Urdu Deccan

Tuesday, June 1, 2021

نوید انجم

 یوم پیدائش 28 مئی 1987


زخم کو پھول بتاتے ہوئے مرجائیں گے

ہم ترے ناز اٹھاتے ہوئے مر جائیں گے


کل کوئی اور ہی دیکھے گا بہار گلشن

ہم تو بس پیڑ لگاتے ہوئے مر جائیں گے


آپ کا طنز یہ لہجہ نہ کبھی سدھرے گا

ہم دوا درد کی کھاتے ہوئے مر جائیں گے


تم تو آرام سے ہو چھوڑ کے اک چنگاری

ہم مگر آگ بجھاتے ہوئے مر جائیں گے


بے وفا ہو کے بھی جینا کوئی آسان نہیں

وہ نظر مجھ سے چراتے ہوئے مر جائیں گے


نوید انجم


افضال احمد سید

 یوم پیدائش 28 مئی 1946


گرا تو گر کے سر خاک ابتذال آیا

میں تیغ تیز تھا لیکن مجھے زوال آیا


عجب ہوا کہ ستارہ شناس سے مل کر

شکست انجم نوخیز کا خیال آیا


میں خاک سرد پہ سویا تو میرے پہلو میں

پھر ایک خواب شکست آئنہ مثال آیا


کمان شاخ سے گل کس ہدف کو جاتے ہیں

نشیب خاک میں جا کر مجھے خیال آیا


کوئی نہیں تھا مگر ساحل تمنا پر

ہوائے شام میں جب رنگ اندمال آیا


یہی ہے وصل دل کم معاملہ کے لیے

کہ آئنے میں وہ خورشید خد و خال آیا


افضال احمد سید


اسلم انصاری

 یوم پیدائش 27 مئی 1964


سارے عالم ایک دن زیر و زبر ہو جائیں گے

اور پھر نالے ہمارے بے اثر ہو جائیں گے


یوں ملے گی دل لگانے کی سزا سوچا نہ تھا

سب مرے احباب مجھ سے بے خبر ہو جائیں گے


کر لیا اقرار اس نے بھی محبت کا اگر

فاصلے سارے یہی پھر مختصر ہو جائیں گئے


میری مشکل میں خبر گیری کسی نے بھی نہ کی

کیا خبر تھی اجنبی دیوار و در ہو جائیں گے


یاد پھر اعجاز ہم کو کون رکھے گا بھلا

جیسی دنیا ہے اسی جیسے اگر جائیں گے


اعجاز قریشی


اعجاز قریشی

 یوم پیدائش 27 مئی 1964


سارے عالم ایک دن زیر و زبر ہو جائیں گے

اور پھر نالے ہمارے بے اثر ہو جائیں گے


یوں ملے گی دل لگانے کی سزا سوچا نہ تھا

سب مرے احباب مجھ سے بے خبر ہو جائیں گے


کر لیا اقرار اس نے بھی محبت کا اگر

فاصلے سارے یہی پھر مختصر ہو جائیں گئے


میری مشکل میں خبر گیری کسی نے بھی نہ کی

کیا خبر تھی اجنبی دیوار و در ہو جائیں گے


یاد پھر اعجاز ہم کو کون رکھے گا بھلا

جیسی دنیا ہے اسی جیسے اگر جائیں گے


اعجاز قریشی


یاسین انصاری

 یوم پیدائش 27 مئی 1977


نفرتیں ٹھیک نہیں ان کو مٹا کر دیکھو

دل کی دنیا کو محبت سے سجا کر دیکھو


ہم وفادار وطن ہیں کوئی غدار نہیں

پردہ آنکھوں سے تعصب کا ہٹا کر دیکھو


سن کے فرمائیش بچوں کی کہا باپ نے یہ

کس طرح چلتا ہے گھر گھر کو چلا کر دیکھو


خط میں تحریر اسے کرنا بہت مشکل ہے

جو مرا حال ہے تم آنکھوں سے آکر دیکھو


میرا دعویٰ ہے سکوں تم کو ملے گا یاسین

کسی بھوکے کو کبھی کھانا کھلا کر دیکھو


یاسین انصاری


سلطان اطہر

 پُر اِنتشار ، کیفیتِ گومگو میں ہیں

ہم بے قرار ، کیفیتِ گومگو میں ہیں


مُضطر ہیں دیکھتے ہُوئے یُوں کاروانِ وقت

بن کر غُبار ، کیفیتِ گومگو میں ہیں


فِطرت سے بھاؤ تاؤ تو کر ہی لیا مگر

لے کے اُدھار ، کیفیتِ گومگو میں ہیں


راہِ فرار کر گئے تھے اختیار جو

وسطِ مدار ، کیفیتِ گومگو میں ہیں


پہلے تو آئے سامنے خم ٹھونکتے ہُوئے

اب میرے یار، کیفیتِ گومگو میں ہیں


یا رب ! نکال کش مکشِ دو جہان سے

پروردگار ! کیفیتِ گومگو میں ہیں


اطہؔر ہمارا تُم سے نہ مِل پاۓ گا مزاج

ہم بے شُمار ، کیفیتِ گومگو میں ہیں


سلمان اطہر


عبید صدیقی

 یوم پیدائش 27 مئی 1957


تری نسبت سے اپنی ذات کا ادراک کرنے میں

بہت عرصہ لگا ہے پیرہن کو چاک کرنے میں


تری بستی کے باشندے بہت آسودہ خاطر ہیں

تکلف ہو رہا ہے درد کو پوشاک کرنے میں


ہم اپنے جسم کا سونا سفر پر لے کے نکلے ہیں

مگر ڈرتے ہیں اس کو راستوں کی خاک کرنے میں


فقط اک دیدۂ تر ہے کہ جو سیراب کرتا ہے

سمندر سوکھ جاتے ہیں بدن نمناک کرنے میں


ہمارے ساتھ کچھ گزرے ہوئے موسم بھی شامل ہیں

تماشا گاہ عالم تجھ کو عبرت ناک کرنے میں


عبید صدیقی


عمران رفعت

 یوم پیدائش 26 مئی1977


نہ ایسا کوئی سودا گرم بازاری میں کر لینا

تم اپنے گھر کا بٹوارہ نہ گھر داری میں کر لینا


کہاں سے وار کرنا ہے کہاں پر وار کرنا ہے

یہ نا سمجھی سے مت کرنا سمجھداری میں کر لینا


بدی تم نے تو بو رکھی ہے سارے کھیت میں لیکن

سنو کچھ نیکیاں پیدا بھی اک کیاری میں کر لینا


علم گرنے نہ پائے ہاتھ کٹ جائے تو کٹ جائے

اک ایسا کام بھی اپنی علم داری کر لینا


ابھی ہے وقت اپنی آرزوئیں پوری کرنے کا

رہا پرہیز تو پرہیز بیماری میں کر لینا


تمہیں جب بے سبب افواہ پھیلانے کی عادت ہے

لہو میرا بھی شامل اپنی گل کاری میں کر لینا


ہمارے نام درویشوں کا یہ پیغام ہے رفعت

گزارا جس طرح بھی ہو وفا داری میں کر لینا 


عمران رفعت


حرا قاسمی

 وم پیدائش 26 مئی


آئے گا ترے پاس نہ دنیا کا کوئی شر

اے صاحبِ اوصاف تو والنّاس پڑھا کر


منظورِ نظر اہلِ طرب ہی ہیں ترے کیوں

ہم سے بھی تو، تو مل کبھی صحراؤں میں آ کر


لوگوں کی نگاہوں سے چھپاؤں تجھے کیسے

اے شخص ترا نام تو لکھا ہے جبیں پر


اب آنکھ کے سوتے سے نکلتا نہیں ہے خوں

اک عمر ہوئی سوکھ گیا درد کا ساغر


تو وادی ء گلشن کے اجڑنے کا سبب ہے

الزام یہ رکھا ہے بہاروں نے مرے سر


حرا قاسمی


شفیق جونپوری

 یوم پیدائش 26 مئی 1902


ایسی نیند آئی کہ پھر موت کو پیار آ ہی گیا

رات بھر جاگنے والے کو قرار آ ہی گیا


خاک میں یوں نہ ملانا تھا مری جاں تم کو

اک وفادار کے دل میں بھی غبار آ ہی گیا


یاد گیسو نے تسلی تو بہت دی لیکن

سامنے رات مآل دل زار آ ہی گیا


کشتۂ ناز کی میت پہ نہ آنے والا

پھول دامن میں لیے سوئے مزار آ ہی گیا


یہ بیاباں یہ شب ماہ یہ خنکی یہ ہوا

اے خزاں تجھ کو بھی انداز بہار آ ہی گیا


آفریں اشک ندامت کی درخشانی کو

اک سیہ کار کے چہرے پہ نکھار آ ہی گیا


بعد منزل بھی نہ محسوس ہوا مجھ کو شفیقؔ

مرحبا صل علیٰ کوچۂ یار آ ہی گیا


شفیق جونپوری


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...