Urdu Deccan

Tuesday, May 4, 2021

بی ایم خان معاملے اچلپوری

 ہوتی ہے صبح رات گزرنے کے بعد ہی 

سورج کی روشنی کے بکھرنے کے بعد ہی 


دستورِ زندگی ہے یہی اور یہی ہے سچ 

ملتا ہے اجر کام کے کرنے کے بعد ہی 


ہمت کے ساتھ صبر بھی لازم ہے یاد رکھ 

جاتا ہے درد زخم کے بھرنے کے بعد ہی 


پڑھ سکتا ہوں لکیروں کو میں ہاتھ کی مگر

ہر شب بغور دن کے گزرنے کے بعد ہی


تادیب بھی ضروری ہے اصلاح کے لئے

انسان سیدھا چلتا ہے ڈرنے کے بعد ہی


آتا ہے نور چہرے پہ بنتی ہے عاقبت 

پوری طرح عمل میں نکھرنے کے بعد ہی 


پہچان پایا کون ہوں میں، کیا ہے اَصلِیَت 

سایہ مرا زمیں پہ اترنے کے بعد ہی 


حالت دلِ حزیں کی عیاں ہوتی ہے مگر 

چہرے پہ کچھ نقوش ابھرنے کے بعد ہی 


کرلوں گا بات اس سے مَعَالے میں روبرو 

موسم مزاجِ یار سنورنے کے بعد ہی 


بی ایم خان مَعَالے اچلپوری


اعتبار ساجد

 آ ، مرے دل، مرے غمخوار، کہیں اور چلیں

بھیڑ ہے بر سر, بازار کہیں اور چلیں


وہ جو پھولوں سے بھرا شہر ہوا کرتا تھا

اس کے منظر ہیں دل آزار، کہیں اور چلیں


سارے چہرے نظر آتے ہیں یہاں زیر,نقاب

یہ فضائیں ہیں پر اسرار، کہیں اور چلیں


ڈھونڈتے ہیں کوئی شاداب کشادہ گلشن

اب تو دم گھٹنے لگا یار، کہیں اور چلیں


جذبہء شوق سلامت ہے مگر ہائے، نصیب

اب کہاں کوچہء دلدار ،کہیں اور چلیں


( اعتبار ساجد )


ریاض خازم

 حسرتِ دل کے دھول ہونے کا دکھ

چاند کیا جانے پھول ہونے کا دکھ


بے بسی کے قبول ہونے کا دکھ

جانتا ہوں فضول ہونے کا دکھ


اپنے ماضی سے کیوں الجھتا پھروں

کیا کیا جائے بھول ہونے کا دکھ


بے وفائی پہ رشک اس نے کِیا

عشق میں بے اصول ہونے کا دکھ


کیا اذیت ہے زندگی یہ سمجھ

پھول واپس وصول ہونے کا دکھ


ریاض حازم


ضیاء رشیدی

 نظم


نیکیوں کا مہینہ یہ رمضان ہے 

برکتوں کا مہینہ یہ رمضان ہے 


ہم کرالیں گناہوں کی بخشش سبھی 

تائبوں کا مہینہ یہ رمضان ہے


دل بہت پر سکوں رہتا اس ماہ میں 

راحتوں کا مہینہ یہ رمضان ہے


کتنے عاصی نکالے گا رب نار سے 

بخششوں کا مہینہ یہ رمضان ہے 


خوب پختہ کریں اپنے ایماں کو ہم 

مومنوں کا مہینہ یہ رمضان ہے 


جتنی ممکن عبادت کریں رات دن 

عابدوں کا مہینہ یہ رمضاں ہے 


کر لیں تقوی سے خود کو مزین سبھی 

زاہدوں کا مہینہ یہ رمضان ہے 


جمع کر اے ضیا توشہء آخرت

رحمتوں کا مہینہ یہ رمضان ہے


    ضیاء رشیدی


جاوید صبا

 یوم پیدائش 03 مئی 1958


تجھ کو پانے کی یہ حسرت مجھے لے ڈوبے گی

لگ رہا ہے کہ محبت مجھے لے ڈوبے گی


حالت عشق میں ہوں اور یہ حالت ہے کہ اب

ایک لمحے کی بھی فرصت مجھے لے ڈوبے گی


اب میں سمجھا ہوں کہ یہ درد محبت کیا ہے

یہ ترے پیار کی شدت مجھے لے ڈوبے گی


میری بیتابی دل چین نہ لینے دے گی

تیری خاموش طبیعت مجھے لے ڈوبے گی


تیری آنکھوں کے سمندر میں خیالوں کی طرح

ڈوب جانے کی یہ عادت مجھے لے ڈوبے گی


ڈوبتی نبض کہیں کا نہیں چھوڑے گی مجھے

درد لے ڈوبے گا وحشت مجھے لے ڈوبے گی


تیری آنکھوں کا یہ جادو کہیں لے جائے گا

یہ تری سادہ سی صورت مجھے لے ڈوبے گی


تیرے اشکوں سے کلیجہ مرا کٹ جائے گا

میری حساس طبیعت مجھے لے ڈوبے گی


ہر قدم پر میں ترا بوجھ اٹھاؤں کیسے

زندگی تیری ضرورت مجھے لے ڈوبے گی


جاوید صبا


جون ثانی

 یوم پیدائش 02 مئی 1993


رونے دھونے کی ہر کہانی کی

میرے اشکوں نےترجمانی کی


تم جسے بوڑھا کہہ رہے ہو وہ

میری تصویر ہے جوانی کی


جسم بیکار ہو گیا میرا 

روح نے ایسی چھیڑخانی کی


ان پرندوں نے رات بھر یارو

میری میت کی پاسبانی کی


بھسم کر دو یا مجھ کو دفنا دو

رو پڑی لاش زندگانی کی


حوصلہ روبرو چلا تھا مگر 

راستے نے غلط بیانی کی


جھوٹ سچ میں معاہدہ جو ہوا

آنکھ روئی تھی بدگمانی کی


زندگی کو گزارنے میں میاں 

ایلیا نے مدد کی ثانی کی


 جون ثانی


محمد اکرم قاسمی

 یوم پیدائش 02 مئی 1987


کیا اضطرابِ شوق نے حالت خراب کی 

لڑکا میں گاؤں کا ہوں تُو لڑکی خوشاب کی


تُو نے کیا پسند مجھے اِس کا شکریہ

میں داد دے رہا ہوں ترے انتخاب کی


چاروں طرف سے چُبھنے لگے خار وقت کے

ہاتھو‍ں میں میرے آئی کلی کیا گلاب کی


میں تشنگی کا جام ہوں ساقی کے ہاتھ میں 

تُو حُسن کی صراحی تُو مستی شراب کی


میں کوچہءِ فراق کا سویا نصیب ہوں 

تعبیر ہے تُو جاگتی آنکھوں کے خواب کی 


ملنا ہے تم سے اُس جگہ اکرام قاسمی 

ہو ختم بات ، جس جگہ دنیا کے باب کی


محمد اکرام قاسمی


خلیل حسین بلوچ

 یوم پیدائش 02 مئی 1990


وحشتیں شور مچائیں گی یہاں اترے گی

چاندنی، شب کے تعاقب میں جہاں اترے گی


زخمِ دل آج ہرا ہے تو بھرے گا آخر

دیکھنا کل کو شفا بن کے خزاں اترے گی


عشق کامل ہے تو الفاظ میں لکنت کیسی

لڑکھڑائے گی تو سولی پہ زباں اترے گی


ختم ہوتی یہ نہیں ہجر کی زردی یارا

تیرے بیمار کی رنگت ہے کہاں اترے گی


میں تہہِ خاک پکاروں گا محبت تجھ کو

زندگی لے کے مِرا نام و نشاں اترے گی


خواب روٹھے تو اداسی نے سنبھالی آنکھیں

نیند لوٹی تو کسی اور جہاں اترے گی


دیکھ کیسا ہے یہ بے موسمی بادل چھایا

صاف لگتا ہے کہ بارانِ زیاں اترے گی


خلیل حسین بلوچ


ف س اعجاز

 یوم پیدائش 02 مئی 1948


یا تو تاریخ کی عظمت سے لپٹ کر سو جا

یا کسی ٹوٹے ہوئے بت سے چمٹ کر سو جا


ننھا بچہ ہے تو آ ماں کے گھنے آنچل میں

رات کی چھلنی سڑک ہی سے لپٹ کر سو جا


ہر گھڑی شور مچاتی ہوئی مخلوق کے بیچ

اپنے ہونے کے یقیں سے ذرا ہٹ کر سو جا


نیند اڑنے کا مزہ تو بھی چکھا دے ان کو

چال مکار ستاروں کی الٹ کر سو جا


اوڑھ لے سارے بدن پر تو ہوا کی چادر

اور طوفان کی بانہوں میں سمٹ کر سو جا


اے خلیفہ اے نئے وقت کے ہارون رشید

تو روایات شب عدل سے کٹ کر سو جا


ف س اعجاز


تاجور نجیب آبادی

 یوم پیدائش 02 مئی 1894


محبت میں زیاں کاری مراد دل نہ بن جائے

یہ لا حاصل ہی عمر عشق کا حاصل نہ بن جائے


مجھی پر پڑ رہی ہے ساری محفل میں نظر ان کی

یہ دل داری حساب دوستاں در دل نہ بن جائے


کروں گا عمر بھر طے راہ بے منزل محبت کی

اگر وہ آستاں اس راہ کی منزل نہ بن جائے


ترے انوار سے ہے نبض ہستی میں تڑپ پیدا

کہیں سارا نظام کائنات اک دل نہ بن جائے


کہیں رسوا نہ ہو اب شان استغنا محبت کی

مری حالت تمہارے رحم کے قابل نہ بن جائے


تاجور نجیب آبادی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...