Urdu Deccan

Monday, May 24, 2021

شارق ریاض

 یوم پیدائش 19 مئی


وہ اچانک آ گیا جو مسکرا کے سامنے

ہو گیا کافور غم پھر غم رسا کے سامنے


تھا ارادہ ان سے میرا برملا اظہار کا 

لب نہ کھل پائے مگر اس دلربا کے سامنے


بے وفائی مجھ میں یا تیری وفا میں نقص تھا

فیصلہ ہو جائے گا اک دن خدا کے سامنے


موت ایسی شئے ہے جس پر زور کچھ چلتا نہیں 

سرنگوں ذی روح ہوتے ہیں فنا کے سامنے


کس قدر ظالم ہے شارق اس کا یہ انداز بھی

مہرباں ہے غیر پہ مجھکو بٹھا کے سامنے


شارق ریاض 


خورشید رضوی

 یوم پیدائش 19مئی 1942


یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے

یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے


کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی

وہی زاویے کہ جو عام تھے مجھے کھا گئے


میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں

یہ جو لوگ محو کلام تھے مجھے کھا گئے


وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جڑ سکی

یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا گئے


یہ عیاں جو آب حیات ہے اسے کیا کروں

کہ نہاں جو زہر کے جام تھے مجھے کھا گئے


وہ نگیں جو خاتم زندگی سے پھسل گیا

تو وہی جو میرے غلام تھے مجھے کھا گئے


میں وہ شعلہ تھا جسے دام سے تو ضرر نہ تھا

پہ جو وسوسے تہہ دام تھے مجھے کھا گئے


جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں

یہ جو زہر خندہ سلام تھے مجھے کھا گئے


خورشید رضوی


ہینسن ریحانی

 یوم پیدائش 19مئی 1922


رنگ یہ ہے اب ہمارے عشق کی تاثیر کا

حسن آئینہ بنا ہے درد کی تصویر کا


ایک عرصہ ہو گیا فرہاد کو گزرے ہوئے

آؤ پھر تازہ کریں افسانہ جوئے شیر کا


گلستاں کا ذرہ ذرہ جاگ اٹھے عندلیب

لطف ہے اس وقت تیرے نالۂ شب گیر کا


لیجئے اے شیخ پہلے اپنے ایماں کی خبر

دیجئے پھر شوق سے فتویٰ مری تکفیر کا


خواب ہستی کو سمجھنے کے لیے بے چین ہوں

اعتبار آتا نہیں مجھ کو کسی تعبیر کا


جس نے دی آخر غرور حسن یوسف کو شکست

اللہ اللہ حوصلہ اس دست دامن گیر کا


توڑ کر نکلے قفس تو گم تھی راہ آشیاں

وہ عمل تدبیر کا تھا یہ عمل تقدیر کا


گو زمانہ ہو گیا گلزار سے نکلے ہوئے

ہے مزاج اب تک وہی ریحانئ دلگیر کا


ہینسن ریحانی


وزیر آغا

 یوم پیدائش 18 مئی 1922


دھوپ کے ساتھ گیا ساتھ نبھانے والا

اب کہاں آئے گا وہ لوٹ کے آنے والا


ریت پر چھوڑ گیا نقش ہزاروں اپنے

کسی پاگل کی طرح نقش مٹانے والا


سبز شاخیں کبھی ایسے تو نہیں چیختی ہیں

کون آیا ہے پرندوں کو ڈرانے والا


عارض شام کی سرخی نے کیا فاش اسے

پردۂ ابر میں تھا آگ لگانے والا


سفر شب کا تقاضا ہے مرے ساتھ رہو

دشت پر ہول ہے طوفان ہے آنے والا


مجھ کو در پردہ سناتا رہا قصہ اپنا

اگلے وقتوں کی حکایات سنانے والا


شبنمی گھاس گھنے پھول لرزتی کرنیں

کون آیا ہے خزانوں کو لٹانے والا


اب تو آرام کریں سوچتی آنکھیں میری

رات کا آخری تارا بھی ہے جانے والا


وزیر آغا


عادل منصور

 عشق سےجب آشنا حسنِ زلیخا ہو گیا

مصر کے بازار میں یوسف کا سودا ہو گیا


عشق کی رعنایئوں سے آپ کیا واقِف ہوئے

گُفتگو میں آپ کی انداز پیدا ہو گیا


چاند تاروں سے نہ مٹ پایا اندھیرے کا وجود

ایک جُگنو کے چمکنے سے اُجالا ہو گیا


یہ کرشمہ ہم نے دیکھا بزمِ فتنہ ساز میں

جو تماشہ کرنے آیا خود تماشہ ہو گیا


کم نہ تھیں یوں بھی تو 'خالد' عشق کی نیرنگیاں

آپ کے آنے سے موسم اور سُہانا ہو گیا


خالد ندیم بدایونی


خالد ندیم بدایونی

 عشق سےجب آشنا حسنِ زلیخا ہو گیا

مصر کے بازار میں یوسف کا سودا ہو گیا


عشق کی رعنایئوں سے آپ کیا واقِف ہوئے

گُفتگو میں آپ کی انداز پیدا ہو گیا


چاند تاروں سے نہ مٹ پایا اندھیرے کا وجود

ایک جُگنو کے چمکنے سے اُجالا ہو گیا


یہ کرشمہ ہم نے دیکھا بزمِ فتنہ ساز میں

جو تماشہ کرنے آیا خود تماشہ ہو گیا


کم نہ تھیں یوں بھی تو 'خالد' عشق کی نیرنگیاں

آپ کے آنے سے موسم اور سُہانا ہو گیا


خالد ندیم بدایونی


آسناتھ کنول

 یوم پیدائش 17 مئی 1975


انتہا ہونے سے پہلے سوچ لے

بے وفا ہونے سے پہلے سوچ لے


بندگی مجھ کو تو راس آ جائے گی

تو خدا ہونے سے پہلے سوچ لے


کاسۂ ہمت نہ خالی ہو کبھی

تو گدا ہونے سے پہلے سوچ لے


یہ محبت عمر بھر کا روگ ہے

مبتلا ہونے سے پہلے سوچ لے


بچ رہے کچھ تیرے میرے درمیاں

فاصلہ ہونے سے پہلے سوچ لے


زندگی اک ساز ہے لیکن کنولؔ

بے صدا ہونے سے پہلے سوچ لے


آسناتھ کنول


عقیل فاروق

 وہ جو تھا وہ مل بھی جائے گا تو کیا

پھول دل کا کھل بھی پائے گا تو کیا

دیکھنا تنہا ہی ہم رہ جائیں گے

وہ ہمارے پاس آئے گا تو کیا


عقیل فاروق


محشر فیض آبادی

 عید کو جو نہ پٹے اس کا مقدر کیا ہے

مار کھائے نہ جو بیوی کی وه شوہر کیا ہے

جس کی تعریف میں بکواس کیا کرتا ہوں

آج تک اس نے یہ سمجھا نہیں محشر کیا ہے


محشر فیض آبادی


امیر مہدی

 یوم پیدائش 15 مئی


شورِ ماتم جو بپا ہو تو چلے جایئےگا

جان جب تن سے جدا ہو تو چلے جایئےگا


آپ سے دیکھا نہ جائے گا تڑپنا میرا

درد جب حد سے سوا ہو تو چلے جایئےگا


قبض کرنے کو مری روح سرہانے میرے

ملک الموت کھڑا ہو تو چلے جایئے گا


ہاتھ رکھ دیجئے سینے پہ کہ آ جائے قرار

دل کو آرام ذرا ہو تو چلے جایئےگا


صحنِ گلشن میں ابھی گرم ہوا چلتی ہے

آمد ِباد صبا ہو تو چلے جایئےگا


ابھی ڈوبے نہیں گردوں پہ ستارے جاناں

چاند جامن پہ. جھکا ہو تو چلے جایئےگا


امیر مہدی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...