Urdu Deccan

Thursday, June 24, 2021

ضیاء رشیدی

 نفرتوں کا گرم اب بازار ہے 

الفتوں کی گررہی دیوار ہے


شکل و صورت سے نہیں کوئی غرض 

اصل تو انسان کا کردار ہے


ہے کرونا وائرس کیسی وبا 

یار سے ہی بھاگتا اب یار ہے


کیسے آئے نیند اب انسان کو 

ہرطرف لاشوں کا جب انبار ہے


ہر طرف مردوں پہ ماتم دیکھ کر 

خوف میں ڈوبا ہوا سنسار ہے


ہر کوئی اک دوسرے سے بھاگتا 

کون کس کا ا ب یہاں غم خوار ہے


موت کی خبروں کو سن کر اے ضیاء 

دل مرا بھی اب بہت بیزار ہے


ضیاء رشیدی


ظہور ظہیرآبادی

 زندگی میں نہ بچھڑیں گے تم سے کبھی

یہ جو کہتا تھا وہ بھی جدا ہو گیا


ظہور ظہیرآبادی


Tuesday, June 15, 2021

یشب تمنا

 یوم پیدائش 16 جون 1957


پھر بھی نہیں کہتا کہ وہ بہتر نہیں نکلے

باہر کئی منظر تھے جو اندر نہیں نکلے


تا عمر اب اندر ہی کہیں گرتے رہیں گے

رویا ہوں تو آنسو مرے باہر نہیں نکلے


پتھر کے زمانے سے نکل آئے ہیں لیکن

سوچوں سے ہماری ابھی پتھر نہیں نکلے


سر پھوڑتے رہتے ہیں سر شہر الم میں

لیکن سر دیوار جنوں در نہیں نکلے


اک بار یہ دل خانماں برباد ہوا تھا

لگتا ہے ابھی دل سے وہی ڈر نہیں نکلے


کیا ہے کہ اگر میں کوئی فرہاد نہ نکلا

تم بھی تو مقدر کے سکندر نہیں نکلے


دریائے محبت کا مجھے دعویٰ نہیں تھا

پر تم بھی محبت میں سمندر نہیں نکلے


یشب تمنا


شہر یار

 یوم پیدائش 16 جون 1936


دل میں رکھتا ہے نہ پلکوں پہ بٹھاتا ہے مجھے

پھر بھی اک شخص میں کیا کیا نظر آتا ہے مجھے


رات کا وقت ہے سورج ہے مرا راہنما

دیر سے دور سے یہ کون بلاتا ہے مجھے


میری ان آنکھوں کو خوابوں سے پشیمانی ہے

نیند کے نام سے جو ہول سا آتا ہے مجھے


تیرا منکر نہیں اے وقت مگر دیکھنا ہے

بچھڑے لوگوں سے کہاں کیسے ملاتا ہے مجھے


قصۂ درد میں یہ بات کہاں سے آئی

میں بہت ہنستا ہوں جب کوئی سناتا ہے مجھے


شہریار


شاعر جمالی

 یوم پیدائش 15 جون 1943


مرے نصیب کا لکھا بدل بھی سکتا تھا

وہ چاہتا تو مرے ساتھ چل بھی سکتا تھا


یہ تو نے ٹھیک کیا اپنا ہاتھ کھینچ لیا

مرے لبوں سے ترا ہاتھ جل بھی سکتا تھا


اڑاتی رہتی ہے دنیا غلط سلط باتیں

وہ سنگ دل تھا تو اک دن پگھل بھی سکتا تھا


اتر گیا ترا غم روح کی فضاؤں میں

رگوں میں ہوتا تو آنکھوں سے ڈھل بھی سکتا تھا


میں ٹھیک وقت پہ خاموش ہو گیا ورنہ

مرے رفیقوں کا لہجہ بدل بھی سکتا تھا


انا کو دھوپ میں رہنا پسند تھا ورنہ

ترے غرور کا سورج تو ڈھل بھی سکتا تھا


رگڑ سکی نہ مری پیاس ایڑیاں ورنہ

ہر ایک ذرے سے چشمہ ابل بھی سکتا تھا


پسند آئی نہ ٹوٹی ہوئی فصیل کی راہ

میں شہر تن کی گھٹن سے نکل بھی سکتا تھا


وہ لمحہ جس نے مجھے ریزہ ریزہ کر ڈالا

کسی کے بس میں جو ہوتا تو ٹل بھی سکتا تھا


شاعر جمالی


جمال پانی پتی

 یوم پیدائش 15 جون 1927


وہ لہو روئی ہیں آنکھیں کہ بتانا مشکل

اب کوئی خواب ان آنکھوں میں سجانا مشکل


کتنی یادیں تھیں کہ گرد رہ ایام ہوئیں

کتنے چہروں کا ہوا دھیان میں لانا مشکل


کتنے شب خوں تھے اجالوں پہ جو مارے نہ گئے

کتنی شمعیں تھیں ہوا جن کا جلانا مشکل


کتنے دروازے دلوں کے تھے جو دیوار بنے

ایسی دیوار کہ در جس میں بنانا مشکل


رنگ جتنے تھے بہاروں میں بہاروں سے گئے

اس چمن زار میں اب جی کا لگانا مشکل


وہ بھی اے شہر نگاراں تھا کوئی موسم خواب

بیت جانے پہ بھی ہے جس کو بھلانا مشکل


رقص کرتے ہوئے کانٹوں پہ چلے ہم ورنہ

ہر قدم راہ میں تھا پھول کھلانا مشکل


یوں ہی چڑھتا رہا گر درد کا دریا تو جمالؔ

کشتیٔ جاں کو کنارے سے لگانا مشکل


جمال پانی پتی


ابن انشا

 یوم پیدائش 15 جون 1927


کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا 

کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا


ہم بھی وہیں موجود تھے ہم سے بھی سب پوچھا کیے

ہم ہنس دئیے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ ترا 


اس شہر میں کس سے ملیں ہم سے تو چھوٹیں محفلیں 

ہر شخص تیرا نام لے ہر شخص دیوانا ترا 


کوچے کو تیرے چھوڑ کر جوگی ہی بن جائیں مگر 

جنگل ترے پربت ترے بستی تری صحرا ترا 


ہم اور رسم بندگی آشفتگی افتادگی 

احسان ہے کیا کیا ترا اے حسن بے پروا ترا 


دو اشک جانے کس لیے پلکوں پہ آ کر ٹک گئے 

الطاف کی بارش تری اکرام کا دریا ترا 


اے بے دریغ و بے اماں ہم نے کبھی کی ہے فغاں 

ہم کو تری وحشت سہی ہم کو سہی سودا ترا 


ہم پر یہ سختی کی نظر ہم ہیں فقیر رہ گزر 

رستہ کبھی روکا ترا دامن کبھی تھاما ترا 


ہاں ہاں تری صورت حسیں لیکن تو ایسا بھی نہیں 

اک شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کیا کیا ترا 


بے درد سننی ہو تو چل کہتا ہے کیا اچھی غزل

عاشق ترا رسوا ترا شاعر ترا انشاؔ ترا


ابن انشا


اظہار اثر

 یوم پیدائش 15 جون 1927


ایک ہی شے تھی بہ انداز دگر مانگی تھی

میں نے بینائی نہیں تجھ سے نظر مانگی تھی


تو نے جھلسا دیا جلتا ہوا سورج دے کر

ہم نے جینے کے لیے ایک سحر مانگی تھی


ہم سفر کس کو کہیں شمس و قمر نے ہم سے

منہ پہ ملنے کے لیے گرد سفر مانگی تھی


کون آزر ہے جسے اپنا زیاں ہے مقصود

کس نے پتھر کے لیے روح بشر مانگی تھی


ایک لمحہ کوئی جی لے تو بڑی بات ہے یہ

اس لیے ہم نے اثرؔ عمر شرر مانگی تھی


اظہار اثر


خالد ندیم بدایونی

 اوراق زندگی کے ہوا میں اُچھال کر

کہہ دونگا آسمان سے رکھ لے سنبھال کر


دُنیائے بے ثبات کو حیرت میں ڈال کر

ایڑی سے ہم دکھاتے ہیں دَریا نکال کر


بچّوں نے رُخ ہواؤں کا پل میں سمجھ لیا

کاغذ کی ایک ناؤ سمندر میں ڈال کر


پروان کیا چڑھے کہ وہ آزاد ہو گئے

طائر جو میں نے رکھے تھے پنجرے میں پال کر


جِن کو تھا نا خُدائی کا دعویٰ نہ لا سکے

طغیانیوں کے بیچ سے کشتی نکال کر


وُسعت پہ جن کو فخر ہے گہرائیوں پہ ناز

دیکھے ہیں میں نے وہ بھی سمندر کھنگال کر


اُلفت کے اب مکان کی تعمیر تُم کرو

وہ جا چُکا ہے عشق کی بُنیاد ڈال کر


خالد ندیم بدایونی


عزیز حامد مدنی

 یوم پیدائش 15 جون 1922


فراق سے بھی گئے ہم وصال سے بھی گئے 

سبک ہوئے ہیں تو عیش ملال سے بھی گئے


جو بت کدے میں تھے وہ صاحبان کشف و کمال

حرم میں آئے تو کشف و کمال سے بھی گئے


اسی نگاہ کی نرمی سے ڈگمگائے قدم

اسی نگاہ کے تیور سنبھال سے بھی گئے


غم حیات و غم دوست کی کشاکش میں

ہم ایسے لوگ تو رنج و ملال سے بھی گئے


گل و ثمر کا تو رونا الگ رہا لیکن

یہ غم کہ فرق حرام و حلال سے بھی گئے


وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے

گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے


ہم ایسے کون تھے لیکن قفس کی یہ دنیا

کہ پر شکستوں میں اپنی مثال سے بھی گئے


چراغ بزم ابھی جان انجمن نہ بجھا

کہ یہ بجھا تو ترے خط و خال سے بھی گئے


عزیز حامد مدنی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...