Urdu Deccan

Tuesday, September 21, 2021

سحر عشق آبادی

 یوم پیدائش 16 سپتمبر 1903


تکمیل عشق جب ہو کہ صحرا بھی چھوڑ دے

مجنوں خیال محمل لیلا بھی چھوڑ دے


کچھ اقتضائے دل سے نہیں عقل بے نیاز

تنہا یہ رہ سکے تو وہ تنہا بھی چھوڑ دے


یا دیکھ زاہد اس کو پس پردۂ مجاز

یا اعتبار دیدۂ بینا بھی چھوڑ دے


کچھ لطف دیکھنا ہے تو سودائے عشق میں

اے سرفروش سر کی تمنا بھی چھوڑ دے


وہ درد ہے کہ درد سراپا بنا دیا

میں وہ مریض ہوں جسے عیسیٰ بھی چھوڑ دے


آنکھیں نہیں جو قابل نظارۂ جمال

طالب سے کہہ دو ذوق تماشا بھی چھوڑ دے


ہے برق پاشیوں کا گلہ سحرؔ کو عبث

کیا اس کے واسطے کوئی ہنسنا بھی چھوڑ دے


سحر عشق آبادی


آفتاب خان

 یوم پیدائش 15 سپتمبر


تم آ کے یوں سماۓ ہو تحت الشعور میں

جیسے پیے بنا کوٸی آۓ سرور میں 


اتنا بھی سادہ ٹھیک نہیں دل کا یہ ورق 

اک نام درج کیجیے بین السطور میں 


آنکھیں حیا بدوش ، لبوں پر ملے ہنسی

تم جیسی خوبیاں کہاں ہوتی ہیں حور میں 


اک دوسرے کی ذات میں پیوست ہو گۓ 

ہم دونوں ہم خیال ہیں دل کے امور میں 


دل جیت لو سبھی کے محبت سے آفتاب 

قرآن میں یہی ہے ، یہی ہے زبور میں 


آفتاب خان


شان الحق حقی

 یوم پیدائش 15 سپتمبر 1917


وہی اک فریب حسرت کہ تھا بخشش نگاراں

سو قدم قدم پہ کھایا بہ طریق پختہ کاراں


وہ چلے خزاں کے ڈیرے کہ ہے آمد بہاراں

شب غم کے رہ نشینوں کہو اب صلاح یاراں


مرے آشیاں کا کیا ہے مرا آسماں سلامت

ہیں مرے چمن کی رونق یہی برق و باد و باراں


نہ سہی پسند حکمت یہ شعار اہل دل ہے

کبھی سر بھی دے دیا ہے بہ صلاح دوست داراں


رہے حسن بن کے آخر جو خیال ادھر سے گزرے

یہ کدھر کی چاندنی تھی سر خاک رہ گزاراں


مرے ایک دل کی خاطر یہ کشاکش حوادث

ترے ایک غم کے بدلے یہ ہجوم غم گساراں


مری وحشتوں نے جس کو نہ بنا کے راز رکھا

وہی راز ہے کہ اب تک ہے میان راز داراں


کسی منچلے نے بھیجا ہے مے سخن سے بھر کر

کہ یہ ساغر دل افزا ہے یہ نذر دل نگاراں


شان الحق حقی


افتخار نسیم

 یوم پیدائش 15 سپتمبر 1946


ہاتھ ہاتھوں میں نہ دے بات ہی کرتا جائے

ہے بہت لمبا سفر یوں تو نہ ڈرتا جائے


جی میں ٹھانی ہے کہ جینا ہے بہرحال مجھے

جس کو مرنا ہے وہ چپ چاپ ہی مرتا جائے


خود کو مضبوط بنا رکھے پہاڑوں کی طرح

ریت کا آدمی اندر سے بکھرتا جائے


سرخ پھولوں کا نہیں زرد اداسی کا سہی

رنگ کچھ تو مری تصویر میں بھرتا جائے


مجھ سے نفرت ہے اگر اس کو تو اظہار کرے

کب میں کہتا ہوں مجھے پیار ہی کرتا جائے


گھر کی دیوار کو اتنا بھی تو اونچا نہ بنا

تیرا ہمسایہ ترے سائے سے ڈرتا جائے


افتخار نسیم


سلمیٰ حجاب

 یوم پیدائش 15 سپتمبر 1949


کبھی تیرے خط کو جلا دیا کبھی نام لکھ کے مٹا دیا 

یہ مری انا کا سوال تھا تجھے یاد کر کے بھلا دیا 


نیا آرزو کا مزاج ہے نئے دور کی ہیں رفاقتیں 

تری قربتوں کا جو زخم تھا تری دوریوں نے مٹا دیا 


مجھے ہے خبر تجھے عشق تھا فقط اپنے عکس جمال سے 

کہ میں گم ہوں تیرے وجود میں مجھے آئینہ سا بنا دیا 


میں حصار میں تو حصار میں اسی سلسلے کو دوام ہے 

کبھی مصلحت نے جدا کیا تو کبھی غرض نے ملا دیا 


سبھی کہہ رہے ہیں یہ برملا جو گزر گیا وہی خوب تھا 

ابھی ایک پل جو ہے آسرا اسے سب نے یوں ہی گنوا دیا 


وہ شرر ہو یا کہ چراغ ہو ہے تپش مزاج میں اے حجابؔ 

کبھی ہر نفس کو جلا دیا کبھی روشنی کو بڑھا دیا


سلمیٰ حجاب


ابھیشیک شکلا

 یوم پیدائش 14 سپتمبر 1985


فصیل جسم گرا دے مکان جاں سے نکل 

یہ انتشار زدہ شہر ہے یہاں سے نکل 


تری تلاش میں پھرتے ہیں آفتاب کئی 

سو اب یہ فرض ہے تجھ پر کہ سائباں سے نکل 


تمام شہر پہ اک خامشی مسلط ہے 

اب ایسا کر کہ کسی دن مری زباں سے نکل 


مقام وصل تو ارض و سما کے بیچ میں ہے 

میں اس زمین سے نکلوں تو آسماں سے نکل 


میں اپنی ذات میں تاریکیاں سمیٹے ہوں 

تو اک چراغ جلا اور اب یہاں سے نکل 


کہا تھا مجھ سے بھی اک دن ہوائے صحرا نے 

مری پناہ میں آ جا غبار جاں سے نکل


ابھیشیک شکلا


Monday, September 20, 2021

قیصر الجعفری

 یوم پیدائش 14 سپتمبر 1926


گھر لوٹ کے روئیں گے ماں باپ اکیلے میں

مٹی کے کھلونے بھی سستے نہ تھے میلے میں


کانٹوں پہ چلے لیکن ہونے نہ دیا ظاہر

تلووں کا لہو دھویا چھپ چھپ کے اکیلے میں


اے داور محشر لے دیکھ آئے تری دنیا

ہم خود کو بھی کھو بیٹھے وہ بھیڑ تھی میلے میں


خوشبو کی تجارت نے دیوار کھڑی کر دی

آنگن کی چنبیلی میں بازار کے بیلے میں


قیصر الجعفری


اختر لکھنوی

 یوم پیدائش 14 سپتمبر 1934


اب درد کا سورج کبھی ڈھلتا ہی نہیں ہے

اب دل کوئی پہلو ہو سنبھلتا ہی نہیں ہے


بے چین کئے رہتی ہے جس کی طلب دید

اب بام پہ وہ چاند نکلتا ہی نہیں ہے


اک عمر سے دنیا کا ہے بس ایک ہی عالم

یہ کیا کہ فلک رنگ بدلتا ہی نہیں ہے


ناکام رہا ان کی نگاہوں کا فسوں بھی

اس وقت تو جادو کوئی چلتا ہی نہیں ہے


جذبے کی کڑی دھوپ ہو تو کیا نہیں ممکن

یہ کس نے کہا سنگ پگھلتا ہی نہیں ہے


اختر لکھنوی


منظور ہاشمی

 یوم پیدائش 14 سپتمبر 1938


نئی زمیں نہ کوئی آسمان مانگتے ہیں

بس ایک گوشۂ امن و امان مانگتے ہیں


کچھ اب کے دھوپ کا ایسا مزاج بگڑا ہے

درخت بھی تو یہاں سائبان مانگتے ہیں


ہمیں بھی آپ سے اک بات عرض کرنا ہے

پر اپنی جان کی پہلے امان مانگتے ہیں


قبول کیسے کروں ان کا فیصلہ کہ یہ لوگ

مرے خلاف ہی میرا بیان مانگتے ہیں


ہدف بھی مجھ کو بنانا ہے اور میرے حریف

مجھی سے تیر مجھی سے کمان مانگتے ہیں


نئی فضا کے پرندے ہیں کتنے متوالے

کہ بال و پر سے بھی پہلے اڑان مانگتے ہیں


منظور ہاشمی


حجاب عباسی

 یوم پیدائش 14 سپتمبر 1957 


دعا ہی وجہ کرامات تھوڑی ہوتی ہے

غضب کی دھوپ میں برسات تھوڑی ہوتی ہے


رہ وفا کی روایت ہے سر جھکا رکھنا

بساط عشق پہ یہ مات تھوڑی ہوتی ہے


جو اپنا نام صف معتبر میں لکھتے ہیں

خود ان سے اپنی ملاقات تھوڑی ہوتی ہے


بہت سے راز دلوں کے دلوں میں رہتے ہیں

اسے بتانے کی ہر بات تھوڑی ہوتی ہے


دل و نظر میں جو بس جائے دل ربا ٹھہرے

کہ دل ربائی کوئی ذات تھوڑی ہوتی ہے


حجابؔ اہل جنوں میں شمار ہونے کی

اساس عزت سادات تھوڑی ہوتی ہے


حجاب عباسی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...