Urdu Deccan

Monday, July 19, 2021

بیکل اتساہی

 یوم پیدائش 19 جولائی 1930


اداس کاغذی موسم میں رنگ و بو رکھ دے

ہر ایک پھول کے لب پر مرا لہو رکھ دے


زبان گل سے چٹانیں تراشنے والے

نگار و نقش میں آسائش نمو رکھ دے


سنا ہے اہل خرد پھر چمن سجائیں گے

جنوں بھی جیب و گریباں پئے رفو رکھ دے


شفق ہے پھول ہے دیپک ہے چاند بھی ہے مگر

انہیں کے ساتھ کہیں ساغر و سبو رکھ دے


چلا ہے جانب مے خانہ آج پھر واعظ

کہیں نہ جام پہ لب اپنے بے وضو رکھ دے


تمام شہر کو اپنی طرف جھکا لوں گا

غم حبیب مرے سر پہ ہاتھ تو رکھ دے


گراں لگے ہے جو احسان دست قاتل کا

اٹھ اور تیغ کے لب پر رگ گلو رکھ دے


خدا کرے مرا منصف سزا سنانے پر

مرا ہی سر مرے قاتل کے روبرو رکھ دے


سمندروں نے بلایا ہے تجھ کو اے بیکلؔ

تو اپنی پیاس کی صحرا میں آبرو رکھ دے


بیکل اتساہی


ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

 ہوگیا آزاد کا شرمندۂ تعیر خواب

”مانو“ کی تاسیس ہے اک کارنامہ لاجواب


اس کا نصب العین ہے اردو کو حاصل ہو فروغ

ہورہے ہیں اس سے ابنائے وطن اب فیضیاب


اس کے ذریں کارنامے شہرۂ آفاق ہیں 

ہے نہایت کار آمد اس کا تعلیمی نصاب


اردو کی تاریخ میں روشن رہے گا اس کا نام

ہورہا ہے اس سے برپا ایک ذہنی انقلاب


ہے یہ دانشگاہ اک شمعِ فروزاں علم کی

ہیں تراجم اس کے اردو میں نہایت کامیاب


سب کا منظور نظر ہے اس کا تعلیمی نظام

اس کے تعلیمی مراکز علم ودانش کا ہیں باب


علم و دانش کے ہراک شعبے میں ہیں اس کی کتب

تشنگان علم و فن ہوتے رہیں گے فیضیاب


ہے یہ اردو کی اشاعت کے لئے اک فال نیک

کرتی ہے یہ مستقل اپنے عمل کا احتساب


لایقِ تحسیں ہے برقیؔ اس کی علمی پیشرفت

ہے یہ دانشگاہ اقصائے جہاں میں انتخاب


احمد علی برقیؔ اعظمی 


شازیہ نیازی

 وحشت جب التجاؤں کے حصے میں آگئی

زاری پھٹی رداؤں کے حصے میں آگئی


اک شہر تیرے نام سے منسوب ہوگیا

تہذیب میرے گاؤں کے حصے میں آگئی


ایڑی رگڑ کے ہار گئے آج کے عوام

اور جیت رہمناؤں کے حصے میں آگئی


عشق و وفا کی راہ تباہی شعار ہے

میں کس طرح بلاؤں کے حصے میں آگئی


ناداں سپاہی جنگ میں دل ہار کر گیا

تلوار میرے پاؤں کے حصے میں آگئی


اک بیج کی، شکم میں جو بنیاد پڑگئی

دولت وفا کی ، ماؤں کے حصے میں آگئی


شازیہ نیازی


فنا نظامی کانپوری

 یوم پیدائش 18 جولائی 1922


دل سے اگر کبھی ترا ارمان جائے گا

گھر کو لگا کے آگ یہ مہمان جائے گا


سب ہوں گے اس سے اپنے تعارف کی فکر میں

مجھ کو مرے سکوت سے پہچان جائے گا


اس کفر عشق سے مجھے کیوں روکتے ہو تم

ایمان والو میرا ہی ایمان جائے گا


آج اس سے میں نے شکوہ کیا تھا شرارتاً

کس کو خبر تھی اتنا برا مان جائے گا


اب اس مقام پر ہیں مری بے قراریاں

سمجھانے والا ہو کے پشیمان جائے گا


دنیا پہ ایسا وقت پڑے گا کہ ایک دن 

انسان کی تلاش میں انسان جائے گا 


فنا نظامی کانپوری


گھر ہوا، گلشن ہوا، صحرا ہوا

ہر جگہ میرا جنوں رسوا ہوا


غیرتِ اہلِ چمن کو کیا ہوا

چھوڑ آئے آشیاں جلتا ہوا


میں تو پہنچا ٹھوکریں کھاتا ہوا

منزلوں پر خضر کا چرچا ہوا


حُسن کا چہرہ بھی ہے اُترا ہوا

آج اپنے غم کا اندازہ ہوا


غم سے نازک ضبطِ غم کی بات ہے

یہ بھی دریا ہے مگر ٹھہرا ہوا


پرسش غم آپ رہنے دیجئے

یہ تماشا ہے مرا دیکھا ہوا


یہ عمارت تو عبادت گاہ ہے

اس جگہ اک میکدہ تھا کیا ہوا


رہتا ہے مےخانے ہی کے آس پاس

شیخ بھی ہے آدمی پہنچا ہوا​


اس طرح رہبر نے لوٹا کارواں

اے فنا رہزن کو بھی صدمہ ہوا


 فنا نظامی کانپوری


منیب الرحمن

 یوم پیدائش 18 جولائی 1924


پیڑوں سے دھوپ پچھلے پہر کی پھسل گئی

سورج کو رخصتی کا افق سے پیام ہے


پھیلا ہوا ہے کمرے میں احساس بے حسی

خاموشیوں سے بے سخنی ہم کلام ہے


آہٹ ہو قفل کھلنے کی دروازہ باز ہو

آنکھوں کو اب یقیں ہے یہ امید خام ہے


یہ عمر سست گام گزرتی ہے اس طرح

ہر آن دل کو وقت شماری سے کام ہے


رہتی ہے صرف اس سے تصور میں گفتگو

آرام گاہ روح میں جس کا مقام ہے


وہ ہم سفر جو چھوڑ کے آگے چلے گئے

اے موجۂ ہوا انہیں میرا سلام ہے


ہر اک کو ناگزیر ہوئی دعوت فنا

ٹھہراؤ ہے سحر کو نہ شب کو دوام ہے


ہیں ان کہے بہت سے سخن ہائے گفتنی 

افسانۂ حیات سدا ناتمام ہے


دن جا رہا ہے جیسے جدا ہو رہے ہیں دوست

کیسی بجھی بجھی سی یہ گرمی کی شام ہے


منیب الرحمن


عابد حسین صائم

 یوم پیدائش 18 جولائی 1997


میں تیرے پاس جو بیٹھوں تو ڈر نہیں لگتا

وگرنہ گھر بھی مجھے اپنا گھر نہیں لگتا


ہر ایسا پیڑ کہ پتھر بھی نا لگے جس کو

بتا رہا ہے کہ مجھ پر ثمر نہیں لگتا


یہ کس غریب کے بچے کو مار ڈالا ہے

ارے تجھے تو خدا سے بھی ڈر نہیں لگتا


یہ کیا کہا وہ ہمارے ہی جیسا دکھتا ہے

ہمارے جیسا ہے بلکل مگر نہیں لگتا


یہ زندگی مری کچھ پل کا مشغلہ ہے بس

طویل عرصے کا مجھ کو سفر نہیں لگتا


عابد حسین صائم


منور پاشاہ ساحل تماپوری

 یوم پیدائش 18 جولائی 1963


پیڑ کی مانند دن بھر سر پہ جلتا سورج ڈھوتے ہیں

پھر بھی اپنےحصے ہی کیوں غم کے سائے ہوتے ہیں


پریوں اور شہزادوں کے اب قصے کون سناتا ہے

قتل اورخوں کی خبریں سنکر آج کے بچے سوتے ہیں


جس نے بھی روزی کی خاطر گھر اورگاؤں چھوڑ دیا

اس سے پوچھوکہ ماں بیوی اور بچے کیا ہوتے ہیں


أنسو چھالے آہیں یادیں اور امید

سانسوں کی ڈوری میں ہم بھی کیا کیا پھول پروتے ہیں


کون بتائے ان آشفتہ سر لوگوں کو اے ساحل 

زخم زباں کا باعث اکثر اپنے دانت ہی ہوتے ہیں


منور پاشاہ ساحل تماپوری


محسن کشمیری

 صدق و وفا کی اب وہ روایت نہیں رہی

کہتے ہیں اہل دل وہ محبت نہیں رہی


کھا کر فریب مال و متاعِ جہان کے

شوقِ جنوں میں ہائے حرارت نہیں رہی


کیسے میں اعتبار کروں تیری بات پر

تیرے بیاں میں اب وہ صداقت نہیں رہی


دل کی خطا نہیں ہے یہ آنکھوں کا ہے قصور

ہے معذرت! کہ غم کی حفاظت نہیں رہی


تھا حوصلہ تو دشت و بیاباں میں سربہ کف

لڑتے تو تھے پر اب وہ شجاعت نہیں رہی


یادوں میں عکس آج بھی موجود ہے تیرا

گر درمیان اب وہ قرابت نہیں رہی


ٹوٹا کچھ اس طرح سے گماں میرے پیار کا

تا عمر وصلِ یار کی چاہت نہیں رہی


محسن کو مانگنے کا سلیقہ تو کر عطا

کہتے ہیں اب دعا میں اجابت نہیں رہی


محسن کشمیری


Saturday, July 17, 2021

عابد علی عابد حافظ آبادی

یوم پیدائش 17 جولائی 1977


خوابِ طیبہ کے سوا میری نظر میں کچھ نہیں

جز ثنائے مصطفیٰ اس بے ہنر میں کچھ نہیں


بس درِ شاہِ امم کی خاک ہی درکار ہے

فائدہ مالِ جہاں، لعل و گہر میں کچھ نہیں


راحتیں ہی راحتیں ہیں، شوق ہوتا ہے فزوں

مشکلیں شہرِ پیمبر کے سفر میں کچھ نہیں


مدحتِ خير البشر  میں رہتا ہوں ایسا مگن

کام مجھ کو اور تو شام و سحر میں کچھ نہیں


سرورِ کون و مکاں کی عظمتیں پہچانیے

ورنہ لوگو اس جہانِ خشک و تر میں کچھ نہیں


مالکِ ارض و سما کی ہے محبت جاگزیں 

کون کہتا ہے مرے قلب و جگر میں کچھ نہیں


رحمتوں کا بخششوں کا در مدینے میں کھلا

بے ادب کہتے رہیں ان کے نگر میں کچھ نہیں


ان کی ضو سے ہی درخشاں کر رہا ہے دنیا کو

نور ہے سرکار کا ویسے قمر میں کچھ نہیں


حاضرو ناظر ،شفیع ونور ہیں ،مختار ہیں

جو خلاف اس کے ہو عابد اس خبر میں کچھ نہیں


عابد علی عابد حافظ آبادی


عقیل دانش

 یوم پیدائش 15 جولائی 1940


اس مریض غم غربت کو سنبھالا دے دو

ذہن تاریک کو یادوں کا اجالا دے دو


ہم ہیں وہ لوگ کہ بے قوم وطن کہلائے

ہم کو جینے کے لئے کوئی حوالہ دے دو


میں بھی سچ کہتا ہوں اس جرم میں دنیا والو

میرے ہاتھوں میں بھی اک زہر کا پیالہ دے دو


اب بھی کچھ لوگ محبت پہ یقیں رکھتے ہیں

ہو جو ممکن تو انہیں دیس نکالا دے دو


وہ نرالے ہیں کرو ذکر تم ان کا دانشؔ

اپنی غزلوں کو بھی انداز نرالا دے دو


عقیل دانش


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...