Urdu Deccan

Saturday, January 22, 2022

ابراہیم اشک

 یوم وفات 16 جنوری 2022

انا الیہ وانا الیہ راجعون


ہر لمحہ زخم یار ہو، تازہ بہ تازہ نو بہ نو

پھر دل کی ہر دھڑکن سنو، تازہ بہ تازہ نو بہ نو


نکلے کوئی مہتاب تو، پہلو میں آفتاب ہو

یوں جشن زندگی کرو، تازہ بہ تازہ نو بہ نو


ساقی مرے شراب لا، پینا ہے بے حساب لا

رندوں کا آج رقص ہو، تازہ بہ تازہ نو بہ نو


تیری نگاہ ناز ہو، میرے بھی دل کا ساز ہو

پھر عشق نغمہ باز ہو،تازہ بہ تازہ نو بہ نو


کیا بزم حسن یار ہے،موسم بھی لالہ زار ہے

دو بھر کے مجھ کو جام دو، تازہ بہ تازہ نو بہ نو


اپنا شریک غم وہی،دیتا ہے جو ہردم خوشی

لائے پیام یار جو، تازہ بہ تازہ نو بہ نو


دل یہ بہت بےآس ہے،ہونٹوں پہ گہری پیاس ہے

ابر کرم ہو آج تو، تازہ بہ تازہ نو بہ نو


بھٹکے ہووے ہو کس لیے،ہم عصر میرے شاعرو

میری طرح غزلیں کہو، تازہ بہ تازہ نو بہ نو


ہر اک صدی کے نام ہو، کوئی نرالا کام ہو

ایسے کتاب دل لکھو، تازہ بہ تازہ نو بہ نو


کیا حسن گلاندام ہے، جیسے چھلکتا جام ہے

اس پر خدا کی مہر ہو، تازہ بہ تازہ نو بہ نو


ابراہیم اشک


عارف اعظمی

 پیدائش:01 جنوری 1951


چمن والو حقیقت ہم سے بتلائی نہیں جاتی 

گلوں کے دل پہ جو بیتی وہ سمجھائی نہیں جاتی

 

چمن کا حسن بالآخر گلوں کی آبرو ٹھہرا 

یہ عزت شاہ راہ عام پہ لائی نہیں جاتی

 

غم دوراں کی الجھن ہو کہ وحشت ہو محبت کی 

شکستہ دل کی حالت بر زباں لائی نہیں جاتی

 

ارے کم ظرف مے نوشی کا یہ کوئی سلیقہ ہے 

سر محفل مئے گل رنگ چھلکائی نہیں جاتی

 

سجا دیتا ہوں خوابوں کے در و دیوار پہ اس کو 

وہ اک شے جو کسی صورت سے اپنائی نہیں جاتی

 

نہ پوچھو کیا نگاہ ناز نے دل پر اثر چھوڑا 

غزل کے شعر میں تاثیر وہ لائی نہیں جاتی

 

ہجوم شہر ہو عارفؔ کہ اپنے گھر کی خلوت ہو 

نہیں جاتی مگر اپنی یہ تنہائی نہیں جاتی 


عارف اعظمی


شمیم انور

 یوم پیدائش01 جنوری 1948


اپنا سایہ دیکھ کر میں بے تحاشہ ڈر گیا 

ہو بہ ہو ویسا لگا جو میرے ہاتھوں مر گیا

 

ہلکے سے حسن تبسم کا بھی اندازہ ہوا 

بوجھ سارے دن کا لے کر جب میں اپنے گھر گیا

 

پھل لدے اس پیڑ پر پھر پڑ گیا پہرہ کڑا 

پتیوں کو چومتا جب سن سے اک پتھر گیا


کچھ مکینوں میں عجب تبدیلیاں پائی گئیں 

اس بڑی بلڈنگ میں جب کچھ روز وہ رہ کر گیا


تیلیوں کی سخت جانی اور مری جد و جہد 

پھر کہاں پرواز کی خواہش رہے جب پر گیا


اپنی آزادی پہ میں اک چور کا مشکور ہوں 

پیر جس چادر میں پھیلاتا تھا وہ لے کر گیا


شمیم انور 


انور محمد انور

 یوم پیدائش 16 جنوری


یہ جو سندر شباب بکتے ہیں

درحقیقت عذاب بکتے ہیں


جادو ٹونا بھی اک تجارت ہے

جس میں سارے سراب بکتے ہیں 


پیسے والے خرید لیتے ہیں

پر غریبوں کے خواب بکتے ہیں


حسن ہی جڑ ہے اس مصیبت کی

اس لیئے تو گلاب بکتے ہیں 


تم خریدار تو بنو انور

جسم تو بے حساب بکتے ہیں


انور محمد انور


محمد نعمت اللہ

 یوم پیدائش 16 جنوری 1986


بے جا سوال کرنے کی زحمت نہ کیجیے

اور مضمحل ہماری طبیعت نہ کیجیے


سلجھی ہیں کو ششوں سے مری الجھی گتھیاں

انسان ہوں جناب میں حیرت نہ کیجیے


مقتول کے خلاف سبھی کر کے فیصلے

 پامال اپنی عزت و عظمت نہ کیجیے

 

 جو کچھ ملا ہے رب کا کریں شکر یہ ادا

 حد سے زیادہ پانے کی حسرت نہ کیجیے

 

اک التجا ہے آپ سے اے وقت کے امیر

خالی کسی غریب کو رخصت نہ کیجیے


 پہلے جناب کیجیے اپنا محاسبہ

 نعمت کو ورنہ آپ نصیحت نہ کیجیے 

 

محمد نعمت اللہ


گویا جہان آبادی

 یوم پیدائش 16 جنوری 1892


عشق خود اپنے ہی نظاروں میں حیراں نکلا

اُن کے پردےمیں بھی در پردہ غمِ جان نکلا


 کتناسامانِ جنوں بے سروساماں نکلا

  چاک دامن نہ ہوا تھا کہ گر یباں نکلا

  

کس کا مشتاق تھا یارب وہ لہو کا قطرہ

جو تڑپتا ہوا نزدیکِ رگ جاں نکلا


 راہِ ساحل نظر آئی نہ جہاں ظلمت میں

  غیب سے ایک ستارا سرِ مژگاں نکلا

  

  آنکھ یہ بارہا سمجھی کہ بہار آئی ہے

    اشکِ رنگیں کا تبسم بھی گلستاں نکلا

    

  اِس لطافت کی کوئی حد بھی ہے اللہ اللہ

    موجِ ہر گل میں کوئی حُسن خراماں نکلا

    

  ماسویٰ کا تو فسانہ غم ساحل میں کہاں

    اپنی ہستی ہر اکِ اشک گریزاں نکلا

    

  شکر کے معنٰی سمجھ جنت احساس نہ پوچھ

    اشک خوب آنکھ سے فردوسِ بداماں نکلا

    

  انجم و مہرومہ و شعلہ و پروانہ و دل

    پی کے میخانے سے جو نکلا و رقصاں نکلا

    

   گویا جہان آبادی


سہیل ارشد

 یوم پیدائش 15 جنوری 1966


مینار جو بچا تھا زمیں بوس ہو گیا 

اجداد کے سروں کی علامت بھی گر گئی 


سہیل ارشد


آصف جاوید

 یوم پیدائش 15 جنوری 1975


تری رہبری میں اکثر لُٹے کارواں دلوں کے

ارے عشق باز آ جا نہ لے امتحاں دلوں کے


کوئی پوچھتا تو کہتے کہ ہمارا روگ کیا ہے

کہاں کھو گۓ بتاٶ تھے جو رازداں دلوں کے


در و بام پر اُگی ہے کوئی سبز سبز سی شے

نظر آ رہے ہیں مجھ کو یہاں کچھ نشاں دلوں کے


سوئے یار پاٶں اُٹھیں تو ہزار صدمے جاگیں

نکل آٸیں ہر طرف سے کٸ مہرباں دلوں کے


جنھیں زندگی کے بارے ذرا سوجھ بوجھ ٹھہری

وہی رہروانِ دل ہیں وہی قدر داں دلوں کے


ہو مباہلہ کی صورت کہ مناظرہ کا منظر

سدا سرخ رو ہوے ہیں تھے جو ترجماں دلوں کے


ہمیں بس جنوں کی دنیا ہی بھلی لگی ہے آصف

سو ہیں درد کے پجاری تو قصیدہ خواں دلوں کے


آصف جاوید 


ناشاد اورنگ آبادی

 یوم پیدائش 15 جنوری 1935


بھیجتا ہوں آپ کو اپنی پسندیدہ غزل 

تازہ تازہ ناشنیدہ اور نادیدہ غزل 


داستان حسن بھی ہے یہ سراپا حسن بھی 

سنگ مرمر سے مثال بت تراشیدہ غزل 


میرؔ غالبؔ ذوقؔ و مومنؔ پر بھی تھی جاں سے نثار 

تھی بہادر شاہ کی ہر چند گرویدہ غزل 


شہرۂ آفاق ہے اس کا جمال فکر و فن 

ساری اصناف سخن میں ہے جہاں دیدہ غزل 


پارہ پارہ ہو نہ جائے ماہ پارہ دیکھیے 

ہے ہوس ناکوں کے ہاتھوں آج رنجیدہ غزل 


شعر کی آمد نہیں ہوتی ہے کیا ناشادؔ اب 

شاعران‌ عصر تو کہتے ہیں پیچیدہ غزل


ناشاد اورنگ آبادی


عتیق احمد خان صبا

 یوم پیدائش 15 جنوری 1953


دوستی میں اس کے شامل بغض کا عنصر بھی تھا

پھول تھے ہاتھوں میں زیرِ آستیں خنجر بھی تھا


آج مجبوری نے مجھ کو رکھ دیا ہے کاٹ کر

ورنہ ان خود دار شانوں پر مرے اک سر بھی تھا


خوگرِ صحرا نوردی ہوگیا ہوں اس قدر

بھول بیٹھا ہوں کسی بستی میں میرا گھر بھی تھا 


کون بڑھتا پھر بھلا میری مدد کے واسطے

میرا دشمن صاحبِ زر اور طاقت ور بھی تھا


پھونک ڈالے جس نے کتنے ہی غریبوں کے چراغ

آگ کے شعلوں کی زد پر آج اس کا گھر بھی تھا


حوصلہ افزائی میں میری رہا جو پیش پیش

راہ کا میری وہی سب سے بڑا پتھر بھی تھا


میں ہی تنہا تو نہیں تھا عشق میں رسوا صباؔ

ایک چھوٹا ہی سہی الزام اس کے سربھی تھا


عتیق احمد خان صبا


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...