Urdu Deccan

Tuesday, August 23, 2022

قمر جلالوی

یوم پیدائش 19 اگست 1887

کب میرا نشیمن اہل چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں 
غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں 

اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو 
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں 

جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی واللہ تم اٹھ کے آ نہ سکے 
دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں 

بے وجہ نہ جانے کیوں ضد ہے ان کو شب فرقت والوں سے 
وہ رات بڑھا دینے کے لیے گیسو کو سنوارا کرتے ہیں 

پونچھو نہ عرق رخساروں سے رنگینئ حسن کو بڑھنے دو 
سنتے ہیں کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں 

کچھ حسن و عشق میں فرق نہیں ہے بھی تو فقط رسوائی کا
تم ہو کہ گوارا کر نہ سکے ہم ہیں کہ گوارا کرتے ہیں 

تاروں کی بہاروں میں بھی قمرؔ تم افسردہ سے رہتے ہو
پھولوں کو تو دیکھو کانٹوں میں ہنس ہنس کے گزارا کرتے ہیں

قمر جلالوی



اختر اورینوی

یوم پیدائش 19 اگست 1911

ہوا ہے تیری محبت کا حوصلہ ساقی 
مگر گراں ہے قناعت کا مرحلہ ساقی 

بلا کشان در مے کدہ کہاں جائیں 
قدم قدم ہے قیامت کا فاصلہ ساقی 

مری حیات کا سب کچھ فضائے مے خانہ 
سبو و جام ترا ایک مشغلہ ساقی 

یہ دشت‌ تشنہ لبی ہے شکستہ خیمے ہیں 
کہاں گیا مرے ارماں کا قافلہ ساقی 

اماں سے دور ہے صحرائے آرزو کی تپش 
حیات سوز تمنا کا آبلہ ساقی 

حیات کیا ہے محبت ہے کیوں جمال ہے کیا 
نہ حل ہوا کبھی اخترؔ کا مسئلہ ساقی

اختر اورینوی


 

کمال سالارپوری

یوم وفات 18 اگست 2010

غارت گری حیات کا عنواں ہے آجکل
ہر سانس ایک خنجر بُرّاں ہے آجکل

پھر اقتدار وقت زلیخا کے ساتھ ہے
پھر ابتلا میں یوسفِ کنعاں ہے آجکل

گونگے غزل سرا ہیں بہر گام بزم میں
پھر قفل بر زبانِ سخنداں ہے آجکل

 بہکی ہوئی نگاہِ محبت ہے قیس کی
 بھٹکا ہوا تصورِ جاناں ہے آجکل
 
 ہر جہل مانگتا ہے خراجِ سلام علم
 ہر خار و خس بہار پہ خنداں ہے آجکل
 
  ہر شب کو ادعائے سحر ہے خدا کی شان
ہر چور اک عظیم نگہباں ہے آجکل

کمال سالارپوری

 


طاہرہ رباب

یوم پیدائش 18 اگست 1951

ہاں بدل جاتی ہے ہر دور میں رسم دنیا
وقت کے بحر میں اعزاز کا دھارا جائے

میں ثناء خوان محمدؐ ہوں نصیبوں کا دھنی  
مجھکو اس عہد کا سلطان پکارا جائے

وہ جو شامل ہیں کہیں زعم کی نادانی میں
ان کو بھی بحر مکافات میں ڈالا جائے

مطمئن قلب کی معراج وہ کیسے سمجھے
 جس کا ادراک نہ عرفاں مین اتارا جائے

اپنی ہر بات ہوخالق کی رضا میں محصور 
 اس طرح اپنے مقدر کو سنوارا جائے

لے رباب ازن تو یزداں سے کہ ہے دور فتن
قوتء شر کو بدل تیرا اشارہ جائے

طاہرہ رباب



عشرت نبی نگری

یوم پیدائش 18 اگست 1940

رقصاں ہے یہاں زیست وہاں موت ہے خنداں
محفل کا سماں اور ہے مقتل کی فضا اور

عشرت نبی نگری


 

سحر علی

یوم پیدائش 18 اگست 1985

ذرا بھی خوف نہیں ہے اسے خسارے کا
وہ آدمی ہے کسی اور ہی ستارے کا

نہ جانے میز پہ کب سے اداس بیٹھی ہوں
جواب نہ میں جو آیا ہے استخارے کا

ہیں اس مزاج کی سب تلخیاں قبول مجھے
کوئی ملا تو سہی مجھ کو اپنے وارے کا

وہ کینوس پہ بناتا رہا حسیں منظر
ہماری آنکھ میں ڈوبے ہوئے ستارے کا

انا کی جنگ تو دونوں ہی ہار بیٹھے ہیں 
میں اپنا سوگ مناؤں کہ اپنے پیارے کا

سحر علی


 

افضل حسین افضل

یوم پیدائش 18 اگست 1950

لب دریا ہوں لیکن تشنگی محسوس کرتا ہوں 
میں اپنے گھر میں خود کو اجنبی محسوس کرتا ہوں 

خدا جانے وفور شوق کا یہ کیسا عالم ہے 
نشاط و غم میں یکساں بے خودی محسوس کرتا ہوں 

کسی سے بے تکلف گفتگو ہوتی ہے محفل میں 
مگر خلوت میں لفظوں کی کمی محسوس کرتا ہوں 

کبھی مخلص کبھی حاسد کبھی مے کش کبھی زاہد 
ہمہ صورت میں خود کو آدمی محسوس کرتا ہوں 

تیرے افکار کی گہرائیوں کا کون ہے منکر 
مگر افضلؔ میں تیری شاعری محسوس کرتا ہوں

افضل حسین افضل



غلام رسول آغا

یوم پیدائش 17 اگست 1889

تلخیٔ زیست کا کیا گلہ کیجئے
جیسی ہونی تھی اپنی بسر ہوگئی

غلام رسول آغا



عاشق فیض آبادی

یوم پیدائش 17 اگست 1928

دیوانگی پہ اپنی کیوں ناز ہو نہ ہم کو
یہ بھی تو زندگی کی اک دلنشیں ادا ہے

عاشق فیض آبادی



Sunday, August 21, 2022

گوہر رضا

یوم پیدائش 17 اگست 1956

دھرم میں لپٹی وطن پرستی کیا کیا سوانگ رچائے گی
مسلی کلیاں، جھلسے گلشن زرد خزاں دکھلائے گی

یورپ جس وحشت سے اب بھی سہما سہما رہتا ہے
خطرا ہے وہ وحشت میرے ملک میں آگ لگائے گی

جرمن گیس کدوں سے اب تک خون کی بدبو آتی ہے
اندھی وطن پرستی ہم کو اس رستے لے جائے گی

اندھے کنویں میں جھوٹ کی ناؤ تیز چلی تھی مان لیا
لیکن باہر روشن دنیا تم سے سچ بلوائے گی

نفرت میں جو پلے بڑھے ہیں نفرت میں جو کھیلے ہیں
نفرت دیکھو آگے آگے ان سے کیا کروائے گی

فنکاروں سے پوچھ رہے ہو کیوں لوٹائے ہیں سمان
پوچھو کتنے چپ بیٹھے ہیں شرم انہیں کب آئے گی

یہ مت کھاؤ وہ مت پہنو عشق تو باکل کرنا مت
دیش دروہ کی چھاپ تمہارے اوپر بھی لگ جائے گی

یہ مت بھولو اگلی نسلیں روشن شعلہ ہوتی ہیں
آگ کریدوگے چنگاری دامن تک تو آئے گی

گوہر رضا


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...