Urdu Deccan

Wednesday, March 10, 2021

ثمر فرید ثمر

حسرتیں دل کی جلا کے دیکھنا
روز اک پیکر بنا کے دیکھنا

ہجر کے جاتے ہوئے لمحات کو
مسکرانا مسکرا کے دیکھنا

جانچنی ہو گر حقیقت دل کی تو
ذہن و دل سے پھر ہٹا کے دیکھنا

ہاتھ رکھ کے ہاتھ پر خود اپنے ہی
سامنے اس کو بٹھا کے دیکھنا

ہے ترے دیدار کی خاطر ثمرؔ
تجھکو خوابوں میں بلا کے دیکھنا

ثمر فرید ثمرؔ

شاد سجاد

پت جڑ کے موسم میں کیسی ہلچل ہے
ہر اک منظر جلتا گرتا بے کل ہے

میں نے بستی سے ہجرت اب کر ڈالی
اس سے بہتر تپتا صحرا جنگل ہے

میرا شیوہ سب سے ہٹ کے ہے یارو
ورنہ دنیا طوفاں بجلی دلدل ہے

کربل مقتل قاتل کافر حق پر خون
 اب بھی قصہ جاری ساری پل پل ہے

میں نے دیکھے ہیں جتنے بھی سندر سب
تاباں عالی سندر ماں کا آنچل ہے

وہ ناچی پھر زرداروں کے آنگن میں
پائل ٹوٹی ٹوٹا دل جاں گھائل ہے

جانے کس نے دستک دی پھر یادوں پر
دامن تر ہے بہہ نکلا سب کاجل ہے

شاد سجاد

#urdupoetry #urdudeccan #اردودکن #اردو #شعراء #پیدائش #شاعری #اردوشاعری #اردوغزل #urdugazal #urdu #poetrylover #poetry #rekhta #شاعر #غزل #gazal

ایس ڈی عابد

 اُنہیں ہم حالِ دل اپنا بتا کر دیکھ لیتے ہیں 

چلیں ہم بھی مقدر آزما کر دیکھ لیتے ہیں 


وہ آئیں یا نہ آئیں منحصر ہے اُن کی مرضی پر 

انہیں ہم نے بُلانا ہے بُلا کر دیکھ لیتے ہیں 


گر ایسا ہو پلٹ آئیں کسی بھی وہ بہانے سے 

بہانہ ہی بنانا ہے بنا کر دیکھ لیتے ہیں 


کہاں طاقت ہے اپنے دل میں اُن کو بھول جانے کی 

یہ ممکن تو نہیں پھر بھی بُھلا کر دیکھ لیتے ہیں 


مکمل حق اُنہیں حاصل ہے ہم سے روٹھ جانے کا 

وہ مانیں یا نہ مانیں ہم منا کر دیکھ لیتے ہیں 


یہ ممکن تو نہیں ہر بار ہی اپنا خسارہ ہو

چلو اک بار پھر سے دل لگا کر دیکھ لیتے ہیں


سُنا ہے شاعری سے اُن کو رغبت ہو گئی عابدؔ 

اُنہیں اشعار چند اپنے سُنا کر دیکھ لیتے ہیں  


 ایس،ڈی،عابدؔ


ذوالفقار علی ذُلفی

 تمہارے حُسن کے دِلکش نظارے  مار  دیتے ہیں

کبھی گیسُو کبھی عارِض تمہارے  مار دیتے ہیں


ہے  تیری  مسکراہٹ   کا  اثر   اپنی  جگہ  لیکن

ہمیں تیری  نِگاہوں  کے  اِشارے  مار  دیتے  ہیں


بڑے  معصُوم ہیں  قاتل ہمارے  مار  کے ہم  کو

وہ کہتے ہیں  مقدر  کے  ستارے  مار  دیتے  ہیں


ہمارے  درد   رہتے  ہیں  ہمیشہ   بے اثر   ہم  پر

بہاٶ  مت  ہمیں  آنسو  تمہارے  مار  دیتے ہیں


کہاں دُشمن میں دَم  اتنا  ہمارے ساتھ  ٹکرائے

ہمیں  تو   چاہنے   والے  ہمارے   مار  دیتے  ہیں


محبت  کرنے  والوں  کے  مقدر  بھی  نرالے  ہیں

جو  بچ نِکلیں بھنور سے تو کنارے  مار دیتے ہیں


کہاں سے درد لاتا  ہے غزل میں اِس  قدر ذُلفی

تری غزلیں  ترے  اشعار  سارے  مار  دیتے ہیں


 ذوالفقار علی ذُلفی 


سرِ محفل تجھے سپنوں کی رانی میں نہیں کہتا

جو آنکھوں سے بتاتا ہوں زبانی میں نہیں کہتا


نہ ہو جس آنکھ کو پہچان کچھ اپنے پرائے کی

اُسے پاگل سمجھتا ہوں ٫ سیانی میں نہیں کہتا


یہاں مطلب کی خاطر ہی محبت لوگ کرتے ہیں

حقیقت ہے کوئی جھوٹی کہانی میں نہیں کہتا


مِری مطلب پرستوں سے بِگڑ جاتی ہے تب اکثر

کِسی کم ظرف کو جب خاندانی میں نہیں کہتا


مِلو جب بھی تو مِلتے ہی ذرا سا مسکرا دینا

مجھے دو اپنے دل پر حکمرانی میں نہیں کہتا


نجانے عشق ہو جائے اُسے میری غزل پڑھ کر

ابھی تک تو اُسے اپنی دِوانی میں نہیں کہتا


چُھپا کے تیر پھولوں میں تمہارا پھینکنا مجھ پر

اِسے ذُلفی محبت کی نشانی میں نہیں کہتا


ذوالفقار علی ذُلفی


علی جواد زیدی

 یوم پیدائش 10 مارچ 1916


ہجوم عیش و طرب میں بھی ہے بشر تنہا

نفس نفس ہے مہاجر نظر نظر تنہا


یہ میرا عکس ہے آئینے میں کہ دشمن ہے

اداس تشنۂ ستم دیدہ بے خبر تنہا


یہ قتل گاہ بھی ہے بال پن کا آنگن بھی

بھٹک رہی ہے جہاں چشم معتبر تنہا


برا نہ مان مرے ہم سفر خدا کے لئے

چلوں گا میں بھی اسی راہ پر مگر تنہا


نہ جانے بھیگی ہیں پلکیں یہ کیوں دم رخصت

کہ گھر میں بھی تو رہا ہوں میں عمر بھر تنہا


نہ بزم خلوتیاں ہے نہ حشر گاہ عوام

اندھیری رات کروں کس طرح بسر تنہا


کسی غزل کا کوئی شعر گنگناتے چلیں

طویل راہیں وفا کی ہیں اور سفر تنہا


نثار کر دوں یہ پلکوں پہ کانپتی یادیں

ترا خیال جو آئے دم سحر تنہا


جدھر بھی جاؤ کوئی راہ روک لیتا ہے

وفا نے چھوڑی نہیں ایک بھی ڈگر تنہا


برت لو یارو برتنے کی چیز ہے یہ حیات

ہو لاکھ ترسی ہوئی تلخ مختصر تنہا


امید کتنی ہی مایوسیوں کی مشعل ہے

ہو رہ گزار میں جیسے کوئی شجر تنہا


جدھر سے گزرے تھے معصوم حسرتوں کے جلوس

سنا کہ آج


ہے زیدیؔ وہی ڈگر تنہا


علی جواد زیدی

کنور مہندر سنگھ بیدی

 یوم پیدائش 09 مارچ 1909


ہم کسی دین سے ہوں، قائلِ کردار تو ہیں

ہم ثناء خواںِ شہِ حیدرِ کرارؐ تو ہیں

نام لیوا ہیں محمدؐ کے پرستار تو ہیں

یعنی مجبور بہ احمد مختار تو ہیں

عشق ہو جائے کسی سے، کوئی چارہ تو نہیں

صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں


میری نظروں میں تو اسلام محبت کا ہے نام

امن کا، آشتی کا مہر و مروت کا ہے نام

وسعت قلب کا ، اخلاص و اخوت کا ہے نام

تختہِ دار پہ بھی حق و صداقت کا ہے نام

میرا اسلام نِگہ و نام میں ہے، بد نام نہیں

بات اتنی ہے کہ اب عام یہ اسلام نہیں


حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لیے منقبت


تُو تو ہر دین کے، ہر دور کے انسان کا ہے

کم کبھی بھی تیری توقیر نہ ہونے دیں گے

ہم سلامت ہیں زمانے میں تو انشاء اللہ

تجھ کو اک قوم کی جاگیر نہ ہونے دیں گے


امام حسین ؓ کے بارے میں


زندہ اسلام کو کیا تُو نے

حق و باطل دِکھا دیا تُو نے

جی کے مرنا تو سب کو آتا تھا

مر کے جینا سِکھا دِیا تُو نے


لب پہ اے شاہِ شہیداں ؓ تیرا نام آتا ہے

سامنے ساقیِ کوثرؐ لیے جام آتا ہے

مجھ کو بھی اپنی غلامی کا شرف دے دیجیو

کھوٹا سِکہ بھی تو آخر کبھی کام آتا ہے


( غزل)


ابھی وہ کمسن ابھر رہا ہے ابھی ہے اس پر شباب آدھا

ابھی جگر میں خلش ہے آدھی ابھی ہے مجھ پر عتاب آدھا


حجاب و جلوہ کی کشمکش میں اٹھایا اس نے نقاب آدھا

ادھر ہویدا سحاب آدھا ادھر عیاں ماہتاب آدھا


مرے سوال وصال پر تم نظر جھکا کر کھڑے ہوئے ہو

تمہیں بتاؤ یہ بات کیا ہے سوال پورا جواب آدھا


لپک کے مجھ کو گلے لگایا خدا کی رحمت نے روز محشر

ابھی سنایا تھا محتسب نے مرے گنہ کا حساب آدھا


بجا کہ اب بال تو سیہ ہیں مگر بدن میں سکت نہیں ہے

شباب لایا خضاب لیکن خضاب لایا شباب آدھا


لگا کے لاسے پہ لے کے آیا ہوں شیخ صاحب کو مے کدے تک

اگر یہ دو گھونٹ آج پی لیں ملے گا مجھ کو ثواب آدھا


کبھی ستم ہے کبھی کرم ہے کبھی توجہ کبھی تغافل

یہ صاف ظاہر ہے مجھ پہ اب تک ہوا ہوں میں کامیاب آدھا


کسی کی چشم سرور آور سے اشک عارض پہ ڈھل رہا ہے

اگر شعور نظر ہے دیکھو شراب آدھی گلاب آدھا


پرانے وقتوں کے لوگ خوش ہیں مگر ترقی پسند خاموش

تری غزل نے کیا ہے برپا سحرؔ ابھی انقلاب آدھا


کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر


قمر جلال آبادی

 لوگ کہتے ہیں کہ تہذیب جواں ہے یارو

کوئی سمجھائے کہ تہذیب کہاں ہے یارو


وہ عیاں ہوتے ہوئے بھی تو نہاں ہے یارو

کیا یقیں ہے کہ یقین پر بھی گماں ہے یارو


جو یہاں ہوگا فقط اُس کی رضا سے ہوگا

یہ جہاں اپنا نہیں اُس کا جہاں ہے یارو


ساری دنیا میں اُسے ڈھونڈ کے گھر لوٹے ہیں

اور آنگن ہی میں وہ جلوہ کناں ہے یارو


زندگی اُس کی وفا، موت جفا ہے اُس کی

جو مسیحا ہے وہی دشمنِ جاں ہے یارو


پھینکا دریا میں جو کنکر تو بڑا شور ہوا

دل کی گہرائی میں آواز کہاں ہے یارو


ایک ٹھوکر لگی کیا جانیے کیا ٹوٹ گیا

زندگی قرض کے شیشوں کی دوکاں ہے یارو


قمر جلال آبادی


Monday, March 8, 2021

فیض انور

 یوم پیدائش 09 مارچ 1965


کوئی فریاد ترے دل میں دبی ہو جیسے

تو نے آنکھوں سے کوئی بات کہی ہو جیسے


جاگتے جاگتے اک عمر کٹی ہو جیسے

جان باقی ہے مگر سانس رکی ہو جیسے


ہر ملاقات پہ محسوس یہی ہوتا ہے

مجھ سے کچھ تیری نظر پوچھ رہی ہو جیسے


راہ چلتے ہوئے اکثر یہ گماں ہوتا ہے

وہ نظر چھپ کے مجھے دیکھ رہی ہو جیسے


ایک لمحے میں سمٹ آیا ہے صدیوں کا سفر

زندگی تیز بہت تیز چلی ہو جیسے


اس طرح پہروں تجھے سوچتا رہتا ہوں میں

میری ہر سانس ترے نام لکھی ہو جیسے


فیض انور


ڈاکٹر سلیم محی الدین


چراغ تو بلا کے ہیں

مگر نئی ہوا کے ہیں


ہمیں نصیب شہرتیں

وہ آبرو بچا کے ہیں


عجب طرح کا ہجر ہے

میاں یہ دن وبا کے ہیں


ہیں پانیوں پہ چل رہے

جو نیکیاں بہا کے ہیں


وہیں ہے لوٹنا جہاں

نشاں مری خطا کے ہیں


ستارے دیکھتے ہو کیا

تمام دن خدا کے ہیں


اسی کے در پڑے رہے

اسے لگا سدا کے ہیں


ڈاکٹر سلیم محی الدین


#urdupoetry #urdudeccan #اردودکن #اردو #شعراء #پیدائش #شاعری #اردوشاعری #اردوغزل #urdugazal #urdu #poetrylover #poetry #rekhta #شاعر #غزل #gazal

ظفر کلیم

 کیا جانے کیوں، لیکن جب سے عقبی کی تفسیر سنی

اک مردہ بچے کی صورت جان رہا ہوں دنیا کو

ظفؔر کلیم


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...