی نظر میں وہ کب محترم ہوئے


واقف ہماری عظمت فن سے جہاں ہوا 

جب واقعاتِ زیست ہمارے رقم ہوئے


شہزادئ غزل کو پلایا نچوڑ کر 

جب ہم نے اپنا خون تب اہل قلم ہوئے


جو شخص مے پرستوں کا صابر ! امام ہے

اس کے مرید حضرت شیخ حرم ہوئے


صابر جوہری بھدوہوی


نعیم سرکار

 یوم پیدائش 18مارچ


قفس میں رنج و الم یرغمال رہتا ہے

وہ چھپ چھپا کے پریشان حال رہتا ہے


کہیں ملا تو مکمل اسے ٹٹولوں گا

وہ ضد میں کیسے یونہی باکمال رہتا ہے


وہ آسماں پہ مجھے ڈانٹنے کو آیا ہے

زمیں پہ رہتے ہوئے جو نڈھال رہتا ہے


کہیں کسی کی محبت نہ رنج دنیا کا 

جو کچھ نہیں تو بھلا کیا ملال رہتا ہے


جو تم نہیں تو مرے دل میں اب میرے سرکار

تمھارے جیسا کوئی خدوخال رہتا ہے


نعیم سرکار


ایڈوکیٹ متن طالب

 خوشبو جو تخیل میں ہے فن میں بھی وہی ہے

دل میں جو ہمارے ہے سخن میں بھی وہی ہے


محسوس ہو خطرہ جو شناور کو بھنور میں 

اے یار ! ترے چاہِ ذقن میں بھی وہی ہے


تہذیب پتہ چلتی ہے انساں کی زباں سے

ویسے تو میاں مشک ختن میں بھی وہی ہے


معیار پہ اترا ہے زمانے کے جو سکہ

قیمت بھی اسی کی ہے چلن میں بھی وہی ہے


گر آنکھ سے ٹپکے تو مزہ اور ہی کچھ ہے

کہنے کو لہو پورے بدن میں بھی وہی ہے


عاشق کو جو محبوب کی زلفوں میں ہے راحت 

منصور کو دار اور رسن میں بھی وہی ہے


قصہ ہے شبِ ہجر کا تکیے کی نمی میں 

 بکھرے ہوئے بستر کی شکن میں بھی وہی ہے


اسلاف سے بیباک طبیعت ملی ہم کو

اور جرأت اظہار ، سخن میں بھی وہی ہے


محسوس گھٹن ہوتی ہے پردیس میں مجھ کو

جبکہ میاں ! ماحول وطن میں بھی وہی ہے


آئینے کو مکاری نہیں آتی ہے یارو!

طالبؔ کی زباں پر ہے جو ، من میں بھی وہی ہے


ایڈوکیٹ متین طالبؔ


ذوالفقار علی ذلفی

 تیرے سینے میں محبت کے شرارے تھے کبھی

تجھ کو تیری جاں سے بڑھ کر , ہم بھی پیارے تھے کبھی


ایک مدت بعد بھی ہم سے بُھلائے کب گئے

ہم نے تیرے ساتھ لمحے جو گزارے تھے کبھی


مشکلوں میں چھوڑ کر اپنے کنارے ہو گئے

لوگ بھی وہ جو دل و جاں سے ہمارے تھے کبھی


جرمِ اُلفت تو فقط ہم سے ہی سرزد کب ہوا

تیری آنکھوں میں بھی چاہت کے اشارے تھے کبھی


آج جِن ہاتھوں میں پتھر ہیں ہمارے واسطے

اُن سے کتنے پھول تُو نے ہم پہ وارے تھے کبھی


زندگی بھر ہم سے اُن کا کب ازالہ ہو سکا

جو محبت میں مِلے ہم کو خسارے تھے کبھی


آج ذُلفی سوچتا ہوں ہو گئے کیسے جدا

ہم کسی دریا کے جیسے دو کنارے تھے کبھی


ذوالفقار علی ذُلفی 


سرِ محفل تجھے سپنوں کی رانی میں نہیں کہتا

جو آنکھوں سے بتاتا ہوں زبانی میں نہیں کہتا


نہ ہو جس آنکھ کو پہچان کچھ اپنے پرائے کی

اُسے پاگل سمجھتا ہوں ٫ سیانی میں نہیں کہتا


یہاں مطلب کی خاطر ہی محبت لوگ کرتے ہیں

حقیقت ہے کوئی جھوٹی کہانی میں نہیں کہتا


مِری مطلب پرستوں سے بِگڑ جاتی ہے تب اکثر

کِسی کم ظرف کو جب خاندانی میں نہیں کہتا


مِلو جب بھی تو مِلتے ہی ذرا سا مسکرا دینا

مجھے دو اپنے دل پر حکمرانی میں نہیں کہتا


نجانے عشق ہو جائے اُسے میری غزل پڑھ کر

ابھی تک تو اُسے اپنی دِوانی میں نہیں کہتا


چُھپا کے تیر پھولوں میں تمہارا پھینکنا مجھ پر

اِسے ذُلفی محبت کی نشانی میں نہیں کہتا


ذوالفقار علی ذُلفی





Wednesday, March 17, 2021

اشرف حسن عارفی

 حاصل ہے بس اسی کو محبت رسولؐ کی

"جو شخص کررہا ہے اطاعت رسولؐ کی"


یوں تو جہاں میں آئے بہت سے نبی مگر 

کوئی نہ پا سکا ہے فضیلت رسول کی


اپنوں کی بات چھوڑئیے غیروں نے بھی کہا

بےشک ہے بے نظیر صداقت رسولؐ کی


وہ شخص بے نصیب ہے سب کی نگاہ میں

جس نے کبھی بھی کی ہو اہانت رسولؐ کی


سب کی ہدایتوں کا وہ سامان دے گئے

پائی ہے مومنوں نے عنایت رسولؐ کی؟


بچپن سے لیکے دیکھئے عمر اخیر تک 

گلدستئہ حیات ہے سیرت رسولؐ کی


میری تو یہ دعا ہے کہ اے رب دو جہاں 

أشرف کو ہو نصیب شفاعت رسولؐ کی


اشرف حسن عارفی


محمد سمیر

 سزا یہ رب سے  دوری کی ملی  ہے

ہوئی مشکل ہماری زندگی ہے


وہ جس نے خدمتِ خلقِ خدا کی 

دو عالم میں اسے تسکیں ملی ہے


دلوں پہ راج   کرتے ہیں وہی بس!

مزاجوں میں وہ جن کے عاجزی ہے


نہیں  پروا مجھے انجام کی اب

میں کہتا ہوں حکومت  آلسی  ہے


نکمّوں کے ہے ہاتھوں میں حکومت!

یہ ای وی ایم، سراسر  دھاندلی  ہے


مری  چاہت،  مری  حسرت،  تمنّا

خدا کی راہ میں بس مرنے کی ہے


سمؔیر اک پل جو گزرا بندگی میں

حقیقت  میں  وہی  تو زندگی ہے


محمد سمؔیر


شائستہ ‏کنول ‏عالی

موتی وفا کے آنکھ کی ڈبیا میں ڈال دوں
دل کے صدف میں آپ کی صورت سنبھال دوں

کہتے ہیں جس کو حسن مجسم وہ حور ہوں 
بس اک جھلک سے خون جگر کو ابال دوں

تیر نظر سے  سینکڑوں گھائل ہوں کر چکی 
اک وار سے میں آپ کے کس بل نکال دوں

دست سوال آج کیے ہیں دراز سب
چندا کی چاندنی ہو کہ سورج کاتھال دوں

یہ فکر و فن ہی دولت  عالی  ہے  صاحبو 
ہر صاحب وفا  کو  یہ مال و منال   دوں

شائستہ کنول عالی

ظہیر ناصری

دریا کے پار ہم نے جلائی ہیں کشتیاں
ایسا نہیں کہ دھوپ کی شدت سے ڈر گئے

ظہیر ناصری

جہانگیر ‏نایاب

یوم پیدائش 17 مارچ 

عشق کو جان کا آزار نہیں کرتا  میں 
ایک ہی بھول کئی بار نہیں کرتا میں

ایک مدّت سے گرفتارِ بلا ہوں لیکن  
کوئی وحشت سرِ بازار نہیں کرتا میں

مسئلہ تُونے بنایا ہے انا کا تو پھر 
جا، ترے  پیار کا اقرارنہیں کرتا میں

میرے دل میں بھی ہے جذبوں کی فراوانی مگر 
یہ الگ بات ہے اظہارنہیں کرتا  میں

اک تجسُّس مجھے سرگرمِ عمل رکھتا  ہے 
سیکھنا کچھ ہو،  تو پھر عار نہیں کرتا  میں

دور کردی مری ہر ایک شکایت تُونے
 آج تجھ سے کوئی تکرارنہیں کرتا میں

اپنی تیراکی پہ ہے یار بھروسا مجھ کو  
ٹوئی کشتی پہ ندی پار نہیں کرتا میں

سامنے اس کے میں اظہارِ تمنّا  نایابؔ 
 کرچکا ہوں مگر اس بار نہیں کرتا میں

 جہانگیر نایابؔ 

اشفاق اسانغنی

 یوم پیدائش 16 مارچ 1972


اب کون زندگی کا طلبگار ہے یہاں

ہر شخص خود سے برسر پیکار ہے یہاں


رشتوں کی پاسداری رکھے کون دہر میں

جب آدمی سے آدمی بیزار ہے یہاں


اپنی جڑوں کو کھوجتے گزری تمام عمر

پھل پھول کی تو بات ہی بیکار ہے یہاں


دستار کی فضیلتیں اپنی جگہ مگر

بے سر کا آدمی بھی سر دار ہے یہاں


سانسوں سے رشتہ توڑ لیا تو نے تو مگر

اب کون زندگی ترا غمخوار ہے یہاں


ساقی نہ تیرے جام و سبو معتبر رہے

ہوش و حواس میں ابھی میخوار ہے یہاں


تنہا سفر کی جھیل نہ پائے صعوبتیں

پھر آدمی کو قافلہ درکار ہے یہاں


چہرے چھپائے پھرتے مکھوٹوں سے ہیں سبھی

اب کون شخص آئینہ بردار ہے یہاں


اشفاق فکر کون ترا دیکھتا ہے اب

بے بحر شاعری میاں شہکار ہے یہاں


اشفاق اسانغنی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...