Urdu Deccan

Thursday, February 4, 2021

شفقت منظور امبر

 یوم پیدائش کی مبارکباد

03 فروری 1988


خیالوں میں وہ چہرہ جب بناؤ ں گا

گھٹا زلفیں گلابی لب بناؤ ں گا 


ستاروں کے علاوہ گر بنایا کچھ

خیالوں کی ردا پر شب بناؤ ں گا


رواں جھرنے ھوا شبنم گلابی پھول

خیالوں کی میں دنیا سب بناؤ ں گا


چنابی نقش تو مجھ کو بنانے دو

گھڑا تم نے کہا تو تب بناؤ ں گا


شفقت منظور امبر


قمر اقبال

 یوم پیدائش 02 فروری 1944

 

یوں قید ہم ہوئے کہ ہوا کو ترس گئے

اپنے ہی کان اپنی صدا کو ترس گئے 


تھے کیا عجیب لوگ کہ جینے کے شوق میں

آب حیات پی کے ہوا کو ترس گئے 


کچھ روز کے لیے جو کیا ہم نے ترک شہر

باشندگان شہر جفا کو ترس گئے 


مردہ ادب کو دی ہے نئی زندگی مگر

بیمار خود پڑے تو دوا کو ترس گئے 


خالی جو اپنا جسم لہو سے ہوا قمرؔ

کتنے ہی ہاتھ رنگ حنا کو ترس گئے

 

قمر اقبال


کشور ناہید

 یوم پیدائش 03 فروری 1940


ترے قریب پہنچنے کے ڈھنگ آتے تھے

یہ خود فریب مگر راہ بھول جاتے تھے


ہمیں عزیز ہیں ان بستیوں کی دیواریں

کہ جن کے سائے بھی دیوار بنتے جاتے تھے


ستیز نقش وفا تھا تعلق یاراں

وہ زخمۂ رگ جاں چھیڑ چھیڑ جاتے تھے


وہ اور کون ترے قرب کو ترستا تھا

فریب خوردہ ہی تیرا فریب کھاتے تھے


چھپا کے رکھ دیا پھر آگہی کے شیشے کو

اس آئینے میں تو چہرے بگڑتے جاتے تھے


اب ایک عمر سے دکھ بھی کوئی نہیں دیتا

وہ لوگ کیا تھے جو آٹھوں پہر رلاتے تھے


وہ لوگ کیا ہوئے جو اونگھتی ہوئی شب میں

در فراق کی زنجیر سی ہلاتے تھے


کشور ناہید


قلیل جھانسوی

 یوم پیدائش 03 فروری 1951


جب وہ جھگڑے مٹا چکے ہوں گے

خون کتنا بہا چکے ہوں گے 


چاند کا زخم دیکھنے والے

شمعیں کتنی بجھا چکے ہوں گے 


کل کے سپنوں کو پالنے والو

کل تو سپنے رلا چکے ہوں گے 


ان کے تم دوست ہو کہ دشمن ہو

وہ جو مقتل میں جا چکے ہوں گے 


بس قلیلؔ ان کی یاد باقی ہے

دشمنی جو نبھا چکے ہوں گے

 

قلیل جھانسوی


شوکت تھانوی

 یوم پیدائش 03 فروری 1904


ہو راہزن کی ہدایت کہ راہبر کے فریب

مری نگاہ نے کھائے نظر نظر کے فریب 


یہ بت کدہ یہ کلیسا یہ مسجدیں یہ حرم

یہ سب فریب ہیں اور ایک سنگ در کے فریب 


سمجھ رہے تھے کہ اشکوں سے ہوگا دل ہلکا

نہ جانتے تھے کہ ہیں یہ بھی چشم تر کے فریب 


پتہ چلا کہ ہر اک گام میں تھی اک منزل

کھلے ہیں منزل مقصود پر سفر کے فریب 


انہیں کا نام محبت انہیں کا نام جنوں

مری نگاہ کے دھوکے تری نظر کے فریب


شوکت تھانوی


پریم کمار نظر

 یوم پیدائش 03 فروری 1934


پاگل ہوا کے دوش پہ جنس گراں نہ رکھ

اس شہر بے لحاظ میں اپنی دکاں نہ رکھ 


اس کا دیا ہوا ہے جسم اس کے سپرد کر

رکھنے کی اس ہوس میں تو دونوں جہاں نہ رکھ 


اس کا زوال دیکھ کے وہ سلطنت نہ چھوڑ 


اس زندگی میں لمحۂ سود و زیاں نہ رکھ 


وہ فصل پک چکی تھی اب اس کا بھی کیا قصور

تجھ سے کہا تھا جیب میں چنگاریاں نہ رکھ 


وہ جسم ہے تو اس کو فقط جسم ہی سمجھ

پردا کسی فریب کا پھر درمیاں نہ رکھ


آئے گی ہر طرف سے ہوا دستکیں لیے

اونچا مکاں بنا کے بہت کھڑکیاں نہ رکھ


وہ جسم کھل رہا ہے گرہ در گرہ نظرؔ

یہ تیر چوک جائے گا ڈھیلی کماں نہ رکھ


پریم کمار نظر


کیف احمد کیفی

 یوم پیدائش کی مبارک باد

 02 فروری 1959


پہلے خود کو ٹٹول کر دیکھو

تب زباں اپنی کھول کر دیکھو


یہ ہوائیں کہاں سے آتی ہیں

ان دریچوں کو کھول کر دیکھو


عزم والو اسی اندھیرے میں

راستے کو ٹٹول کر دیکھو


اب زمانہ بدل گیا کتنا

ہوں جو آنکھیں تو کھول کر دیکھو


زندگی کی تہوں کو اے کیفی 

میری مانو تو کھول کر دیکھو


کیف احمد کیفی


Tuesday, February 2, 2021

قاضی انور

یوم پیدائش 02 فروری 1975


اگر آزار زندہ ہیں

تو سمجھو یار زندہ ہیں


وہاں تہذیب روشن ہے 

جہاں کردار زندہ ہیں


کڑی ہے دھوپ سورج کی

پس دیوار زندہ ہیں


زمانے میں محبت کے 

ابھی آثار زندہ ہیں


تری چاہت کا جادو ہے 

مرے اشعار زندہ ہیں


بدن مفلوج ہے انور

مگر افکار زندہ ہیں 


قاضی انور


Monday, February 1, 2021

ضیا جالندھری

 یوم پیدائش 02 فروری 1923


گماں تھا یا تری خوشبو یقین اب بھی نہیں

نہیں ہوا پہ بھروسہ تو کچھ عجب بھی نہیں 


کھلیں تو کیسے کھلیں پھول اجاڑ صحرا میں

سحاب خواب نہیں گریۂ طلب بھی نہیں 


ہنسی میں چھپ نہ سکی آنسوؤں سے دھل نہ سکی

عجب اداسی ہے جس کا کوئی سبب بھی نہیں 


ٹھہر گیا ہے مرے دل میں اک زمانے سے

وہ وقت جس کی سحر بھی نہیں ہے شب بھی نہیں 


تمام عمر ترے التفات کو ترسا

وہ شخص جو ہدف ناوک غضب بھی نہیں 


گلا کرو تو وہ کہتے ہیں یوں رہو جیسے

تمہارے چہروں پہ آنکھیں نہیں ہیں لب بھی نہیں 


مفاہمت نہ کر ارزاں نہ ہو بھرم نہ گنوا

ہر اک نفس ہو اگر اک صلیب تب بھی نہیں 


برا نہ مان ضیاؔ اس کی صاف گوئی کا

جو درد مند بھی ہے اور بے ادب بھی نہیں


ضیا جالندھری


ارشد محمود ارشد


 یوم پیدائش01 فروری 1975


مریضِ عشق تھےجیتے رہے دوا کے بغیر

بھنور میں ڈال دی ناؤ بھی ناخدا کے بغیر 


بجھا رہی ہے اگر وہ تو پھر بتاؤ مجھے 

کبھی چراغ بھی جلتا ہے کیا ہَوا کے بغیر 


بدن تو ٹوٹ رہا تھا مگر انا تھی ابھی

تمہارے در سے پلٹ آئے ہم صدا کے بغیر 


وہ مثلِ خواب تھا آنکھیں کھلیں تو چھوڑ گیا 

کہاں سے ڈھونڈ کے لاتا میں نقشِ پاکے بغیر


بچھڑ کے مجھ سے اُسے کوئی دیوتا نہ ملا

جوانی کاٹ دی میں نے بھی اپسرا کے بغیر 


گلہ میں کس سے کروں اب جو تُو ملا ہی نہیں

اُٹھائے ہاتھ تھے میں نے مگر دعا کے بغیر 


گناہ گار ہے ارشد یہ مانتا ہے مگر

پرندہ پَر کہاں مارے تری رضا کے بغیر 


ارشد محمود ارشد

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...