Urdu Deccan

Saturday, April 3, 2021

قلی قطب شاہ

 بانی شہر حیدرآباد محمد قلی قطب شاہ کا یوم پیدائش 04 اپریل 1565،اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر 


پیا باج پیالا پیا جائے نا

پیا باج یک تل جیا جائے نا


کہی تھے پیا بن صبوری کروں

کھیا جائے اما کیا جائے نا


نہیں عشق جس دو بڑا کوڑ ہے

کدھیں اس سے مل بیسیا جائے نا


قطبؔ شہ نہ دے مج دوانے کو پند

دوانے کوں کچ پند دیا جائے نا


قلی قطب شاہ


رضوان ملک رض

 یوم پیدائش 03اپریل


ہر  اشک نیا  ہجر  مناتے  ہوئے گزرا

ہر لحظہ یہی قصہ سناتے ہوئے گزرا


اثبات  گل,راز کے  ہیں  اور  بھی آگے

گلشن سے جو گزرا یہ بتاتے ہوئے گزرا


اجداد شجرکاری میں رکھتے تھے مہارت 

میرا  بھی  سفر  پیڑ اگاتے  ہوئے  گزرا 


یہ لہر کسے زور دکھانے چلی آئی

یہ دل تو کناروں کو گراتے ہوئے گزرا


میت پہ مری بعد میں وہ آئے تو کہنا

جو گزرا تری راہ پہ آتے ہوئے گزرا.


وہ لمحہ ملاقات میں شامل نہ کیا کر

رض وہ جو کبھی آنکھ چراتے ہوئے گزرا۔


رضوانہ ملک


مصطفی ادیب

 یوم پیدائش 03 اپریل۔


کارآمدہ اک شخص تھا،بے کار میں  رکھا

ظالم تو نہ تھا،پھر بھی ستم گار میں رکھا


پر نوچ کے کرتا ہےقفَس سے مجھے آزاد

جس  نے مجھے اک عمر گرفتار میں رکھا


جَلادِ زَماں  کانپ نہ جاتا سرِ مقتل؟؟

اک شعلہ فشاں قوتِ للکار میں رکھا


 اب مہر سے مایوس ہے ظلمت  گہہ دوراں 

حیدر کا جنوں  جراتِ گُفتار میں رکھا


سر ہے تو رہے حرمتِ دَستار سلامت

ورنہ نہیں کچھ طُرّہ و دَستار میں رکھا


سَر دے کے سرِ دار ہی،جینے کا مزّہ ہے

کچھ بھی نہیں گیسوئے خمِ یار میں رکھا


مصطفیٰ ادیبؔ


Friday, April 2, 2021

ارشد شاہین

 یوم پیدائش 03 اپریل 1970


کہا تھا عشق کا پیشہ تُو اختیار نہ کر

جو کر لیا ہے تو اب زخمِ دل شمار نہ کر


پلٹ کے اب نہیں آئے گا وہ، یقیں کر لے

بھلا دے اس کو، مری مان، انتظار نہ کر


ذرا سی ٹھیس اسے چکنا چور کر دے گی

یہ دل ہے اور نہیں اتنا پائیدار، نہ کر


میں تیرے ساتھ ہوں لیکن یہ مشورہ ہے تجھے

تو میری ذات پر اتنا بھی اعتبار نہ کر


نکال اپنے لیے آپ ہی کوئی رستہ

بنی بنائی ہوئی رہ پہ انحصار نہ کر


بکھیر چار سو احساس کی مہک ارشد

سخن کی آڑ میں لفظوں کا کاروبار نہ کر



ارشد شاہین


چندر بھان خیال

 یوم پیدائش 03 اپریل 1946 


دولت حق مجھ کو حاصل ہو گئی ہے

زندگی اب اور مشکل ہو گئی ہے


اب نہیں آسان دنیا سے گزرنا

اس کی پرچھائیں مقابل ہو گئی ہے


لوگ منزل کی طرف لپکے ہیں لیکن

بھیڑ میں غفلت بھی شامل ہو گئی ہے


ساتھ طوفان حوادث ہے مگر اب

زندگی نزدیک ساحل ہو گئی ہے


دوسری دنیاؤں کی چاہت میں دیکھو

میری دنیا خود سے غافل ہو گئی ہے


دن حقائق سے الجھتے کٹ گیا پھر 

رات لیکن نذر باطل ہو گئی ہے


جب کبھی لفظوں کو میں نے دی صدائیں

اک صدائے غیب نازل ہو گئی ہے


چندر بھان خیال


ریاض رومانی

 یوم پیدائش 02 اپریل 



یہ داستانِ عشق کچھ ایسے سمٹ گئی

 جیسے کہ مشتِ خاک اُڑی اور چھٹ گئی

 

پہلے میں ایک تھا تو کوئی مسئلہ نہ تھا

تو مل گیا تو ذات بھی حصوں میں بٹ گئی


وہ نام میں نے نوکِ زباں پر رکھا ہی تھا

اک تیرگی جو میرے مقابل تھی چھٹ گئی


شرما کے ماہتاب نے منہ کو چھپا لیا

جب جھومتی ہوئی ترے ماتھے پہ لٹ گئی


کرنا پڑا سفر کا ارادہ ہی ملتوی

دہلیز گھر کی پاؤں سے ایسے لپٹ گئی


تیرے بغیر زیست کو ایسے بسر کیا

جیسے کوئی پتنگ اڑی اور کٹ گئی


آتا رہا وہ یاد برابر کئی دنوں

پھر یوں ہوا کہ میری توجہ بھی بٹ گئی


ریاض رومانی


Thursday, April 1, 2021

صابر جوہری بھدوہوی

 ( در صنعت ذو قافیتین )



ظلمتوں کو مٹا دیا جائے

خود کو سورج بنا لیا جائے


راستے کے سبھی چراغوں کو 

خون دل سے جلا دیا جائے


جو دیے تیرگی کے حامی ہیں 

ان کو فوراً بجھا دیا جائے


شاخ سے پھول اب نہ توڑیں گے 

آج یہ فیصلہ کیا جائے


فخر ہے جس کو خوب روئی پر 

اس کو اک آئنہ دیا جائے


توڑ کر اب انا کی دیواریں

اؤ بے ساختہ ملا جائے


غم جو ہیں ان کے نام سے منسوب 

ان کو دل سے لگا لیا جائے


 پھولوں کی خوشبوئیں پکڑنے کا 

 آئیے تجربہ کیا جائے


جس کی شاخیں کبھی نہ مرجھائیں 

پیڑ ایسا لگا دیا جائے


ایک آفاقی شعر کہنے کو 

کون سا قافیہ لیا جائے


زندگی مجھ سے ہے خفا صابر !

ایسی صورت میں ک


یا کیا جائے



صابر جوہری بھدوہوی 

طارق نعیم

 یوم پیدائش 02 اپریل 1958


ہوا کا حکم بھی اب کے نظر میں رکھا جائے

کسی بھی رخ پہ دریچہ نہ گھر میں رکھا جائے


یہ کائنات ابھی تک مرے طواف میں ہے

عجب نہیں اسے یوں ہی سفر میں رکھا جائے


میں سنگ سادہ ہوں لیکن مری یہ حسرت ہے

مکان دوست کے دیوار و در میں رکھا جائے


یہ جل بجھے گا اسی زعم آگہی کے سبب

دیے کو اور نہ باب خبر میں رکھا جائے


نشہ اڑان کا ایسے اترنے والا نہیں

کچھ اور وزن مرے بال و پر میں رکھا جائے


کوئی کہیں نہ کہیں اک کمی سی ہے مجھ میں

مجھے دوبارہ گل کوزہ گر میں رکھا جائے


وہ آئینہ ہے تو حیرت کسی جمال کی ہو

جو سنگ ہے تو کہیں رہ گزر میں رکھا جائے


وہ چاہتا ہے کہ طارقؔ نعیم تجھ کو بھی

تمام عمر اسی کے اثر میں رکھا جائے



طارق نعیم


مسرور نظامی

 یوم پیدائش 01 اپریل 1988


دیکھ کر خوش لباسی مری 

رہ گئی دنگ اداسی مری


اس  تعارف سے مشہورہوں 

مفلسی بدحواسی مری 


 اوڑھ کر کوئے جاناں کی خاک 

رقصاں ہے بدحواسی مری 


مجھ کو دے گی خدا کا پتہ 

ایک دن خود شناسی مری 


بن کے آئی تھی ماں سی مگر 

ماں نہ بن پائی ماسی مری 


فرش پر مجھ کو بھیجا گیا 

اک خطا پر زراسی مری

 

یہ جو تنہائی ہے رات دن 

ساتھ بن کے ہے داسی مری


دے دے دو بوند جامِ وفا 

دل کی دھرتی ہے پیاسی مری


دعوٰی مسرور بیمار کا

چشمِ ظالم ہے آسی مری


مسرورنظامی 


اعظم شاہد

 یوم پیدائش 01 اپریل


اُس  سے بچھڑ  کے زیست  میں راحت نہیں رہی 

خود   اپنی   ذات  سے   بھی  محبت  نہیں  رہی 


میں   نے   سُنا    ہے   آج،    مرے   بعد    دوستو

اُس   بزم   میں   کسی   پہ   عنایت  نہیں   رہی


چھوڑا  ہے  جب  سے تتلیوں کے  پیچھے  بھاگنا 

دن  بھر  چمن  میں  رہنے  کی عادت  نہیں  رہی 


وہ   پیار   یاد  کر   کے   بہت  رو   رہے  ہیں  ہم 

اب  کے  ہمارے  سر   پہ  وہ  شفقت  نہیں  رہی 


بِکنے   لگا   هے   کوڑیوں   کے    بھاؤ   ہر   جگہ 

انسان    کی   جہان    میں   قیمت   نہیں   رہی 


بہتا   هے  بے  گناہوں  کا  کیوں خون  شہر  میں 

قاضی    نہیں    رہا    کہ   عدالت    نہیں    رہی 


غم    ہائے  روز  گار   میں  اعظم   کو   کیا   ہوا 

خود  کو بھی یاد  رکھنے کی فُرصت نہیں  رہی


                                  اعظم شاھد


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...