Urdu Deccan

Wednesday, May 12, 2021

منظور ثاقب

 یوم پیدائش 10 مئی 1945


قدم قدم ہے نیا امتحان میرے ساتھ

جو چل سکو تو چلو میری جان میرے ساتھ


بلندیوں پہ اکھڑنے لگے نہ سانس کہیں

سمجھ کے سوچ کے بھرنا اڑان میرے ساتھ


مجھے یقیں ہے مجھے فتح یاب ہونا ہے

زمیں تری ہے تو ہے آسمان میرے ساتھ


یہ کوفیوں کی روش تو مجھے قبول نہیں

کہ دل ہے ساتھ کسی کے زبان میرے ساتھ 


منظور ثاقب


نیاز احمد عاطر

 یوم پیدائش 10 مئی 1984


متاع غم سنبھال کر ترا فراق پال کر

میں مر گیا ہوں اپنی ذات سے تجھے نکال کر


چراغ زسیت بجھ گیا ترا فقیر لٹ گیا

میں خالی ہاتھ رہ گیا ہوں میرا کچھ خیال کر


الم کشوں سے دوستی ہے مے کدوں سے بیرہے

کسے ملوں کسے کہوں مرے لٸے ملال کر


اسی پہ میں الجھ گیا اسی پہ میں بھٹک گیا

جو پل کٹے ہیں ہجر میں شمار ماہ وسال کر


مرا جنون بڑھ گیا مرا سکون لٹ گیا

میں بد حواس ہو گیا ہوں شمع کو اجال کر


نیازاحمد عاطر


ذکی طارق

 یوم پیدائش 10 مئی 1972


شاباش،تمہیں حسن سراپا بھی ملا ہے

اور پیار میں مر مٹنے کا جذبہ بھی ملا ہے


صد مرحبا وہ ہے مرا محبوب کہ جس کو

مخمل سا بدن چاند سا چہرہ بھی ملا ہے


جب جوش میں دریائے کرم اس کا ہے آیا

ویسے بھی ملا بخت کا لکھّا بھی ملا ہے


یہ لطف بھی مجھ پر مرے اللہ کا دیکھو

دنیا بھی ملی ہے غمِ دنیا بھی ملا ہے


اے یار تری یاری پہ قرباں ہے مری جاں

دکھ میں ہی مجھے کیف سکوں کا بھی ملا ہے


صد آفریں اے عشق تری راہگزر میں

گلشن بھی ملے ہیں مجھے صحرا بھی ملا ہے


اک کیفیتِ عشق اگر ہو تو بتائیں

غم اس میں ملا،خوشیاں بھی،نشہ بھی ملا ہے


وہ،جس کو زمانہ ہوئے میں چھوڑ چکا ہوں

اس کے ہی لئے دل یہ دھڑکتا بھی ملا ہے


 ذکی طارق


حامد اقبال صدیقی

 یوم پیدائش 10 مئی 1958


ذرا سی بات ہو کیا کیا سوال کرتا ہے

مرا ہنر مجھے اکثر نڈھال کرتا ہے


وہ چاٹ لیتا ہے دیمک کی طرح مستقبل

تمہیں پتہ نہیں ماضی جو حال کرتا ہے


مرے وجود کو صدیوں کا سلسلہ دے کر

وہ کون ہے جو مجھے لا زوال کرتا ہے


بڑے قریب سے ہو کر گزر گئی دنیا

ملا نہ اس سے مرا دل کمال کرتا ہے


میں چاہتا ہوں مراسم بس ایک سمت چلیں

مگر وہ خود ہی جنوب و شمال کرتا ہے


دعا کا در تو سبھی کے لئے کھلا ہے مگر

جسے یقین ہو اس پر سوال کرتا ہے


حامد اقبال صدیقی


مجنوں گورکھپوری

 یوم پیدائش 10 مئی 1904

نظم بلبل


چمن میں لائی ہے پھولوں کی آرزو تجھ کو

ملا کہاں سے یہ احساس رنگ و بو تجھ کو

تری طرح کوئی سرگشتۂ جمال نہیں

گلوں میں محو ہے کانٹوں کا کچھ خیال نہیں

خزاں کا خوف نہ ہے باغباں کا ڈر تجھ کو

مآل کار کا بھی کچھ خطر نہیں تجھ کو

خوش اعتقاد و خوش آہنگ خوش نوا بلبل

جگر کے داغ کو پر نور کر دیا کس نے

تجھے اس آگ سے معمور کر دیا کس نے

یہ دل یہ درد یہ سودا کہاں سے لائی ہے

کہاں کی تو نے یہ طرز فغاں اڑائی ہے


تجھے بہار کا اک مرغ خوش نوا سمجھوں

کہ درد مند دلوں کی کوئی صدا سمجھوں

سوا اک آہ کے سامان ہست و بود ہے کیا

تو ہی بتا ترا سرمایۂ وجود ہے کیا

وہ نقد جاں ہے کہ ہے نالۂ حزیں تیرا

نشان ہستیٔ موہوم کچھ نہیں تیرا

اسے بھی وقف تمنائے یار کر دینا!

نثار جلوۂ گل جان زار کر دینا!


ہزار رنگ خزاں نے بہار نے بدلے

ہزار روپ یہاں روزگار نے بدلے

تری قدیم روش دیکھتا ہوں بچپن سے

ہے صبح و شام تجھے کام اپنے شیون سے

اثر پذیر حوادث ترا ترانہ نہیں؟

دیار عشق میں یا گردش زمانہ نہیں؟

نہ آشیانہ کہیں ہے نہ ہے وطن تیرا

رہے گا یوں ہی بسیرا چمن چمن تیرا


ترا جہان ہے بالا جہان انساں سے

کہ بے نیاز ہے تو حادثات امکاں سے

ترا فروغ فروغ جمال جاناں ہے

ترا نشاط نشاط گل و گلستاں ہے

تری حیات کا مقصد ہی دوست داری ہے

ترا معاملہ سود و زیاں سے عاری ہے

ازل کے دن سے ہے محو جمال جانانہ

رہے گی تا بہ ابد ماسوا سے بیگانہ

تجھے کس آگ نے حرص و ہوا سے پاک کیا

تمام خرمن ہستی جلا کے خاک کیا 


مجھے بھی دے کوئی داروئے خود فراموشی

جہاں و کار جہاں سے رہے سبکدوشی

متاع ہوش کو اک جستجو میں کھونا ہے

مجھے بھی یعنی ترا ہم صفیر ہونا ہے

''تو خوش بنال مرا با تو حسرت یاری است

کہ ما دو عاشق زاریم و کار ما زاری است


مجنوں گورکھپوری


قمر جمیل

 یوم پیدائش 10 مئی 1927


شام عجیب شام تھی جس میں کوئی افق نہ تھا

پھول بھی کیسے پھول تھے جن کو سخن کا حق نہ تھا


یار عجیب یار تھا جس کے ہزار نام تھے

شہر عجیب شہر تھا جس میں کوئی طبق نہ تھا


ہاتھ میں سب کے جلد تھی جس کے عجیب رنگ تھے

جس پہ عجیب نام تھے اور کوئی ورق نہ تھا


جیسے عدم سے آئے ہوں لوگ عجیب طرح کے

جن کا لہو سفید تھا جن کا کلیجہ شق نہ تھا


جن کے عجیب طور تھے جن میں کوئی کرن نہ تھی

جن کے عجیب درس تھے جن میں کوئی سبق نہ تھا


لوگ کٹے ہوئے ادھر لوگ پڑے ہوئے ادھر

جن کو کوئی الم نہ تھا جن کو کوئی قلق نہ تھا


جن کا جگر سیا ہوا جن کا لہو بجھا ہوا

جن کا رفو کیا ہوا چہرہ بہت ادق نہ تھا


کیسا طلسمی شہر تھا جس کے طفیل رات بھی

میرے لہو میں گرد تھی آئینۂ شفق نہ تھا


قمر جمیل


شمشاد شاؔد

 اپنی آغوش میں پالے ہیں پیمبر اس نے

باعثِ فخر ہے عورت کے لئے ماں ہونا 


شمشاد شاؔد


عقیل آسرا

 تمہاری انجمن میں بس خفا خفا ہوں میں

ہیں سب ملے جلے فقط جدا جدا ہوں میں


ہے مثلِ روشنی یہاں سبھی کے پیرہن

مرا بدن بجھا بجھا، بجھا بجھا ہوں میں


دوانگی مجھے یہاں خراب ہی رکھے

جنونیت میں کر رہا خدا خدا ہوں میں


مصیبتوں کی بارشیں تمام روک دیں

ابھی تو ایک عارضی سا بلبلا ہوں میں


یہ زندگی مری فقط ہے ناؤ نوحؑ کی

کہ جس کا سام حام اور ناخدا ہوں میں


فرشتے کیوں نہ رشک میری ذات پے کرے

غلامِ مصطفی ﷺغلامِ مرتضیﷺہوں میں


اے سو برس کے آسراؔ ذرا تو رک کے آ

کہ وقت ہے ابھی، ابھی ابھی رکا ہوں میں


عقیل آسراؔ


شمیم دانش

 یوم پیدائش 09 مئی 


اشک غم کر دیے دامن کے حوالے ہم نے

ہائے افسوس یہ موتی نہ سنبھالنے ہم نے


کوئی مشکل نہ تھا دشمن سے نمٹنا لیکن

آستینوں میں کئی سانپ جو پالے ہم نے


یہ بھی تیری ہی عطا تھی جو خدایا تیرے

حالت مرگ بھی احکام نہ ٹالے ہم نے


اب ہمارے لئے پھرتا ہے وہ نشتر لے کر

جن کے تلوؤں سے کبھی خار نکالے ہم نے


شمیم دانش


عنبر بہرائچی

 یوم وفات 07 مئی 2021


آج پھر دھوپ کی شدت نے بڑا کام کیا

ہم نے اس دشت کو لمحوں میں کنول فام کیا


میرے حجرے کو بھی تشہیر ملی اس کے سبب

اور آندھی نے بھی اس بار بہت نام کیا


روز ہم جلتی ہوئی ریت پہ چلتے ہی نہ تھے

ہم نے سائے میں کجھوروں کے بھی آرام کیا


دل کی بانہوں میں سجاتے رہے آہوں کی دھنک

ذہن کو ہم نے رہ عشق میں گم نام کیا


شہر میں رہ کے یہ جنگل کی ادا بھول گئے

ہم نے ان شوخ غزالوں کو عبث رام کیا


اپنے پیروں میں بھی بجلی کی ادائیں تھیں مگر

دیکھ کر طور جہاں خود کو سبک گام کیا


شاہراہوں پہ ہمیں تو نہیں مصلوب ہوئے

قتل مہتاب نے خود کو بھی لب بام کیا


جانے کیا سوچ کے پھر ان کو رہائی دے دی

ہم نے اب کے بھی پرندوں کو تہہ دام کیا


ختم ہو گی یہ کڑی دھوپ بھی عنبرؔ دیکھو

ایک کہسار کو موسم نے گل اندام کیا


عنبر بہرائچی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...