Urdu Deccan

Tuesday, June 15, 2021

محمد عالم چشتی

 یوم پیدائش 13 جون 1982 


صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم


وجد میں ہے فہم و ادراک ابھی

کیف میں ہے چشمِ نمناک ابھی


خم ہے جبیں یہ مواجہ کی طرف

کر دیں ختم اب یہ امساک ابھی


ظاہر و باطن فنا نقشِ کہن

ہونے لگا دل مرا چاک ابھی


چوم لی ہے میں نے نقشِ کفِ پا

رشک کے قابل ہے وہ تاک ابھی


ہے نشے میں اب تلک نورِ بصر

روبرو ہیں وہ شہ لولاک ابھی


کی یہ ادب سے گزارش میں نے بھی

مجھ کو ملے قدموں کی خاک ابھی


تیرا بھلا ہو تری خیر ہو اب

سایہ فگن ہیں نبی پاک ابھی


لوٹ کہ حکمت یہ عالم ہے چلا 

حیراں تبھی ہے یہ افلاک ابھی


محمد عالم چشتی


سراج آغازی جبلپوری

 یوم پیدائش 13 جون 1958


سمجھ کے گر وقت کا اشارہ نہیں چلے گا

تو رہبری پر ترا اجارہ نہیں چلے گا


حصارِ گرداب توڑ ساحل کو بڑھ کے چھو لے

وگرنہ جانب تری کنارہ نہیں چلے گا


حیات صد شوق عشق کی نذر آپ کیجے

مگر یہاں شکوۂ خسارہ نہیں چلے گا


پناہ گاہیں بھی کم نہیں مقتلوں سے یارو

پرائی چھت کا اب استعارہ نہیں چلے گا


یہ زخم سوغاتِ چشمِ جاناں ہیں چھیڑئے مت

کہ ان پہ جرّاحو بس تمہارا نہیں چلے گا


عمل ضروری ہے زندگی میں سکوں کی خاطر

فقط دعاؤں کا استخارہ نہیں چلے گا


سراج ہے مستحق اِسے دے نہ دے اُسے تو 

جو کہہ رہا ہے ترا اتارا نہیں چلے گا


سراج آغازی جبلپوری


خالد ابرار

 موت ہر موڑ پہ رقصاں ہے خدا خیر کرے

 خون پانی سے بھی ارزاں ہے خدا خیرکرے


اشکِ مجبور نگاہوں سے چھلکتے ہی نہیں

خوں چکاں دامنِ مژگاں ہے خدا خیر کرے


 سانس لیتا ہے تو ارمان دہل جاتے ہیں

 کتنا مجبور مسلماں ہے خدا خیر کرے


 دم کا مہمان ہے کمبخت ستم گر لیکن

اصل میں کودکِ ناداں ہے خدا خیر کرے


خالد ابرار


خالد محمود نقشبندی

 یوم پیدائش 13 جون 1941


کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی میری بندگی ہے

یہ سب تمہارا کرم ہے آقاﷺ کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے


کسی کا احسان کیوں اُٹھائیں کسی کو حالات کیوں بتائیں

تمہیں سے مانگیں گے تم ہی دو گے تمہارے در سے ہی لو لگی ہے


تجلّیوں کے کفیل تم ہو مُرادِ قلبِ خلیل تم ہو

خدا کی روشن دلیل تم ہو یہ سب تمہاری ہی روشنی ہے


تمہیں ہو روحِ روانِ ہستی سکوں نظر کا دلوں کی مستی

ہے دوجہاں کی بہار تم سے تمہیں سے پھولوں میں تازگی ہے


شعور و فکر و نظر کے دعوے حدِ تعیّن سے بڑھ نہ پائے

نہ چھو سکے ان بلندیوں کو جہان مقامِ محمدیﷺ ہے


نظر نظر رحمتِ سراپا ادا ادا غیرتِ مسیحا

ضمیرِ مُردہ بھی جی اُٹھے ہیں جدھر تمہاری نظر اُٹھی ہے


عمل کی میرے اساس کیا ہے بَجُز ندامت کے پاس کیا ہے

رہے سلامت تمہاری نسبت مرا تو اک آسرا یہی ہے


عطا کیا مجھکو دردِ اُلفت کہاں تھی یہ پُر خطا کی قسمت

میں اس کرم کے کہاں تھا قابل حضورﷺ کی بندہ پروری ہے


انہی کے در سے خدا ملا ہے انہیں سے اس کا پتہ چلا ہے

وہ آئینہ جو خدا نما ہے جمالِ حُسنِ حضورﷺ ہی ہے


بشیر کہیئے نذیر کہیئے انہیں سراجِ مُنیر کہیئے

جو سر بَسر ہے کلامِ رَبّی وہ میرے آقاﷺ کی زندگی ہے


ثنائے محبوبِ حق کے قرباں سرورِ جاں کا یہی ہے عُنواں

ہر ایک مستی فنا بداماں یہ کیف ہی کیف سرمدی ہے


ہم اپنے اعمال جانتے ہیں ہم اپنی نسبت سے کچھ نہیں ہیں

تمہارے در کی عظیم نسبت متاعِ عظمت بنی ہوئی ہے


یہی ہے خالدؔ اساسِ رحمت یہی ہے خالدؔ بِنائے عظمت

نبیﷺ کا عرفان زندگی ہے نبیﷺ کا عرفان بندگی ہے


صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

 خالد محمود خالد نقشبندی


صابر جوہری

 نظر کب سے تری جانب گڑی ہے 

تمنا ہاتھ پھیلائے کھڑی ہے


مرے چاروں عناصر لڑ رہے ہیں

شکست زیست کی شاید گھڑی ہے


گھمانے سے جسے مقصد ہو پورا 

کہاں جادو کی اب ایسی چھڑی ہے 


چرانے کے لئے پھولوں سے خوشبو 

گلستاں میں ہر اک تتلی اٙڑی ہے


جڑے ہیں شعر میں الفاظ ایسے 

کہ جیسے موتی کی دل کش لڑی ہے 


مری تقدیر کے آنگن میں کب سے

غریبی بال بکھرائے کھڑی ہے


چھڑی ہے میرے اندر جنگ ہردم

مصیبت مجھ پہ کیسی آ پڑی ہے


بجھانے کے لئے شمع محبت 

ہواؤں کو بہت جلدی پڑی ہے


ہوا ہوں جب سے بےگانہ جہاں سے

مری دہلیز پر دنیا کھڑی ہے


مرض جو دل کا جڑ سے ٹھیک کر دے 

کوئی دنیا میں کیا ایسی جڑی ہے


کسی بھی کام کا سچ میں نہیں تو

تری ہر بات ہی صابر بڑی ہے


صابر جوہری


ڈاکٹر نریش

 دل سی نایاب چیز کھو بیٹھے

کیسی دولت سے ہاتھ دھو بیٹھے


عہد ماضی کا ذکر کیا ہمدم

عہد ماضی کو کب کے رو بیٹھے


ہم کو اب غم نہیں جدائی کا

اشک غم جام میں سمو بیٹھے


وعظ کرنے کو آئے تھے واعظ

مے سے دامن مگر بھگو بیٹھے


کیا سبب ہے نریشؔ جی آخر

کیوں جدا آج سب سے ہو بیٹھے


ڈاکٹر نریش


خواجہ عزیز الحسن مجذوب

 یوم پیدائش 12 جون 1884


ہر چیز میں عکس رخ زیبا نظر آیا

عالم مجھے سب جلوہ ہی جلوہ نظر آیا


تو کب کسی طالب کو سراپا نظر آیا

دیکھا تجھے اتنا جسے جتنا نظر آیا


کیں بند جب آنکھیں تو مری کھل گئیں آنکھیں

کیا تم سے کہوں پھر مجھے کیا کیا نظر آیا


جب مہر نمایاں ہوا سب چھپ گئے تارے

تو مجھ کو بھری بزم میں تنہا نظر آیا


گردوں کو بھی اب دیکھ کے ہوتی ہے تسلی

غربت میں یہی ایک شناسا نظر آیا


سب دولت کونین جو دی عشق کے بدلے

اس بھاؤ یہ سودا مجھے سستا نظر آیا


ناکام ہی تا عمر رہا طالب دیدار

ہر جلوہ ترا بعد کو پردا نظر آیا


جو دور نگاہوں سے سر عرش بریں ہے

وہ نور سر گنبد خضرا نظر آیا


مجذوبؔ کبھی سوز کبھی ساز ہے تجھ میں

تو میرؔ کبھی اور کبھی سوداؔ نظر آیا


مجذوبؔ کے جذبے کی جو سمجھے نہ حقیقت

ان عقل کے اندھوں کو یہ سودا نظر آیا


خواجہ عزیز الحسن مجذوب


سمیع احمد ثمر

 انسان کو انسان سے ہی پیار نہیں ہے

اس قوم میں کوئی بھی وفادار نہیں ہے


یہ حسن کا بازار ہے چلتا ہے یہاں زر

دل کا یہاں کوئی بھی خریدار نہیں ہے


واقف ہے طبیعت سے مری سارا زمانہ 

دنیا میں کسی سے مری تکرار نہیں ہے


مظلوم پہ کرتا ہے ستم جو بھی ستم گر

چلتی سدا اس کی کبھی سرکار نہیں ہے


دنیا میں مرا ساتھ نہیں دیتا ہے کوئی

اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں ہے


الفت کی بھلا ابتدا ہو پائے گی کیسے

ہونٹوں پہ ترے پیار کا اقرار نہیں ہے


یہ زہر جدائی کا گوارا نہیں مجھ کو

عاشق ہوں ترا عشق سے انکار نہیں ہے


سمیع احمد ثمر ؔ


شاہد عباس ملک

 درد ہونا قرار پایا ہے 

یعنی رونا قرار پایا ہے 


میری قسمت میں رتجگے آئے  

ان کا سونا قرار پایا ہے


فکر ہونے لگی ہے کانٹوں کی 

یہ بچھونا قرار پایا ہے


آ ندامت گلے لگا مجھ کو 

داغ دھونا قرار پایا ہے


 جس کی مرضی ہے کھیل سکتا ہے 

دل کھلونا قرار پایا ہے


دشت شاہد بلا رہا ہے مجھے 

پھر سے کھونا قرار پایا ہے


شاہد عبا


س ملک

ندیم ناجد

 تکیے سے پھوٹی نظم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترے تکیے کے نیچے

میں رکھےاس خواب جیسا ہوں

جسے فرصت میں دیکھوں گی

یہ کہہ کر رکھ دیا تھا


تمہاری کروٹوں سے۔ آنسوں سے

اور خوابوں سے نمی پا کر

تمہارے عشق میں گوندھی

میں اب اس نظم کی صورت مہکتا ہوں

بوقتِ فجر جس کو

اب پرندے گنگُناتے ہیں

جسے سُنتے ہی

گہری نیند میں سوئی ہوئی خلقت

نمازِ عشق پڑھنے کے لیے

بیدار ہوتی ہے


تمہارے عشق میں گوندھی

میں اب اُس نظم کی صورت مہکتا ہوں

تمہیں فُرصت ملے تو؟؟؟؟؟؟؟؟


ندیم ناجد


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...