Urdu Deccan

Sunday, March 28, 2021

سراج الدین ظفر

 یوم پیدائش 25 جنوری 1912


میں نے کہا کہ تجزیۂ جسم و جاں کرو

اس نے کہا یہ بات سپرد بتاں کرو


میں نے کہا کہ بہار ابد کا کوئی سراغ

اس نے کہا تعاقب لالہ رخاں کرو


میں نے کہا کہ صرف دل رائیگاں ہے کیا

اس نے کہا آرزوئے رائیگاں کرو


میں نے کہا کہ عشق میں بھی اب مزا نہیں

اس نے کہا کہ از سر نو امتحاں کرو


میں نے کہا کہ اور کوئی پند خوش گوار

اس نے کہا کہ خدمت پیر مغاں کرو


میں نے کہا ہم سے زمانہ ہے سر گراں

اس نے کہا کہ اور اسے سر گراں کرو


میں نے کہا کہ زہد سراسر فریب ہے

اس نے کہا یہ بات یہاں کم بیاں کرو


میں نے کہا کہ حد ادب میں نہیں ظفرؔ

اس نے کہا نہ بند کسی کی زباں کرو


سراج الدین ظفر


حامد حسن قادری

 یوم پیدائش 25 مارچ 1887

نظم پیارا دیس


دیس اپنا ہم کو پیارا کیوں نہ ہو 

دل فدا اس پر ہمارا کیوں نہ ہو 


''ہند'' سے بڑھ کر نہیں کوئی زمین 

گو جہاں جنت ہی سارا کیوں نہ ہو 


کہتے ہیں جس چیز کو آب حیات 

پھر وہ شے گنگا کی دھارا کیوں نہ ہو 


جس نے پھیلایا جہاں میں نور علم 

آنکھ کا دنیا کی تارا کیوں نہ ہو 


کب مٹا سکتا ہے ہم کو آسماں 

گو وہ دشمن ہی ہمارا کیوں نہ ہو

 

ہندو و مسلم کو لڑتے دیکھ کر 

رنج سے دل پارا پارا کیوں نہ ہو 


ہم نے یہ مانا کبھی لڑ بھی لیے 

از سر نو بھائی چارہ کیوں نہ ہو

 

کیوں نہ ہو الفت عداوت کیوں رہے 

دشمنی کیوں ہو مدارا کیوں نہ ہو


ہم ہیں ہندوستان کے سچے سپوت

دیس کی خدمت گوارا کیوں نہ ہو


حامد حسن قادری


سائل دہلوی

 یوم پیدائش 25 مارچ 1864


ہوتے ہی جواں ہو گئے پابند حجاب اور

گھونگھٹ کا اضافہ ہوا بالائے نقاب اور


جب میں نے کہا کم کرو آئین حجاب اور

فرمایا بڑھا دوں گا ابھی ایک نقاب اور


پینے کی شراب اور جوانی کی شراب اور

ہشیار کے خواب اور ہیں مدہوش کے خواب اور


گردن بھی جھکی رہتی ہے کرتے بھی نہیں بات

دستور حجاب اور ہیں انداز حجاب اور


پانی میں شکر گھول کے پیتا تو ہے اے شیخ

خاطر سے ملا دے مری دو گھونٹ شراب اور


ساقی کے قدم لے کے کہے جاتا ہے یہ شیخ

تھوڑی سی شراب اور دے تھوڑی سی شراب اور


سائلؔ نے سوال اس سے کیا جب بھی یہ دیکھا

ملتا نہیں گالی کے سوا کوئی جواب اور


سائل دہلوی


ریاض خارم

 شمع دل تم بجھانے آئے تھے

دولتِ دل چرانے آئے تھے


زندگی ساتھ لے کے میری جاں

ہم تو تجھ سے نبھانے آئے تھے


غیر سے مل کے وہ بدل گئی تھی

پھر بنانے بہانے آئے تھے


کیا ستم تھے مرے مقدر میں

دوست مجھ کو مٹانے آئے تھے


اپنا سب کچھ سمجھ لیا تھا اسے

کیسے کیسے زمانے آئے تھے


پیار کا نام پھر لیا نہ کبھی

ہوش ایسے ٹھکانے آئے تھے


ریاض حازم


عبد الماجد عادل آبادی

 نہیں کرتے جو لوگ اوروں کی عزت

اٹھانی پڑےگی انھیں خودبھی ذلت


شمار انکا بھی کجیے ظالموں میں

کہ کرتے ہیں جو ظالموں کی حمایت


وہ اک قصۂِ غم ہی پڑھتے رہے ہم

نہ بدلے ہے راوی نہ بدلے روایت


نگاہیں ملانا ملاکر چرانا

 یہ معصومیت ہے یا کوئی شرارت


تم اک بار بولی لگاکر تو دیکھو

بکے گی صحافت عدالت حکومت


خدا دے گا بے شک تمہیں اس کا بدلا

کرو کام کوئی رکھو صاف نیت


یوں بیٹھے بٹھائے نہیں ملتا کچھ بھی

کہا سچ کسی نے ہے حرکت میں برکت


مزاج اپنا ہے دوستو سیدھا سادا

کہ کرتے نہیں ہم کسی سے سیاست


بڑا ہے وہ سب سے بڑی شان اس کی

بیاں کرسکے نہ کوئی اس کی عظمت


کسی کو بھی اپنے سے کم ترسمجھنا

حماقت ہے ہرگز نہ کرنا حماقت


حقیقت میں ہیں صاحبِ زر وہی لوگ

جنھیں مل گئی ہے ہدایت کی دولت


کٹے زیست حکمِ خدا کے مطابق

نہ ہو کام کوئی خلافِ شریعت


میں شاعر ہوں میرا فریضہ ہے ماجؔد

بیاں کرنا ہر دم حقیقت صداقت


عبدالماجد عادل آبادی


حاشر افنان

 اگر تو خدا کا نہیں ہے

قسم سے کسی کا نہیں ہے


محمدﷺ وہاں پر ہے پہنچے

جہاں کوئی پہنچا نہیں ہے


خدایا ترے اس جہاں میں 

 کوئی بھی تو اپنا نہیں ہے


بہت سے حسیں لوگ دیکھے

مگر کوئی تجھ سا نہیں ہے


جسے تو سمجھتا ہے اپنا

نہیں ہے وہ تیرا نہیں ہے


سخن ور بہت ہم نے دیکھے 

کوئی تم سا دیکھا نہیں ہے


تو کس کی زباں بولتا ہے 

ترا تو یہ لہجہ نہیں ہے 


مرے رب کی خیرات تو ہے 

کسی کا تو صدقہ نہیں ہے


نہیں کھیل تو میرے دل سے 

مرا دل کھلونا نہیں ہے 


اداسی میں کیوں مجھ کو حاشر

کوئی یاد آتا نہیں ہے


 حاشر افنان


حبیب جالب

 یوم پیدائش 24 مارچ 1928


تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا

اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا


کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ

وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا


آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے

کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا


اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو

اک زمانے میں مزاج ان کا سر عرش بریں تھا


چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالبؔ نہیں بھولے

تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا


حبیب جالب


بشیر فاروق

 یوم پیدائش 23 مارچ 1939


وہ ستم پرور بہ چشم اشک بار آ ہی گیا

چاک دامانی پہ میری اس کو پیار آ ہی گیا


مٹتے مٹتے مٹ گئی جان وفا کی آرزو

آتے آتے بے قراری کو قرار آ ہی گیا


چپکے چپکے مجھ پہ میری خامشی ہنستی رہی

روتے روتے جذب دل پر اختیار آ ہی گیا


کوئی وعدہ جس کا معنی آشنا ہوتا نہیں

پھر اسی وعدہ شکن پر اعتبار آ ہی گیا


یا الٰہی جذبۂ ہوش و خرد کی خیر ہو

منتظر جس کا جنوں تھا وہ دیار آ ہی گیا


بشیر فاروق


فرحت زاید

 یوم پیدائش 23 مارچ 1960


عورت ہوں مگر صورت کہسار کھڑی ہوں

اک سچ کے تحفظ کے لیے سب سے لڑی ہوں


وہ مجھ سے ستاروں کا پتا پوچھ رہا ہے

پتھر کی طرح جس کی انگوٹھی میں جڑی ہوں


الفاظ نہ آواز نہ ہم راز نہ دم ساز

یہ کیسے دوراہے پہ میں خاموش کھڑی ہوں


اس دشت بلا میں نہ سمجھ خود کو اکیلا

میں چوب کی صورت ترے خیمے میں گڑی ہوں


پھولوں پہ برستی ہوں کبھی صورت شبنم

بدلی ہوئی رت میں کبھی ساون کی جھڑی ہوں


فرحت زاہد


شاداب انجم کامٹی

 یوم پیدائش 23 مارچ 1975


مسرّتوں کا سماں دیر تک نہیں رہتا 

 دیا بجھے تو دھواں دیر تک نہیں رہتا


 شباب آتا ہے لیکر پروں کو ساتھ اپنے 

زمیں پہ کوئی جواں دیر تک نہیں رہتا


حساب سودِمحبّت کا یاد کیا رکھتے 

ہمیں تو یاد زیاں دیر تک نہیں رہتا 


مری خطاؤں کو گر وہ معاف کر دیتا 

تو دل۔ پہ بار گراں دیر تک نہیں رہتا


 فلاح اسکو بلاتی ہے۔ یہ خبر ہے جسے 

وہ گھر میں سن کے اذاں دیر تک نہیں رہتا


جو مشکلات کا کرتے ہیں سامنا ھنس کر 

یہ غم انہی کے یہاں دیر تک نہیں رہتا


 ہزار کوششیں کر لیں مگر زمانے سے 

کسی کا درد ۔نہاں دیر تک نہیں رہتا


یہ کیسا دور ہے آیا کہ ملک میں انجم 

کہیں گمان ِاماں دیر تک نہیں رہتا


شاداب انجم، کامٹی 


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...