Urdu Deccan

Monday, July 19, 2021

عابد حسین صائم

 یوم پیدائش 18 جولائی 1997


میں تیرے پاس جو بیٹھوں تو ڈر نہیں لگتا

وگرنہ گھر بھی مجھے اپنا گھر نہیں لگتا


ہر ایسا پیڑ کہ پتھر بھی نا لگے جس کو

بتا رہا ہے کہ مجھ پر ثمر نہیں لگتا


یہ کس غریب کے بچے کو مار ڈالا ہے

ارے تجھے تو خدا سے بھی ڈر نہیں لگتا


یہ کیا کہا وہ ہمارے ہی جیسا دکھتا ہے

ہمارے جیسا ہے بلکل مگر نہیں لگتا


یہ زندگی مری کچھ پل کا مشغلہ ہے بس

طویل عرصے کا مجھ کو سفر نہیں لگتا


عابد حسین صائم


منور پاشاہ ساحل تماپوری

 یوم پیدائش 18 جولائی 1963


پیڑ کی مانند دن بھر سر پہ جلتا سورج ڈھوتے ہیں

پھر بھی اپنےحصے ہی کیوں غم کے سائے ہوتے ہیں


پریوں اور شہزادوں کے اب قصے کون سناتا ہے

قتل اورخوں کی خبریں سنکر آج کے بچے سوتے ہیں


جس نے بھی روزی کی خاطر گھر اورگاؤں چھوڑ دیا

اس سے پوچھوکہ ماں بیوی اور بچے کیا ہوتے ہیں


أنسو چھالے آہیں یادیں اور امید

سانسوں کی ڈوری میں ہم بھی کیا کیا پھول پروتے ہیں


کون بتائے ان آشفتہ سر لوگوں کو اے ساحل 

زخم زباں کا باعث اکثر اپنے دانت ہی ہوتے ہیں


منور پاشاہ ساحل تماپوری


محسن کشمیری

 صدق و وفا کی اب وہ روایت نہیں رہی

کہتے ہیں اہل دل وہ محبت نہیں رہی


کھا کر فریب مال و متاعِ جہان کے

شوقِ جنوں میں ہائے حرارت نہیں رہی


کیسے میں اعتبار کروں تیری بات پر

تیرے بیاں میں اب وہ صداقت نہیں رہی


دل کی خطا نہیں ہے یہ آنکھوں کا ہے قصور

ہے معذرت! کہ غم کی حفاظت نہیں رہی


تھا حوصلہ تو دشت و بیاباں میں سربہ کف

لڑتے تو تھے پر اب وہ شجاعت نہیں رہی


یادوں میں عکس آج بھی موجود ہے تیرا

گر درمیان اب وہ قرابت نہیں رہی


ٹوٹا کچھ اس طرح سے گماں میرے پیار کا

تا عمر وصلِ یار کی چاہت نہیں رہی


محسن کو مانگنے کا سلیقہ تو کر عطا

کہتے ہیں اب دعا میں اجابت نہیں رہی


محسن کشمیری


Saturday, July 17, 2021

عابد علی عابد حافظ آبادی

یوم پیدائش 17 جولائی 1977


خوابِ طیبہ کے سوا میری نظر میں کچھ نہیں

جز ثنائے مصطفیٰ اس بے ہنر میں کچھ نہیں


بس درِ شاہِ امم کی خاک ہی درکار ہے

فائدہ مالِ جہاں، لعل و گہر میں کچھ نہیں


راحتیں ہی راحتیں ہیں، شوق ہوتا ہے فزوں

مشکلیں شہرِ پیمبر کے سفر میں کچھ نہیں


مدحتِ خير البشر  میں رہتا ہوں ایسا مگن

کام مجھ کو اور تو شام و سحر میں کچھ نہیں


سرورِ کون و مکاں کی عظمتیں پہچانیے

ورنہ لوگو اس جہانِ خشک و تر میں کچھ نہیں


مالکِ ارض و سما کی ہے محبت جاگزیں 

کون کہتا ہے مرے قلب و جگر میں کچھ نہیں


رحمتوں کا بخششوں کا در مدینے میں کھلا

بے ادب کہتے رہیں ان کے نگر میں کچھ نہیں


ان کی ضو سے ہی درخشاں کر رہا ہے دنیا کو

نور ہے سرکار کا ویسے قمر میں کچھ نہیں


حاضرو ناظر ،شفیع ونور ہیں ،مختار ہیں

جو خلاف اس کے ہو عابد اس خبر میں کچھ نہیں


عابد علی عابد حافظ آبادی


عقیل دانش

 یوم پیدائش 15 جولائی 1940


اس مریض غم غربت کو سنبھالا دے دو

ذہن تاریک کو یادوں کا اجالا دے دو


ہم ہیں وہ لوگ کہ بے قوم وطن کہلائے

ہم کو جینے کے لئے کوئی حوالہ دے دو


میں بھی سچ کہتا ہوں اس جرم میں دنیا والو

میرے ہاتھوں میں بھی اک زہر کا پیالہ دے دو


اب بھی کچھ لوگ محبت پہ یقیں رکھتے ہیں

ہو جو ممکن تو انہیں دیس نکالا دے دو


وہ نرالے ہیں کرو ذکر تم ان کا دانشؔ

اپنی غزلوں کو بھی انداز نرالا دے دو


عقیل دانش


عزیز وارثی

 یوم پیدائش 17 جولائی 1924


سوزش غم کے سوا کاہش فرقت کے سوا

عشق میں کچھ بھی نہیں درد کی لذت کے سوا


دل میں اب کچھ بھی نہیں ان کی محبت کے سوا

سب فسانے ہیں حقیقت میں حقیقت کے سوا


کون کہہ سکتا ہے یہ اہل طریقت کے سوا

سارے جھگڑے ہیں جہاں میں تری نسبت کے سوا


کتنے چہروں نے مجھے دعوت جلوہ بخشی

کوئی صورت نہ ملی آپ کی صورت کے سوا


غم عقبیٰ غم دوراں غم ہستی کی قسم

اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا


بزم جاناں میں ارے ذوق فراواں اب تک

کچھ بھی حاصل نہ ہوا دیدۂ حیرت کے سوا


وہ شب ہجر وہ تاریک فضا وہ وحشت

کوئی غمخوار نہ تھا درد کی شدت کے سوا


محتسب آؤ چلیں آج تو مے خانے میں

ایک جنت ہے وہاں آپ کی جنت کے سوا


جو تہی دست بھی ہے اور تہی دامن بھی

وہ کہاں جائے گا تیرے در دولت کے سوا


جس نے قدرت کے ہر اقدام سے ٹکر لی ہے

وہ پشیماں نہ ہوا جبر مشیت کے سوا


مجھ سے یہ پوچھ رہے ہیں مرے احباب عزیزؔ

کیا ملا شہر سخن میں تمہیں شہرت کے سوا


عزیز وارثی


طفیل ہوشیارپوری

 یوم پیدائش 17 جولائی 1914


انجُمن انجُمن شِناسائی

دِل کا پھر بھی نصیب تنہائی


خُشک آنکھوں سے عمر بھرروئے

ہو نہ جائے کِسی کی رُسوائی


جب کبھی تُم کو بُھولنا چاہا

انتقاماً تمہاری یاد آئی


جب کِسی نے مزاجِ غم پُوچھا

دل تڑپ اُٹّھا، آنکھ بھر آئی


جذبۂ دل کا اب خُدا حافِظ

حُسن مُحتاج، عِشق سودائی


طفیل ہوشیارپوری​


بسمل صابری

 یوم پیدائش 17 جولائی


وہ عکس بن کے مری چشم تر میں رہتا ہے

عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے


وہی ستارہ شب غم کا اک ستارہ ہے

وہ اک ستارہ جو چشم سحر میں رہتا ہے


کھلی فضا کا پیامی ہوا کا باسی ہے

کہاں وہ حلقۂ دیوار و در میں رہتا ہے


جو میرے ہونٹوں پہ آئے تو گنگناؤں اسے

وہ شعر بن کے بیاض نظر میں رہتا ہے


گزرتا وقت مرا غم گسار کیا ہوگا

یہ خود تعاقب شام و سحر میں رہتا ہے


مرا ہی روپ ہے تو غور سے اگر دیکھے

بگولہ سا جو تری رہ گزر میں رہتا ہے


نہ جانے کون ہے جس کی تلاش میں بسملؔ

ہر ایک سانس مرا اب سفر میں رہتا ہے


بسمل صابری


اسلم حبیب

 یوم پیدائش 16 جولائی 1950


زیست کی دھوپ سے یوں بچ کے نکلتا کیوں ہے

تو جو سورج ہے تو پھر سائے میں چلتا کیوں ہے


تو جو پتھر ہے تو پھر پلکوں پہ آنسو کیسے

تو سمندر ہے تو پھر آگ میں جلتا کیوں ہے


میرے چہرے میں جو شائستہ نظر آتا ہے

میری شریانوں میں وہ شخص ابلتا کیوں ہے


کل تمہیں نے اسے یہ پیالہ دیا تھا یارو

معترض کیوں ہو کہ وہ زہر اگلتا کیوں ہے


میری سانسوں میں سسکنے کی صدا آتی ہے

ایک مرگھٹ سا مرے سینے میں جلتا کیوں ہے


جانے کن ذروں سے اس خوں کی شناسائی ہے

پاؤں اس موڑ پہ ہی آ کے پھسلتا کیوں ہے


محفل لغو سے تہذیب نے کیا لینا ہے

ایسے شوریدہ سروں میں تو سنبھلتا کیوں ہے


اسلم حبیب


رانا التمش

 مجھ کو فراقِ یار نے پاگل بنا دیا

یعنی کہ انتظار نے پاگل بنا دیا


شاعر بنے ہوئے ہیں سبھی شہر کے مکین

سب کو تمھارے پیار نے پاگل بنا دیا


مجھ کو براۓ شوق بھی رنگیں اداؤں سے 

جانِ وفا شعار نے پاگل بنا دیا 


غربت نشیبِ بخت کا کانٹا بھی ہے مگر

لوگوں کو روز گار نے پاگل بنا دیا


تم مجھ کو چاہتی ھو یا میرے رقیب کو

مجھ کو اسی بچار نے پاگل بنا دیا


اب ہم کو التمش بہ خلوصِ لحاظِ جان

مرضِ دلِ فگار نے پاگل بنا دیا


رانا التمش


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...