یوم پیدائش 17 جولائی 1924
سوزش غم کے سوا کاہش فرقت کے سوا
عشق میں کچھ بھی نہیں درد کی لذت کے سوا
دل میں اب کچھ بھی نہیں ان کی محبت کے سوا
سب فسانے ہیں حقیقت میں حقیقت کے سوا
کون کہہ سکتا ہے یہ اہل طریقت کے سوا
سارے جھگڑے ہیں جہاں میں تری نسبت کے سوا
کتنے چہروں نے مجھے دعوت جلوہ بخشی
کوئی صورت نہ ملی آپ کی صورت کے سوا
غم عقبیٰ غم دوراں غم ہستی کی قسم
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
بزم جاناں میں ارے ذوق فراواں اب تک
کچھ بھی حاصل نہ ہوا دیدۂ حیرت کے سوا
وہ شب ہجر وہ تاریک فضا وہ وحشت
کوئی غمخوار نہ تھا درد کی شدت کے سوا
محتسب آؤ چلیں آج تو مے خانے میں
ایک جنت ہے وہاں آپ کی جنت کے سوا
جو تہی دست بھی ہے اور تہی دامن بھی
وہ کہاں جائے گا تیرے در دولت کے سوا
جس نے قدرت کے ہر اقدام سے ٹکر لی ہے
وہ پشیماں نہ ہوا جبر مشیت کے سوا
مجھ سے یہ پوچھ رہے ہیں مرے احباب عزیزؔ
کیا ملا شہر سخن میں تمہیں شہرت کے سوا
عزیز وارثی