Urdu Deccan
Tuesday, April 27, 2021
ڈاکٹر طارق عزیز
بدنام نظر
یوم پیدائش 27 اپریل 1941
حیات ڈھونڈ رہا ہوں قضا کی راہوں میں
پناہ مانگنے آیا ہوں بے پناہوں میں
بدن ممی تھا نظر برف سانس کافوری
تمام رات گزاری ہے سرد بانہوں میں
اب ان میں شعلے جہنم کے رقص کرتے ہیں
بسے تھے کتنے ہی فردوس جن نگاہوں میں
بجھی جو رات تو اپنی گلی کی یاد آئی
الجھ گیا تھا میں رنگین شاہراہوں میں
نہ جانے کیا ہوا اپنا بھی اب نہیں ہے وہ
جو ایک عمر تھا دنیا کے خیر خواہوں میں
مری تلاش کو جس علم سے قرار آئے
نہ خانقاہوں میں پائی نہ درس گاہوں میں
بدنام نظر
شجاع حیدر
ہر شخص ہو گیا ہے جُدا کون ساتھ ہے
یا رب جہاں میں تیرے سوا کون ساتھ ہے
"تنہائیوں میں کہتا ہے قرآن یہ "میں ہوں"
جب جب بھی میں نے رو کے کہا کون ساتھ ہے
جھولے سے ایک بچے نے خود کو گرا لیا
میداں میں باپ نے جو کہا کون ساتھ ہے
اک ماں دعائیں دیتی تھی وہ بھی نہیں رہی
اب زیست میں سوائے بلا کون ساتھ ہے
دولت کے پیچھے بھاگ رہا تھا غرور سے
اک روز آ کے بولی قضا کون ساتھ ہے
آئے ہیں میری صف میں مجھے تیر مار کر
جب دوستوں نے مجھ سے سنا کون ساتھ ہے
لے کر حسین چل پڑے پھر خاندان کو
جب دین کی بقا نے کہا کون ساتھ ہے
ہر ایک بے وفا سے وفا جب نبھا چُکا
کہنے لگی یہ مجھ سے وفا کون ساتھ ہے
دنیا میں جتنے اچھے تھے تم ان سے پوچھ لو
آخر میں سب کو کہنا پڑا کون ساتھ ہے
حیدر ہر ایک دوست کی ہجرت کی یاد میں
دیوار و در سے کہتا رہا کون ساتھ ہے
شجاع حیدر
شمش پورولیاوی
یوم پیدائش 27 اپریل 1978
بڑھتا چلا گیا ہے یہ لاشوں کا سلسلہ
ماتم بپا کہیں، کہیں آہوں کا سلسلہ
ایسی وبا ہے پھیلی کہ جسکی دوا نہیں
رکتا نہیں ہے پھر بھی چناؤں کا سلسلہ
بےشک جہاں میں قید ہے، شیطان ان دنوں
ہرگز نہیں رکا ہے، گناہوں کا سلسلہ
پہنچا سفر نہ اپنا کبھی، اختتام تک
حد نظر ہے اب بھی سرابوں کا سلسلہ
کس کو خدا نواز دے، ماہِ صیام میں
جاری رہے اگر یہ، دعاؤں کا سلسلہ
شامل رہے گا شمس، خرافات میں اگر
نازل رہے گا تجھ پہ عذابوں کا سلسلہ
شمس پورولیاوی
پریہ درشی ٹھاکر خیال
یوم پیدائش 27 اپریل 1946
فاصلہ دیر و حرم کے درمیاں رہ جائے گا
چاک سل جائیں گے یہ زخم نہاں رہ جائے گا
ہاتھ سے اپنے تو دھو لے گا لہو کے داغ تو
دیوتا کا پاک دامن خوں فشاں رہ جائے گا
چاند تھوڑی دیر میں چل دے گا اپنے راستے
پھر ستاروں کے سہارے آسماں رہ جائے گا
جانے والے کو میسر ہو گئی غم سے نجات
غم تو اس کے ہو رہیں گے جو یہاں رہ جائے گا
راکھ سے میری چتا کی اس کی آنکھوں میں خیالؔ
اور یہ دو چار دن شور فغاں رہ جائے گا
پریہ درشی ٹھا کرخیال
محمد عمران بشیر
آبشاروں سے دوستی کرلی
سب کناروں سے دوستی کرلی
دوستا تجھ سے دوستی کرکے
سب خساروں سے دوستی کرلی
ہم خلا میں کسی جگہ پر تھے
پھر سیاروں سے دوستی کرلی
چاند کو چھوڑ کر سبھی نے ہی
کیوں ستاروں سے دوستی کرلی
آپ اپنی تلاش میں ہم نے
غم کہ ماروں سے دوستی کرلی
محمد عمران بشیر
رونق شہری
یوم پیدائش 26 اپریل 1952
کج عمارت کی تو بنیاد ہی رکھی گئی ہے
منہدم ہونے کی میعاد ہی رکھی گئی ہے
آنکھ سے دل میں اترنے کا ہنر جانتا ہے
اہلیت اسمیں خداداد ہی رکھی گئی ہے
روز اجڑنے کے عمل سے بڑی ہلچل سی ہے
دل کی بستی مری آباد ہی رکھی گئی ہے
اس جگہ تزکرۂ نان جویں ہوگا ہی
جس جگہ خلقت ناشاد ہی رکھی گئی ہے
ظلم اور صبر کی تحدید نہیں ہو سکتی
جب معلق مری فریاد ہی رکھی گئی ہے
یہ کسی سمت کی محتاج نہیں ہے رونق
من کی چڑیا ہے جو آزاد ہی رکھی گئی ہے
رونق شہری
ندیم اعجاز
کس سے رونا روئے کوئی اپنے ٹوٹے خوابوں کا
کب تک زندہ رہ لے کوئی بوجھ اٹھائے وعدوں کا
کل کی فکر مسلط سب پر کل جانے کیا ہو جائے
سر پر بوجھ لیے پھرتے ہو کیوں کل کے اندازوں کا
سہنے والے لوگ بہت ہیں کہنے والا کوئی نہیں
دیکھو کیسے کال پڑا ہے بستی میں آوازوں کا
فیاضی کیا خوب دکھائی ہے صیاد نے کیا کہنے
کاٹے بال و پر پنچھی کے حکم دیا پروازوں کا
مست نظر ساقی کی ہم پر بادل برکھا سب کچھ ہے
پھر ٹوٹے گا آج بھرم لو اپنے سبھی ارادوں کا
شامیں سرد ہوئیں ہیں پھر سے درد پرانے جاگیں گے
لوٹ آیا ہے پھر سے موسم بھولی بسری یادوں کا
دنیا داری کیسے گزری یہ بھی تو پوچھے گا وہ ندیم
حشر میں خالی کب پوچھے گا روزے اور نمازوں کا
ندیم اعجاز
سمیع احمد ثمر
نہیں زور اتنا بلاؤں میں ہے
اثر جتنا ماں کی دعاؤں میں ہے
کیا کرتے ہیں جملہ بازی بہت
یہی وصف تو رہنماؤں میں ہے
وہ گرویدہ سب کو بنانے لگا
بڑی دلکشی ان اداؤں میں ہے
بناتی ہیں شاداب کھیتوں کو وہ
یہ طاقت فلک کی گھٹاؤں میں ہے
ثمرؔ جاں سے پیارا لگے ہے مجھے
فضا امن کی میرے گاؤں میں ہے
سمیع احمد ثمر
محمد ولی صادقؔ
یوم پیدائش 25 اپریل
ہوائے تیز کبھی دھوپ سخت جھیلتا ہوں
مصیبتوں کو مثالِ درخت جھیلتا ہوں
خدا نے کڑوی دواؤں میں ہے شفا رکھی
بڑوں کا اس لئے لہجہ کرخت جھیلتا ہوں
شَجَر کے سائے میں ہوتا تھا وصل دونوں کا
سو آج ہجر بھی زیرِ درخت جھیلتا ہوں
سکونِ قلب نہ آسائشوں میں ڈھونڈ کبھی
فقیر مست زمیں پر٬ میں تخت جھیلتا ہوں
تو جانتا ہے میں کیوں خون تھوکتا ہوں یہاں؟
وہ صدمۂ جگرِ لخت لخت جھیلتا ہوں
سکوت٬ ہجر٬ اداسی٬ سیاہ رات کا دکھ
یہ درد وہ ہیں جو میں تیرہ بخت جھیلتا ہوں
بھٹک رہا ہوں لیئے جسمِ نا تواں صادقؔ
تھکن سے چور بدن پر میں رخت جھیلتا ہوں
محمد ولی صادقؔ
محمد دین تاثر
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...

-
یوم پیدائش 03 اکٹوبر 1948 اس بحر بے صدا میں کچھ اور نیچے جائیں آواز کا خزینہ شاید تہوں میں پائیں گلیوں میں سڑ رہی ہیں بیتے دنوں کی لاشیں ...
-
قد بڑھانے کے بہانے کتنے دوست دشمن ہوئے جانے کتنے گُل ہوئی شمع تو معلوم ہوا ظلم ڈھائے ہیں ہوا نے کتنے کچھ تو ہو صرفِ حسابِ گُل بھی پھول برسائ...
-
یوم پیدائش 04 مارچ 1972 ہم وفا ڈھونڈ رہے ہیں اب تک دیکھ کیا؟ ڈھونڈ رہےہیں اب تک شہر میں موت بِکے ہے تیرے ہم قضا ڈھونڈ رہے ہیں اب تک اپنے ا...
-
یوم پیدائش 11 فروری 1927 چراغ حسرت و ارماں بجھا کے بیٹھے ہیں ہر ایک طرح سے خود کو جلا کے بیٹھے ہیں نہ کوئی راہ گزر ہے نہ کوئی ویرانہ غم حیا...
-
یوم پیدائش 25 دسمبر 1952 مرے ثبوت بہے جارہے ہیں پانی میں کسے گواہ بناؤں سرائے فانی میں جو آنسوؤں میں نہاتے رہے سو پاک رہے نماز ورنہ کسے مل ...
-
بظاہر تجھ سے ملنے کا کوئی امکاں نہیں ہے دلاسوں سے بہلتا یہ دل ناداں نہیں ہے چمن میں لاکھ بھی برسے اگر ابر بہاراں تو نخل دل ہرا ہونے کا کچھ ...
-
یوم پیدائش 15 مارچ 1994 مانا اس کو گلہ نہیں مجھ سے کچھ تو ہے جو کہا نہیں مجھ سے حق نہیں دوستی کا ایسا کوئی جو کہ اس کو ملا نہیں مجھ سے ...
-
یوم پیدائش 03 فروری 1940 ترے قریب پہنچنے کے ڈھنگ آتے تھے یہ خود فریب مگر راہ بھول جاتے تھے ہمیں عزیز ہیں ان بستیوں کی دیواریں کہ جن کے سائے...
-
یوم پیدائش 20 فروری 1917 تھوڑا سا عکس چاند کے پیکر میں ڈال دے تو آ کے جان رات کے منظر میں ڈال دے جس دن مری جبیں کسی دہلیز پر جھکے اس دن خدا...
-
یوم پیدائش 01 مئی 1954 آج کل ہوتا ہے رسوائی سے عزت کا ملاپ کاش ہو جاتا کبھی صورت سے سیرت کا ملاپ تیل میں پانی کبھی گھلتا نہیں ہے دوستو کیس...