Urdu Deccan

Monday, June 7, 2021

علینا عترت

 یوم پیدائش 06 جون


خزاں کی زرد سی رنگت بدل بھی سکتی ہے

بہار آنے کی صورت نکل بھی سکتی ہے


جلا کے شمع اب اٹھ اٹھ کے دیکھنا چھوڑو

وہ ذمہ داری سے از خود پگھل بھی سکتی ہے


ہے شرط صبح کے رستے سے ہو کے شام آئے

تو رات اس کو سحر میں بدل بھی سکتی ہے


ذرا سنبھل کے جلانا عقیدتوں کے چراغ

بھڑک نہ جائیں کہ مسند یہ جل بھی سکتی ہے


ابھی تو چاک پہ جاری ہے رقص مٹی کا

ابھی کمہار کی نیت بدل بھی سکتی ہے


یہ آفتاب سے کہہ دو کہ فاصلہ رکھے

تپش سے برف کی دیوار گل بھی سکتی ہے


ترے نہ آنے کی تشریح کچھ ضروری نہیں

کہ تیرے آتے ہی دنیا بدل بھی سکتی ہے


کوئی ضروری نہیں وہ ہی دل کو شاد کرے

علیناؔ آپ طبیعت بہل بھی سکتی ہے


علینا عترت


شوق بہرائچی

 یوم پیدائش 06 جون 1884


ایمان کی لغزش کا امکان ارے توبہ

بد چلنی میں زاہد کا چالان ارے توبہ


اٹھ کر تری چوکھٹ سے ہم اور چلے جائیں

انگلینڈ ارے توبہ جاپان ارے توبہ


ہے گود کے پالوں سے اب خوف دغا بازی

یہ اپنے ہی بھانجوں پر بہتان ارے توبہ


انسانوں کو دن دن بھر اب کھانا نہیں ملتا

مدت سے فروکش ہیں رمضان ارے توبہ


للہ خبر لیجے اب قلب شکستہ کی

گرتا ہے محبت کا دالان ارے توبہ


دامان تقدس پر داغوں کی فراوانی

اک مولوی کے گھر میں شیطان ارے توبہ


اب خیریتیں سر کری معلوم نہیں ہوتیں

گنجوں کو ہے ناخن کا ارمان ارے توبہ


مشرق پہ بھی نظریں ہیں مغرب پہ بھی نظریں ہیں

ظالم کے تخیل کی لمبان ارے توبہ


اے شوقؔ نہ کچھ کہئے حالت دل مضطر کی

ہوتا ہے مسیحا کو خفقان ارے توبہ


شوق بہرائچی


ناصر محمود لالہ

 یوم پیدائش 05 جون 1968


پھول کھلنے لگے بہانے سے

رات دن اس کے گنگنانے سے


بعد میں کون اتنے رنج سہے

باز آیا میں مسکرانے سے


اب میں خود پر بھروسہ کرنے لگا

بچ گیا ہوں فریب کھانے سے


دل میں جو تھا وہ کہہ دیا اس کو

تیر بھٹکا نہیں نشانے سے


ساری دنیا حسین لگتی ہے

کسقدر خوش ہوں دل لگانے سے


گھر کی تنہائی کم ہوئی ناصر

نقش دیوار پر بنانے سے


ناصر محمود لالہ


محمد سراج الدین سیف

 یوم پیدائش 05 جون 1947


چاند تاروں پہ بےشک نظر کیجئے

فکر اپنی زمیں کی مگر کیجئے


آپ اندھیروں کو یوں بے اثر کیجئے

"رات بھر انتظار سحر کیجئے"


تجربوں پر نئے تجربے اب نہیں

راہبر جیسا ہی راہبر کیجئے


زیر کر پائیں گے حق پرستوں کو کیا

لاکھ دنیا ادھر کی ادھر کیجئے


اپنے اللہ سے یہ دعا ہے مری

مجھ کو اول تو اچھا بشر کیجئے


یہ نشان جبیں کام آئیں گے کیا

صدق دل سے نہ سجدے اگر کیجئے


'سیف' پہچاننا ہو کسی کو اگر

ساتھ میں اس کے کوئی سفر کیجئے


'محمد سراج الدین سیف


سیماب اکبرآبادی

 یوم پیدائش 05 جون 1882


گیارہواں شعر بہادر شاہ ظفر کے نام سے بھی منسوب ہے مگر در حقیقت یہ شعر سیماب کا ہے ۔ جسے سیماب نے علی گڑھ کے ایک مشاعرے میں بھی پڑھا تھا اور ان کی 1947ءمیں شائع ہونے والی کتاب ”کلیم عجم“ میں بھی موجود ہے۔


شاید جگہ نصیب ہو اس گل کے ہار میں

میں پھول بن کے آؤں گا اب کی بہار میں


کفنائے باغباں مجھے پھولوں کے ہار میں

کچھ تو برا ہو دل مرا اب کی بہار میں


گندھوا کے دل کو لائے ہیں پھولوں کے ہار میں

یہ ہار ان کو نذر کریں گے بہار میں


نچلا رہا نہ سوز دروں انتظار میں

اس آگ نے سرنگ لگا دی مزار میں


خلوت خیال یار سے ہے انتظار میں

آئیں فرشتے لے کے اجازت مزار میں


ہم کو تو جاگنا ہے ترے انتظار میں

آئی ہو جس کو نیند وہ سوئے مزار میں


میں دل کی قدر کیوں نہ کروں ہجر یار میں

ان کی سی شوخیاں ہیں اسی بے قرار میں


سیمابؔ بے تڑپ سی تڑپ ہجر یار میں

کیا بجلیاں بھری ہیں دل بے قرار میں


تھی تاب حسن شوخیٔ تصویر یار میں

بجلی چمک گئی نظر بے قرار میں


بادل کی یہ گرج نہیں ابر بہار میں

برا رہا ہے کوئی شرابی خمار میں


عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن

دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں


تنہا مرے ستانے کو رہ جائے کیوں زمیں

اے آسمان تو بھی اتر آ مزار میں


خود حسن نا خدائے محبت خدائے دل

کیا کیا لئے ہیں میں نے ترے نام پیار میں


مجھ کو مٹا گئی روش شرمگیں تری

میں جذب ہو گیا نگۂ شرمسار میں


اللہ رے شام غم مری بے اختیاریاں

اک دل ہے پاس وہ بھی نہیں اختیار میں


اے اشک گرم ماند نہ پڑ جائے روشنی

پھر تیل ہو چکا ہے دل داغدار میں


یہ معجزہ ہے وحشت عریاں پسند کا

میں کوئے یار میں ہوں کفن ہے مزار میں


اے درد دل کو چھیڑ کے پھر بار بار چھیڑ

ہے چھیڑ کا مزا خلش بار بار میں


افراط معصیت سے فضیلت ملی مجھے

میں ہوں گناہ گاروں کی پہلی قطار میں


ڈرتا ہوں یہ تڑپ کے لحد کو الٹ نہ دے

ہاتھوں سے دل دبائے ہوئے ہوں مزار میں


تم نے تو ہاتھ جور و ستم سے اٹھا لیا

اب کیا مزا رہا ستم روزگار میں


کیا جانے رحمتوں نے لیا کس طرح حساب

دو چار بھی گناہ نہ نکلے شمار میں


او پردہ دار اب تو نکل آ کہ حشر ہے

دنیا کھڑی ہوئی ہے ترے انتظار میں


روئی ہے ساری رات اندھیرے میں بے کسی

آنسو بھرے ہوئے ہیں چراغ مزار میں


سیمابؔ پھول اگیں لحد عندلیب سے

اتنی تو زندگی ہو ہوائے بہار میں


سیماب اکبرآبادی


خالد احمد

 یوم پیدائش 05 جون 1944


کھلا مجھ پر در امکان رکھنا

مرے مولا مجھے حیران رکھنا


یہی اک مرحلہ منزل نہ ٹھہرے

یہی اک مرحلہ آسان رکھنا


مرے دل کا ورق نکلے نہ سادہ

کوئی خواہش کوئی ارمان رکھنا


یہ دل طاق چراغ زر نہ ٹھہرے

مرے مالک مجھے نادان رکھنا


مرے حالات مجھ کو چھو نہ پائیں

مجھے ہر حال میں انسان رکھنا


بھری رکھنا مرے مولا یہ آنکھیں

دکھوں کی بارشوں کا مان رکھنا


مرے ساتھی بھی مجھ سے بے نوا ہیں

بساطیں دیکھ کر تاوان رکھنا


یہ دن کیوں کر چڑھا وہ شب ڈھلی کیوں

مجھے آیا نہ اتنا دھیان رکھنا


مجھے بھی عام یا گمنام کر دے

کہ اک آزار ہے پہچان رکھنا


اسیر عمر کو آیا نہ اب تک

کتاب ہجر کا عنوان رکھنا


ہوا کی طرح صحرا سے گزر جا

سفر میں کیا سر و سامان رکھنا


خالد احمد


Sunday, June 6, 2021

صابر جوہری بھدوہوی

 کبھی ہے خار مغیلاں کبھی چمیلی ہے

یہ زندگی بھی عجب طرح کی پہیلی ہے 


جدھر بھی دیکھئے وحشت ، اداسی ، سناٹا 

مری حیات اک اجڑی ہوئی حویلی ہے 


شب فراق ! ادھر آ گلے لگا لیں تجھے 

جہاں میں تو بھی ہماری طرح اکیلی ہے 


لٹا دی اپنے بزرگوں کی میں نے کل میراث 

نجومی کہتا ہے روشن مری ہتھیلی ہے 


نہیں ہے تم سے کوئی خوف حادثو ! ہم کو 

سفر سے پہلے دعا ماں کی ہم نے لے لی ہے 


مرے عیال تو فاقہ کشی پہ ہیں مجبور 

مرے ضمیر کی اونچی مگر حویلی ہے 


دعا ہے اے شب ہجراں ! ہو تیری عمر دراز 

مری حیات کی تنہا تو ہی سہیلی ہے 


میں اپنے دور کا موسیٰ ہوں شاید اے صابر !

کہ آفتاب کی صورت مری ہتھیلی ہے 


صابر جوہری بھدوہوی


ذکی انور مئوی

 کھلا کھلا سا یہ گیسو سحاب جیسا ہے

نظر شراب تو چہرہ گلاب جیسا ہے


شفق نجوم بھی مثل حضور لگتے ہیں

یہ ماہتاب بھی عالی جناب جیسا ہے


یہ بھیگے ہونٹ یہ رخسار رس بھری آنکھیں

ترا شباب سراپا شراب جیسا ہے


اے تشنہ کام محبت یہ راہ عشق کی ہے

نظر کا دھوکہ ہے سب کچھ سراب جیسا ہے


تصورات میں بھی میں مہک مہک جاؤں

خیال آپ کا عرق گلاب جیسا ہے


میں ہنس رہا ہوں مگر عارضی ہنسی ہے یہ

ترا فراق مری جاں عذاب جیسا ہے


کھٹاس آئی ہے رشتے میں لاکھ پر انور

نہ ٹوٹا پھر بھی یہ تھوڑی نہ خواب جیسا ہے


ذکی انور مٸوی


سحرش خان

 یوم پیدائش 01 جون


ہم چاہتے تو ہیں تری زلفوں کی گھنی چھاں 

لیکن ترے پہلو میں نہیں کوئی شبستاں


رکھتے ہو جہاں پیر وہیں دِل کو بچھایا

رَستے میں تو آباد نہ تھا کوئی گلستاں


رویا ہے بہت اپنے وہ اِک خواب کی خاطر

مسکین کی کٹیا جو جلا آیا تھا حیواں


ایسی بھی کٹی رات کہ ٹھٹھرے رہے سپنے

ایسا بھی کٹا دِن کہ لگا ریت کا طوفاں


گردُوں میں کہاں ظرف اٹھا پائے وہ ہم کو

ہم خاک کے پتُلے نہ رہے خُلد خراماں

                                                                                       سحرش خان


محمد الیاس کرگلی

 میرے محبوب کبھی آکے ملا کر مجھ سے

میری ہستی کو نہ یوں اور جدا کر مجھ سے


میں تو اک دن تری دنیا سے چلا جاؤں گا

مری تحریر میں دیدار کیا کر مجھ سے


کیوں مجھے دیکھ کے تو دور چلا جاتاہے

کیوں گیا آج بھی نظروں کو ہٹا کر مجھ سے


یہ جو اک چال ہے اس چال سے ڈر لگتا ہے

لے گیا چیز میری آج چھپا کر مجھ سے


ہے تقاضا مرے اخلاص کا تم سے مری جاں

میں تو حقدار بھی ہوں عشق سوا کر مجھ سے


چاند تاروں میں یقیں مجھ کو نہیں ہے لیکن

کیوں بھلا لے گیا تقدیر لکھا کر مجھ سے


مجھ کو الیاس بتا پہرہِ دل ہے کیا یہ

لے گیا دل کوئی افسوس چرا کر مجھ سے


محمد الیاس کرگلی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...